آدمی کا کوئی علاج نہیں

عبدالکریم شاد

آدمی کا کوئی علاج نہیں
لالچی کا کوئی علاج نہیں

تشنگی کا کوئی علاج نہیں
مے کشی کا کوئی علاج نہیں

ایک میں ہی ہوں لا علاج یہاں
یا کسی کا کوئی علاج نہیں؟

دل سے کرتے رہے علاجِ خرد
اب اُسی کا کوئی علاج نہیں

دیکھو! پرہیز عشق سے کریو
ورنہ جی کا کوئی علاج نہیں

ہر مرض کا علاج ہے لیکن
عاشقی کا کوئی علاج نہیں

دل لگانے سے پہلے سوچ تو لو
اس لگی کا کوئی علاج نہیں

تیری آنکھیں مریض ہیں جب تک
تیرگی کا کوئی علاج نہیں

ایک مجنوں نے انکشاف کیا
زیرکی کا کوئی علاج نہیں

بے رخی سے شفا تو ممکن ہے
بے دلی کا کوئی علاج نہیں

میں صفائی بھی اس کو کیا دیتا
بد ظنی کا کوئی علاج نہیں

وقت کی ساری کوششیں بے کار
بے حسی کا کوئی علاج نہیں

ہو تو جاتی ہے ٹھیک پہلی نظر
دوسری کا کوئی علاج نہیں

مسکراہٹ کے گھول سے بہتر
برہمی کا کوئی علاج نہیں

تیرے دیدار کے سوا جاناں!
بے کلی کا کوئی علاج نہیں

جو نہیں جستجو کا شوق تجھے
گم رہی کا کوئی علاج نہیں

اور نسخے نہ آزما اے وقت!
شاد جی کا کوئی علاج نہیں

تبصرے بند ہیں۔