اب تین طلاق گناہ بھی ہوگئیں!

حفیظ نعمانی

اب تک مسلسل یہ ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی مسئلہ عدالت میں ہوتا تھا تو بڑے بڑے ذمہ دار اور عہدیدار اس مسئلے پر بات کرتے کرتے یہ کہہ کر اسے نامکمل چھوڑ دیتے تھے کہ مسئلہ عدالت میں ہے اس لئے ہم اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت میں مسلک کا سب سے اہم مسئلہ زیرغور ہے اور ہر چینل پر جمن خاں ، بی بی سکینہ، کانتی دیوی، مولوی فضول بیگ اور مہاشے کس قدر تین طلاق پر جم کر ایسے بحث کررہے ہیں جیسے وہ جو فیصلہ کردیں گے بس اسی فیصلہ کو سپریم کورٹ کے فاضل جج اپنا فیصلہ بنا دیں گے۔ حکومت کو بھی اس مقدمہ میں مزہ آرہا ہے۔ وہ بھی گلی گلی میں ہونے والے مباحثوں پر نہ پابندی لگاتی ہے اور نہ اعلان کرتی ہے کہ اگر اس موضوع کو تماشہ بنایا گیا تو سزا دی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ حلالہ اور ایک سے زیادہ شادیوں پر بعد میں غور کیا جائے گا اور ایک رپورٹر کمال خاں بھی آجکل صرف اس پر لگے ہیں کہ اُترپردیش میں طلاق کے کس واقعہ کو تلاش کریں اور حلالہ بھی مل جائے تو اسے اور دلچسپ بنادیں ۔ انہوں نے ایک معاملہ ڈھونڈ نکالا کہ ایک مسلمان نے تین طلاق یعنی تین گولیاں ماریں اور بیوی اپنے بچہ کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔ اس کے بعد گھر میں سب کو فکر ہے کہ بچہ کیسے واپس آئے؟ وہ اتنا چھوٹا ہے کہ کسی بھی عدالت سے نہیں مل سکتا۔ اس کا علاج یہ سوچا گیا کہ حلالہ کرایا جائے اور اب شوہر ایک ایسے مسلمان کی تلاش میں ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق حلالہ کردے۔ حیرت کی بات ہے کہ پڑھے لکھوں نے حلالہ کو حرامہ بنا لیا ہے۔ اور سپریم کورٹ بھی اب نہ سہی بعد میں حلالہ پر بھی غور کرنے کے لئے تیار ہے؟ ایک وقت میں تین طلاق تو عام طور پر جاہل اور دین سے ناواقف کسی ایسی بات پر بھی دے دیتے ہیں جو وقتی ہو اور چھوٹی سی ہو زیادہ تر اس کا سبب غصہ ہوتا ہے۔ لیکن حلالہ کی بات تو اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اپنے کئے پر پچھتاتا ہے اور سوچتا ہے کہ تین زندگیاں برباد ہوجائیں گی اس وقت نہ غصہ ہوتا ہے نہ جذبات اور نہ لگائی بجھائی کرنے والے۔

حیرت اس پر ہے کہ جب ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ طلاق کی عدت ہوتی ہے جو ہفتہ دو ہفتہ نہیں چار مہینے کے قریب ہے اس عرصہ میں مطلقہ زیادہ تر اپنے ماں باپ یا بھائی یا چچا کے گھر چلی جاتی ہے۔ ان میں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ فیصلہ کرلیتی ہیں کہ اب شادی نہیں کرنا۔ اور وہ بھی ہوتی ہیں جو شادی کرلیتی ہیں اور اطمینان کی زندگی گذارتی ہیں ۔ ان میں سے کسی کے حلالہ کی بات کہاں سے آگئی؟ حلالہ شریعت کے ہزاروں قوانین میں سے ایک قانون ہے۔ جیسے ملک کے قانون میں دس مرتبہ اگر اور مگر آتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے قوانین میں ایک قانون یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو کیا پھر اس سے نکاح ہوسکتا ہے؟ شریعت نے اس کے لئے سزا مقرر کردی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مطلقہ عورت اپنے باپ بھائی کے پاس رہے اور عدت پوری کرلے تو وہ جس سے خود چاہے یا ماں باپ چاہیں نکاح کرسکتی ہے۔ لیکن جس نے طلاق دے دی تھی عدت گذارنے کے بعد اس کے ساتھ اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک اس کا دوسرا شوہر بھی اسے طلاق نہ دے چکا ہو۔ یہ اس بات کی سزا ہے کہ تم نے طلاق کیوں دی تھی؟

جاہل مولویوں اور مسجد کے نام کے اماموں نے پیسے لے کر حلالہ کو حرامہ بنا دیا اور ایسے پیشہ ور حرامی ڈھونڈ نکالے جو نکاح کریں گے اور پیسے لے کر دوسری صبح کو طلاق دے دیں گے اور پھر عدت کے عذاب سے گذرکر اس کا نکاح اس شوہر سے کرادیں گے اور اس میں ایک سال کے قریب لگ جائے گا۔ یہ ڈرامہ کہیں کہیں اور کبھی کبھی ہوتا ہے اس کے لئے جتنی بھی سزا دی جائے وہ کم ہے کیونکہ یہ نکاح نہیں بلکہ رنڈی اور دلا ّل والا کام ہے جو وہ آئے دن کرتے ہیں اور یہی ذریعۂ معاش ہے۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ طلاق کے بعد زیادہ تر لڑکیاں باقی زندگی ماں باپ کے یا عزیزوں کے پاس گذار دیتی ہیں اور ان میں جو تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ کہیں اسکول میں پڑھاتی ہیں یا اپنے طور پر ٹیوشن کرکے یا سلائی کڑھائی کرکے زندگی گذار لیتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق ہمارے سماج میں ایک ایسی گالی بن گئی ہے جس کے بعد لڑکی اندر سے ٹوٹ جاتی ہے۔ اور وہ دوبارہ یہ تجربہ نہیں کرنا چاہتی۔ سوائے ان کے جن کا کوئی سہارا نہ ہو۔

دارالعلوم دیوبند نے ایک فتوے کے ذریعہ کہا ہے کہ تین طلاق دینے والے پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عورت جتنے دن عدت کے گذارے مرد کو اتنے دن جیل میں رکھا جائے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ طلاق کی بھی سزا ہو اور اتنی ہو کہ دینے والے کے سامنے تلوار لٹکی رہے۔ عدالت عظمیٰ نے سلمان خورشید کو مسلمان سمجھ کر اپنا معاون بنا لیا ہے۔ ان کی اسلامیت کا یہ حال ہے کہ انہوں نے شریعت کے اس مسئلہ کو جس پر قرآن، حدیث اور اجماع صحابہؓ کی مہر لگی ہوئی ہے یعنی طلاق۔ اس کے بارے میں ان سلمان صاحب نے کہا ہے کہ میری ذاتی رائے میں تین طلاق گناہ ہے اور اسلام کبھی بھی گناہ کی اجازت نہیں دیتا۔ اپنے اس بیان کے بعد بھی وہ مسلمان رہے یا نہیں یہ تو مفتی صاحبان ہی بتائیں گے؟

ایک واقعہ پڑھا تھا کہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام ابویوسفؓ ایک دن کھانا تناول فرمارہے تھے کہ اتنے میں ایک مہمان آئے۔ امام صاحب نے اصرار کے ساتھ کھانے میں شامل کرلیا۔ ان کے سامنے جس رکابی میں لوکی کی سبزی تھی اسے مہمان نے اپنے سامنے سے ہٹا دیا۔ امام یوسفؒ نے فرمایا کہ یہ لوکی ہے؟ مہمان نے جواب دیا کہ مجھے بالکل اس سے رغبت نہیں ۔ امام صاحب نے فرمایا کہ کھڑے ہوجائو اور ہاتھ دھوکر تجدید ایمان کرو۔ جو چیز آقا مولا حضرت محمدؐ کو بیحد مرغوب تھی تم کو اس سے رغبت نہیں تو تمہارا ایمان نہیں رہا۔ اور جو تھوڑا سا علم اس گناہگار کے پاس ہے وہ تو یہ ہے کہ طلاق تو تین ہی ہوتی ہیں ۔ بحث یہ نہیں ہے کہ وہ دو ہوں یا چار بلکہ یہ ہے کہ ایک نشست میں دی جائیں یا وقفہ وقفہ سے۔ اور کانگریسی مسلمان سلمان خورشید کے نزدیک تین طلاق گناہ ہے۔ میرے سامنے 16  مئی کا سہارا ہے جس میں پہلے صفحہ پر یہ بیان ہے۔ اس کے بعد کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ چیف جسٹس سے درخواست کرے کہ اتنے بڑے مسلمان کو اپنی مدد کے لئے نہ رکھیں بلکہ ہم دوسرا مسلمان دیئے دے رہے ہیں ۔ سلمان خورشید صرف وکیل ہیں اس کے بعد کانگریسی ہیں اور اس کے بعد مسلمان ہیں کہ نہیں اس کا ہمیں علم نہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔