اب عدالت نے بھی بلوغ کیلئے عمر 18  سال مان لی

حفیظ نعمانی

سپریم کورٹ کو حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کیلئے جو بہتر سمجھے وہ فیصلہ کرے۔ یہ بات سپریم کورٹ ہی نہیں حکومت سے بھی متعلق ہے کہ ووٹ دینے کی عمر یا شادی کی عمر وہ متعین کرے لیکن یہ شرط نہ لگائے کہ بالغ بھی ہو۔ بلوغت کی کوئی عمر متعین نہیں ہے حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ بچہ یا بچی اٹھارہ سال ہونے پر ہی بالغ ہوتے ہیں۔ بچپن کی شادی سماج کی قدیم رسموں میں سے ایک ہے۔ حکومت نے جب جب اس پر پابندی کی بات کی ہے تو سامنے آیا ہے کہ فلاں فلاں اور فلاں کی شادی بچپن میں ہی ہوئی تھی اور اب بھی ایسی شادیاں ہورہی ہیں۔ ہندوئوں میں اس کے بارے میں جو سماج کے بزرگ کہتے ہیں وہ ان کا معاملہ ہے۔ ہم نے مسلمانوں میں خاص طور پر دیہاتوں میں اس کا رِواج زیادہ دیکھا۔

ہمارے نانہالی رشتے دیہاتوں میں بھی ہیں۔ جب کبھی ان کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اور معلوم ہوا کہ اس بچی کی شادی فلاں جگہ اور اس کی فلاں جگہ ہوگئی ہے تو قدرتی طور پر منھ سے نکلا کہ ابھی سے شادی کیوں کردی ابھی تو پڑھنے اور کھیلنے کے دن ہیں ؟ تو جواب ملا کہ گائوں کے اور شہر کے حالات میں بہت فرق ہے۔ گائوں کی رہائش ایسی ہے کہ بچیوں کو باہر جانے سے نہیں روکا جاسکتا اور زمانہ بہت خراب ہے۔ مغربی اضلاع میں۔ دیہاتوں میں اکثر پکے مکان ہیں اور بیت الخلا بھی بنے ہوئے ہیں جہاں صفائی مزدور صفائی کرتے ہیں اور اب اکثر گھروں میں فلش بن گئے ہیں۔ اس کے باوجود بچیاں کھیتوں میں اور باغوں میں کھیلتے کھیلتے چلی جاتی ہیں۔

ہم 1946 ء سے لکھنؤ میں ہیں اس سے پہلے مشرقی اضلاع اور یہاں کے رسم و رِواج سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ اور جب جانا ہوا تو وہ دیکھا جو سوچا بھی نہیں تھا۔ ہمارے گھر میں کوئی نہ کوئی عورت یا لڑکی گھر کے کاموں میں مدد کرنے کے لئے رہی اور آج بھی ہیں۔ ان کی لڑکیاں یا وہ لڑکیاں گائوں کی رہنے والی ہیں اور انتہائی غریب ہیں لیکن ہر کوئی چاہتا ہے کہ فرصت میں ٹی وی دیکھیں اور تنخواہ ملتے ہی موبائل خرید لیں۔ گھر کے بچوں بچیوں کو پڑھتا دیکھ کر لہر تو آتی ہے کہ ہم بھی پڑھیں ، مگر جب ان کے پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے تو ہفتہ دو ہفتہ تو بڑے شوق سے پڑھیں گی اور جب ماسٹر صاحب آموختہ سنیں گے یا معلوم کریں گے کہ ہم جو کام دے گئے تھے وہ دکھائو کیا کیا تو اس دن کے بعد سے سر میں درد اور آنکھوں سے پانی نکلنے لگتا ہے۔ لیکن ٹی وی کی ہر ہیروئین کا نام معلوم ہے۔

یہ سب وہ ہیں جو گائوں میں ہوتی ہیں تو قضائے حاجت کے لئے کھیتوں میں جاتی ہیں اور جن کی خبریں ہر دن اخباروں میں آتی ہیں کہ آبروریزی بھی کی اور اس خوف سے کہ پہچان لیا ہے جان بھی لے لیتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر لڑکی کسی کی ہیروئین ہوتی ہے اور ہر لڑکا ہیرو۔ اور ان میں ایک بھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوتی۔

بعض لوگوں کے مزاج میں کریہ کی بیماری ہوتی ہے اور اکثر لوگ ہم جیسے ہوتے ہیں کہ جس سے کام ہے صرف اس سے مطلب ہے یا کوئی گھر میں بیمار یا پریشان ہے تو اس کی مدد کے بارے میں کچھ کردیتے ہیں لیکن جن کے مزاج میں کریہ ہوتی ہے وہ پورا شجرہ معلوم کرلیتے ہیں انہوں نے ہی برسوں کی تحقیق اور چھان بین کے بعد بتایا تھا کہ گائوں میں رہنے اور کھیتوں میں ضرورت کے لئے جانے والی سو میں شاید دس لڑکیاں ایسی ہوں جن کو داغ نہ لگا ہو ورنہ سب داغدار ہوتی ہیں۔ اور یہ داغ طاقت کے بل پر ہی نہیں پیسے اور شوق کے بل پر بھی لگتے ہیں۔

حکومت اور عدالت دونوں باتوں کو ایک نہ کرے کہ بالغ ہو اور عمر اٹھارہ سال ہو۔ صرف عمر کی بات کرے بلوغت کی نہیں کیونکہ بلوغ کے بغیر کوئی بچی ماں نہیں بن سکتی اور آپ نے بھی ایسی خبریں پڑھی ہوں گی کہ 13  یا 14  سال کی بچی ماں بن گئی۔ پندرہ سال تک پہونچتے پہونچتے تو اکثر بچے بالغ ہو ہی جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ اگر ایک سال کے اندر ان کے پاس شکایت آئے تو… جو شادی والدین کی رضامندی سے ہوتی ہے اس میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں نکاح اور رُخصتی کو الگ الگ کردیا ہے اور کم تعلیم یافتہ یا جاہلوں میں شادی اور گونا یا مغربی اضلاع میں چالا اُن کی حیثیت وہی ہے جو رُخصتی کی ہے اور لڑکی کے ماں باپ رُخصتی یا گونا اس وقت تک نہیں کرتے جب تک لڑکی بالغ نہ ہوجائے۔ اس کے بعد شکایت شرارت اور سازش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔ یہ موضوع ایسا تھا نہیں کہ اس میں سپریم کورٹ دخل دیتا اور نہ اس کی حیثیت منشی کی ہے یہ تو ہر گھر کی اپنی اپنی ضرورت اور مصلحت پر منحصر ہے۔

پندرہ یا سترہ سال کی لڑکی کو صرف اس لئے نابالغ کہنا غلط ہے کہ وہ 18  سال کی نہیں ہے۔ لڑکیاں تو عام طور پر 14  یا اس سے بھی کم عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں دہلی کا وہ شرمناک واقعہ جس میں ایک گناہگار کو صرف اس لئے تین سال کی سزا دی گئی کہ وہ 17  سال کا تھا جبکہ سب سے بڑام مجرم وہی تھا۔ اور اسی لئے اس وقت ہر طرف سے یہ آواز اٹھی تھی کہ بالغ کے لئے 18  سال کی شرط ہٹاکر ڈاکٹروں سے معائنہ کو بنیاد بنایا جائے لیکن حکومت اور عدالت 18  پر ہی اَڑے ہوئے ہیں جبکہ عمر اور بلوغ پر ان کا اختیار نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔