اب لگیں گے عید مبارکباد کے بینر

یاسر محمود

ہر سال کی طرح اس سال بھی شہر بھر میں عید مبارک کے بڑے بڑے بینر لگنے شروع ہو گئے ہیں.

جنہیں گلی محلے میں کوئی نہیں پہچانتا، جنہیں گلی کی مستورات دیکھ کر اندر ہو جاتی ہیں، جنکو گزرتا دیکھ کر شریف لوگ راستہ بدل لیتے ہیں، جنکے گلی محلہ میں ہونے پر تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ گھر سے نہیں نکلتے، جنکے ہوٹر اور سیاسی جھنڈے والی کاریں دیکھکر لوگ راستہ چھوڑ دیتے ہیں، جن سفید پوشوں کی بائک سوار اولاد کو دیکھکر اسکول جاتی لڑکیاں راستہ بدل دیتی ہیں اور خوف کے مارے سہم جاتی ہیں، جن کی بے لگام اور کھونٹے سے کھلے ہوئے بگڑیل بیل کی مانند بائک سوار اولاد کے خوف کیوجہ سے شرفاء اور مہذب لوگ اپنی بچیوں کے اسکول سے ایڈمیشن کینسل کرالیتے ہیں، جنہیں دیکھکر بڑے بوڑھے لاحول پڑھنے لگتے ہیں کہ اب یا تو یہ ستائے گا یا اپنی موٹر سائیکل سے اپنے سیاسی تعلق اور سیاسی طاقت کا اظہار کریگا اور بچیوں کو خوفزدہ کریگا……جی ہاں! یہی لوگ ہیں جو کسی قبائلی تہذیب کے دور کے سردار کی یاد زندہ کرتے ہیں…… یہی معززین شہر کالا چشمہ لگائے ہوئے، سفید سوٹ میں ملبوس، ہاتھوں میں موبائل لئے بڑی شان اور شوکت کیساتھ بارعب انداز سے ہر چوراہے اور عام شاہراہوں کے بورڈ پر عید کی مبارکباد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، انکے مصاحبین کی نگاہ میں انکے نورانی پوسٹرس اور پر رونق ہورڈنگس عید کے موقع پر شاہراہوں کی زینت ہوتے ہیں… ہاں! یہی معززین شہر ہیں جنکے در پر مسجدوں کے کتنے امام، کتنے شہری مذہبی قائد، علماء اور مقررین و اساتذہ عیدین پر جاکر انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور انکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے انکے در پر حاضری کا موقع تلاشتے رہتے ہیں اور انکے گھر جاجاکر انفرادی اعمال تسبیح و اذکار، نوافل و اعتکاف کے بدلے انکے مظالم اور انکے جرائم کی بخشش اور جنت کے اعلی مقام کی تسلیاں انہیں دیتے رہتے ہیں۔ ان سفید پوش معززین کے کارپوریٹ حج-عمرہ ہوں یا معمولی انفرادی اعمال’ مساجد کے امام، واعظین و مقررین اور علماء ہر موقع پر انہیں جاکر انکی دنیاوی و اخروی نجات اور انکے تمام جرائم اور مظالم کی بخشش کیساتھ جنت میں اعلی مقام کی بشارتیں دینا نہیں بھولتے۔

یقینا ہر چوراہے اور شاہراہوں پر ان سفید پوش، دولت و رسوخ،  اور شان و شوکت کا اظہار کرتی انکی بارعب تصویروں کو دیکھ کر کیمرہ مین کی داد دینی لازمی ہو جاتی ہے۔

ایسے احباب اگر اتنے پیسے بینر میں نہ ڈالتے ہوئے اپنی ہی گلی محلے کے مجبور،  بے سہارا لوگوں کی مدد کریں تو امداد بھی ہو جائے اور ان کے اس کام کے بدلے میں روز محشر اجر بھی مل جائے۔ لیکن یہ بھلا ایسا کیسے اور کیونکر کرسکتے ہیں…یہ تو الٹی گنگا بہانے کی مانند ہوگیا۔ انکے تو چہروں کی سرخی ہی غرباء کے زمینی، سماجی، سرکاری اور عوامی حقوق غصب کرکے اور انکے خون چوس چوس کرکے آتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔