عیدالفطر کا پیام ملت اسلامیہ کے نام !

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

تہوار، ہر قوم کی سماجی زندگی کا ایک اہم عنصر اورلازمی جزہے،اقوام عالم کی تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ ہردین ومذہب اور معاشرہ وسماج میں کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرورمقررتھا ؛ جسےلوگ اپنے اپنے عقائد، تصورات، روایات اور ثقافتی اَقدار کے مطابق مناتےتھے،مورخین لکھتےہیں کہ  ایرانی، فریدون بادشاہ  کی فتح عظیم کی یادمیں ‘‘مہرجان’’  نامی تہوارمناتے تھے،اہل مصر عہدقدیم سے ‘‘نوروز’’نامی عیدمناتے تھے ؛جسے قرآن مجید میں یوم الزینۃ سے تعبیر کیاگیا،بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر فرعون کے مظالم سے یومِ نجات کو یومِ عیدبنارکھاتھااورحضرت ابراہیم ؑ کی قوم بھی شہر سے باہراکھٹا ہوکرپوری شان وشوکت کےساتھ  اپنا تہوار مناتی تھی ۔

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تصور ِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور تہذیب وثقافت  کا مشترک حصہ ہے؛مگرچوں کہ غیرمسلم اور قدیم قومیں اپنے سامنے کوئی نظریہ نہیں رکھتیں؛ اس لئے ان کی یہ عیدیں، لہو و لعب،رقص وسروداور ناؤونوش کےسوا  کچھ نہیں ہوتیں اس  کےبرعکس اسلام دین فطرت ہے ، اس نے اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کئے ؛جن کو عربی میں عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے۔

’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے ماخوذہے،جس کامعنیٰ ‘‘لوٹنے’’کے ہیں، کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر باربار لوٹ کر آتاہے اورہرمرتبہ نئی نئی خوشیاں ساتھ لاتاہے، اس لئے اس کو عید کہتے ہیں۔

اسلام میں عیدکاآغاز:

خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدُّن اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناں چہ رسول اللہ ﷺ کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی مندرجہ ذیل حدیث میں ملتا ہے۔ ’’ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟)، انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیئے ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔

 ان اسلامی تہواروں کی اپنی جداگانہ اور امتیازی شان ہے،غیر مسلم اَقوام اپنے ایامِ عید میں اعتدال کی حدوں کوپھلاند کرعیش وعشرت، مستی و طرب،رنگ وناچ میں مشغول ہوجاتی ہیں؛کیونکہ ان کے نزدیک حاصل زندگی بس یہی کچھ ہے؛لیکن  اس کے برخلاف مسلمانوں کی دونوں عیدیں جب شروع ہوتی ہیں، تو اُس دن کا آغاز دو رکعت نماز ِ عید سے ہوتا ہے اور مسلمان یہ نماز ادا کر کے اس بات کا عملی اظہار کرتے ہیں کہ ہماری عید صرف و ہی ہے؛ جس میں ہمارے رب تعالیٰ جل شانہ کی خوشنودی اور رضا مندی ہو ؛اس لئے کہ جس بندے سے اُس کا خالق و مالک نا راض ہو اس کیلئے بھلا خوشی کا کیا مطلب اور مسرت کا کیا موقع ؟؟

اسلام نے خوشی اور مسرت کے اظہار سے منع نہیں کیا اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دینی زندگی اختیار کرنے کا مطلب صرف خشک مزاجی اور روکھا پن ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ رحمت ِ دو عالم  ﷺکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرے ، جہاں اُسے زندگی اپنی تمام تر حقیقی رعنائیوں اور خوبصورت رنگینیوں کے ساتھ نظر آئے گی ۔ خوش مزاجی،اعلی ظرفی،خندہ پیشانی،ہمدردی ورواداری ،دائمی تبسم وغیرہ یہ سب کچھ اُس نبیٔ رحمت  ﷺکی سیرت کے ہر ورق پر ہمیں مل جائے گا ؛جنہیں قیامت تک کے انسانوں کیلئے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا گیا ؛البتہ اسلام نے ایسی تفریحات سے ضرور روکا ہے جو معاشرے میں خرابیوں کے جنم لینے کا باعث بنیں یا اُن سے کسی قسم کی اخلاقی بے راہ روی پیدا ہو۔

عیدالفطر کا پس منظر:

جب بندہ تیس دن تک لگاتار روزے رکھتا ہے ، اس کے عملی تقاضے پورے کرتا ہےاور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی ہرممکن کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فریضۂ صوم کی ادائیگی کے بعد اسے اپنی  اطاعت شعاری کا ظاہری بدلہ اورنقدانعام عید الفطر کی شکل میں عنایت فرماتا ہے ؛جس طرح فریضۂ حج کی ادائیگی کےبعد عیدالاضحی کی شکل میں خوشی ومسرت کاموقع دیاجاتاہے۔

 اس دن جب بندہ کو مزدوری ملتی ہے تواس کے صحن میں بے پناہ خوشیاں رقص کرنے لگتی ہیں،وہ مختلف شکلوں میں اس کا اظہارکرتاہےاوراس خوشی  میں اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بھی شریک کرتاہے اس طرح عید کے دن انعام یا مزدوری ملنے کے بعد یہ بندہ اپنے احباب اور اہل خانہ کے ساتھ اپنی مسرتوں کو تقسیم کرتا ہے ۔

یہ ہماری اس اخروی مزدوری کی ہلکی سی جھلک اور ادنیٰ سامظہر ہے؛جس کا اللہ عزوجل نے ہم سے وعدہ فرمارکھاہے ۔

عید کا مقصد :

مفکر اسلام علی میاں ندوی ؔ ؒ فرماتے ہیں کہ :‘‘اللہ جلّ شانہٗ نے فرضیت صیام کا مقصد بیان کرنےکےبعداگلی آیت میں عید کا بھی ذکر فرمایا؛جس میں عید کا نام تو نہیں آیا، لیکن عید کا منشا، عید کا مقصد ،عید کا وظیفہ اور عید میں کرنے کا کام، یہ سب اس میں آگیا کہ  اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزہ کی توفیق دی لہذاجب رمضان آئے اور خیریت کے ساتھ، توفیق الہٰی کے ساتھ، دن کے روزوں کے ساتھ، رات کی عبادتوں کے ساتھ گذر جائےتو’’ولتکبروااللّٰہ علی ماھداکم‘‘ اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اللہ نے ہدایت دی، ایمان واسلام کی دولت سے نوازا اور پھر توفیق دی، اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہوتی تو کہاں کا رمضان اور کہا ں کا روزہ، دنیا میں پچاسوں قومیں ہیں، سیکڑوں افراد ہیں وہ اتنا جانتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں میں آتا ہے، جیسے ہمارے یہاں مہینہ آتا ہے، انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب رمضان آیا اور کب ختم ہوگیا ور ان کے مہینوں اور رمضان میں کیا فرق ہے۔

 پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی؛اس لئے اس کی بڑائی بیان کی جائےاور زیادہ سے زیادہ تکبیرکہی جائےاور مسنون بتلایاگیا کہ ایک راستہ سے آئے اور دوسرے راستہ سے جائے، تاکہ ساری فضا اس سے معمور ہوجائے اور وہاں رہنے والوں کے کانوں میں یہ آواز پڑجائےاور دوسری چیز  ‘‘ولعلکم تشکرون’’تاکہ تم شکر کرویعنی اللہ نے ہمیں جونیک فیق دی اور ہم سے روزے رکھوائےاس پر ہم اللہ کا شکر بجالائیں اور دوگانہ اس کی بارگاہ میں اداکریں ’’۔(تلخیص؛عیدالفطر کا پیغام)

پیامِ عید :

عید الفطر کے سارے فضیلتیں اور برکتیں اپنی جگہ؛ لیکن اس مبارک دن کا سب سے عظیم فلسفہ اور اہم ترین سبق یہ ہےکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کیا جائے، اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، خاندان والوں، غریبوں اورمفلسوں کا خاص خیال رکھا جائے۔

 عید الفطر کے مقاصد و مصالح کا بہ نظر غائرجائزہ لینے کے بعد یہ کہنا بجا ہے کہ ہماری عید، اللہ عزوجل کے نزدیک اسی وقت مقبول ہو گی جب ہم غریبوں کو گلے لگائیں گے،یتیموں کےسرپرہاتھ پھیریں گے،محتاجوں کی مددکریں گے اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مستحقین پر خیرات، صدقات اور عطیات کر کے ان کو بھی خوش کریں گے اور اپنے مولیٰ کو بھی راضی کریں گے۔

اس کے علاوہ عیدالفطر کا عظیم تہواروسیع پیمانے پراخوت وبھائی چارے اوراتحاد اتفاق کا درس بھی دیتاہے۔

نمازعید میں امت مسلمہ کاغیرمعمولی ہجوم اسلام کی حقانیت وسربلندی اور مسلمانوں کی اجتماعیت ووحدت کادل کش منظر پیش کرتا ہے جس میں تمام اہل ایمان کارنگ ونسل کے فرق وامتیاز کے بغیربڑایمان افروزاورروح پروراجتماع ہوتاہے اوراس میں امیر و غریب،حاکم ومحکوم،شاہ وگداسب کے سب اکٹھے ہوکرنمازعیداداکرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں اﷲ تعالیٰ کے حضورسجدہ ریز ہوتے ہیں اور ایک ہی وقت میں سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ …… ایک ہی تلاوت…… ایک ہی ذکر…… ایک ہی تسبیح وتحمیداور ایک ہی دعاء ہوتی ہے۔اسی اتحاد وا تفاق سے مسلمانوں کے قلوب واذہان کومعمور کرنے کے لئے آج کے مبارک اور عظیم دن نمازِعید کے اجتماع کااہتمام کیاجاتاہے۔

عید الفطر کےدن نماز عید کے علاوہ غربا و مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی کرنا، دوستوں سے اظہار محبت کرنا، اپنے سے کمتروں اور زیر دستوں کا خیال کرنا، بچوں سے شفقت و نرمی سے پیش آنا، بڑوں کی تعظیم کرنا، نرمی، رواداری اور بھائی چاری کا رویہ اپنا نا یہ سب ہماری دینی اور اخلاقی ذمے داریاں ہیں جن سے عہدہ برآ ہو کر ہم اپنا دامن نہیں جھاڑسکتے۔

تبصرے بند ہیں۔