ادب اور انسان

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

ادب ہی سے انسان انسان ہے

ادب جہ نہ سیکھے وہ حیوان ہے

        اردو کے مشہور شاعر شمس العلماء الطاف حسین حالیؔ(1837-1914) نے سیدھے سادھے انداز میں اس شعر میں انسانی زندگی کی ایک اہم حقیقت بیان کی ہے۔ اس شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انسان کو ادب سے زندگی گذارنا چاہئے اور ادب سے زندگی گذارنے والا انسان اچھا آدمی اور انسان ہے۔ اور جو ادب نہ سیکھے اور بے ادبی کی زندگی گذارے اس کی مثال جانور کی سی ہے۔ اس شعر کے مفہوم کی گہرائی میں جائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان کو بہتر انسان بنے رہنے اور آدمیت کے دائرے میں رہنے کے لئے کیوں ادب کا سیکھنا ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب کیا ہے؟ ادب کو ن سکھاتا ہے؟اور انسان کو کیوں با ادب ہونا چاہئے اور جانور کو کیوں بے ادب کہا گیا ہے۔ انسان اگر جانور کی زندگی گذارے تو خود اسے اور انسانی سماج کو کیا نقصان پہونچے گا۔ آئیے دیکھیں ادب کے مفہوم میں کتنی وسعت اور گہرائی ہے۔

        ادب کے درست مفہوم کے تعین کے ضمن میں دنیا کے مفکرین نے ہمیشہ دھوکہ کھایا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر گزرے جنہون نے اپنے طرز زندگی اپنی فکر کو درست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ دنیاکہ لوگوں نے ان کی باتوں پر چلنے اور کامیاب ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کی پیش کردہ فکر ناکام رہتی ہے جب کہ دنیا کا نظام چلانے والی عظیم قدرت کی بات ہی انسانوں کی حقیقی فلاح کا باعث ہوگی۔ اس لیے انسان کو چاہئے کہ وہ فطرت کے قانون کا مطالعہ کرے اور اسی کے مطابق ادب والی زندگی گزارے۔ انسان مطالعہ کرے کہ اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ وہ کون ہے اور اسے کیسی زندگی گزارنی ہے۔ ہمارا یمان ہے کہ

 انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس کائنات میں اللہ کی بنائی ہوئی کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات ہیں۔ ان تمام میں انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا گیا۔ اللہ نے انسان کو عقل دی تاکہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرے اور اسے بات کرنے کے لئے زبان دی۔ تاکہ وہ بات کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے دل کا حال بیان کر سکے اور لوگوں کو اچھائی اور برائی کی تمیز کرا سکے۔ اللہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اور کہہ دیا کہ انسان کے لئے یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ اور یہ دنیا انسان کے لئے دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ یعنی انسان کو اس دنیا میں ملنے والی مختصر سی زندگی میں قبر اور آخرت کی منزل کو بہتر بنانے والے اعمال کرنے ہیں۔ اللہ انسان کو حقیقی جزاء روز آخرت میں دے گا۔ جس کا ذکر احادیث میں کیا گیا۔ اس طرح انسان کو واضح کردیا گیا کہ وہ اس دنیامیں رب چاہی زندگی گذارے گا تو اللہ اسے قبر میں چین و راحت دیں گے اور آخرت میں اسے من چاہی جنت میں ڈالیں گے اگر انسان اس دنیا میں اللہ کی اور اپنے پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرے اور رب چاہی زندگی کے بجائے من چاہی زندگی گذارے۔ اللہ نے ہر زمانے میں انسانوں کی رہبری کے لیے پیغمبر مبعوث کئے تاکہ وہ لوگوں کو راہ راست پر لائیں۔ اگر انسان اچھے اور برے حلا ل اور حرام نیک اور بد کی تمیز نہ کرے تو اللہ اسے اس دنیا میں چاہے تو ڈھیل دے گا جیسے اللہ کے نافرمان کفاروں کو آج ڈھیل ملی ہوئی ہے۔ لیکن جب اللہ انسان کے اطراف اپنا دائرہ تنگ کرے گا اور اس پر سختی عائد کرے گا تو وہ نہ صرف دنیا میں بلکہ قبر اور حشر کے میدا ن میں بھی اللہ کے قہر اور جلا ل سے بچ نہیں سکے گا۔ بعض مرتبہ زلزلے ‘سیلاب ‘طوفان اور سونامی کی شکل میں اللہ اپنے عذاب کی جھلک دکھاتے ہیں تاکہ غافل انسان نافرمانی سے پلٹ آئے لیکن انسان کے پیچھے شیطان لگا ہواہے۔ شیطان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ او ر وہ اچھے سے اچھے عابد اور زاہد انسان کو بھی بھٹکا دیتا ہے۔ تو عام انسان کی کیا مثال۔ اب انسان کو معلوم ہوگیا کہ وہ اس دنیا میں مسافر ہے۔ اور مسافر کبھی عارضی ٹھکانے میں دل نہیں لگاتا تو انسان کو بھی چاہئے کہ وہ ضرورت کی حد تک اس دنیا میں دل لگائے اپنی ضروریات روٹی ‘کپڑے اور مکان کی اللہ کی رزاقیت والی صفت کی یا د کے ساتھ جستجو کرے۔ اور ایسے اعمال کرے جس سے انسان کی اس دنیا کی اور آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کامیاب ہو۔ آج دنیاوی ماحول میں رہتے ہوئے انسان کے پاس کامیابی کا معیار بھی بدل گیا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کے پاس بہت دولت ہو۔ رہنے کے لئے اچھا گھر ہو۔ اچھی سواری سفر کے لئے ہو۔ اور دنیاکے تمام عیش و آرام اس کے پاس ہوں۔ یہ دنیا داروں کی سوچ ہے۔ جب کہ دیکھا یہ جارہا ہے کہ جس کے پاس جتنی دولت ہے۔ اس کے پاس اتنی ہی پریشانیاں ہیں۔ اور غریب ہی چین و سکون کی نیند سوتا ہے۔ اس لئے انسان کو اللہ سے دنیا کی خوشحالی کی اس حد تک دعا اور کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اس کی زندگی چین و سکون سے گُذرجائے۔ ذیادہ مال کی حرص انسان کو اللہ سے دور کردیتی ہے۔ اب انسان کو یہ پتہ چل گیا کہ اللہ ہی اس کی تمام ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ اورانسان اپنی صلاحیت سے کچھ نہیں کر سکتا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی زندگی ادب سے گذارے۔ اور زندگی کا ادب یہ ہے کہ وہ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کا ہر کا م اپنے خالق اللہ کے حکم اور اللہ کے پیارے حبیب رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق گذارے۔ تو اس کی زندگی ادب والی ہوگی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انسانی زندگی کے خلوت اور جلوت والے تمام پہلوئوں میں اپنی سنتیں بتا دی ہیں۔ اور ان کے مطابق اگر زندگی گذاری جائے تو زندگی اچھی گذرے گی۔ انسان دنیا میں کوئی مشین تیار کرتا ہے تو اسے بہتر طور پر چلانے کی کتاب book letبھی اس کے ساتھ دی جاتی ہے۔ جیسے فون کو کیسے استعمال کیا جائے۔ کمپیوٹر کو کیسے استعمال کیا جائے وغیرہ۔ اگر کتاب میں دی گئی ہدایات کے مطابق مشین استعمال نہ کی جائے تو مشین کے خراب ہونے کا امکان رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی جسم بھی ایک مشین ہے۔ اور انتہائی حیرت انگیز مشین ہے۔ جس کے بارے میں سائینس دان آج تحقیق کرکے یہ بتا رہے ہیں کہ انسانی جسم جیسی حیرت انگیز مشین بنانے والی ذات ضرور بڑی قدرت والی ہوگی۔ بہر حال انسانی جسم کو اللہ نے تخلیق کیا۔ اور اس جسم کی ضرورت اور اس کی صحت کے لئے اللہ نے ایک bookletقرآن شریف نازل کی۔ جس میں انسانو ں کو احکا م الٰہی کے ذریعے بہتر زندگی گذارنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اللہ نے اپنے کلام کو سمجھانے اور اس پر عمل کرانے کے لئے ہر زمانے میں پیغمبر مبعوث فرمائے تاکہ وہ کلام الٰہی پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور لوگوں کو بھی عمل کرنے کی تلقین کریں۔ اس طرح انسانی جسم کو ادب سے زندگی گذارنے کے لئے کلام الٰہی قران شریف اور رسول اللہ ﷺ کی سنتیں ہیں۔ مذہب زندگی گذارنے کے طریقے کو کہتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دین فطرت ہے۔ یعنی انسانی جسم کو چین و سکون اور راحت پہونچانے کے لئے جو طریقہ زندگی ضروری ہے وہ اسلامی تعلیمات میں صد فیصد موجود ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ دنیا بھر کے مذاہب کے لوگ بھٹکنے کے بعد اسلام سے رجوع ہورہے ہیں اور مغربی ممالک میں اسلام سب سے ذیادہ پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو جو لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ ہی ادب والی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور سکون میں ہیں۔ اور جو اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر زندگی گذار رہے ہیں وہ بے ادب ہیں اور جانوروں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں مختلف مثالیں دیکھنی پڑیں گی۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسلامی صفت پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی انداز میں اس کی تربیت ہوتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے سے بچوں کی تربیت کااسلامی ادب جارہا ہے۔ پہلے بچے کو قران کی تعلیم دی جاتی تھی اور گھر پر اخلاقی باتیں سکھائی جاتی تھیں تو بچہ شروع سے ہی نیک صفت ہوتا تھا۔ لیکن آج ہر گھر میں ٹیلی ویژن کے پروگرام اور گانے بجانے کا ماحول ہے۔ بچے کو بات سکھانے کے لئے پہلے کلمہ سکھانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن گھر کے ماحول سے بچہ گانے سیکھ رہا ہے۔ بچے کو اخلاقی تعلیم نہ دیں تو گھر سے ہی بے ادب ہو کر نکلے گا۔ ماں باپ کی نا فرمانی اور آگے چل کر جھوٹ ‘دھوکہ‘فریب جیسی لعنتیں سیکھے گا۔ آج انگلش میڈیم سے بچے کی پڑھائی کا آغاز ہو رہا ہے۔ او ر وہ الف سے اللہ کو پہچان کی جگہ سی فار کیاٹ اور ڈی فار ڈاگ سیکھ رہا ہے۔ اس پر طنز کرتے ہوئے ایک مولانا نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو کتے بلی کی پڑھائی پڑھا رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو با ادب بنانے کے لئے گھر پر ان کی اسلامی تعلیمات کاانتظام کیا جائے۔ طالب علم کا ادب یہ ہے کہ وہ یقین محکم اور عمل پیہم کے ساتھ روزانہ کی اساس پر پڑھائی کرے۔ زندگی میں کچھ کرنے کچھ بننے کا ارادہ کرے اور اسے عملی جامع پہنانے کے لئے روزانہ جد جہد کرتا رہے تو اسے سال کے ختم پر امتحان میں کامیابی کی شکل میں اور آگے زندگی میں کامیابی ملے گی۔ ملازمت کا ادب یہ ہے کہ انسان جہا ں ملازمت کرتا ہو وہاں کے اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھے۔ اور کام چوری نہ کرے۔ آج ملازمت کی جگہوں پر ادب نہ ہونے کی وجہہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ رشوت کو برائی ہی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اور دھوکہ دہی تو عام بات ہوتی جارہی ہے۔ رشوت کی وجہ سے غیر معیار ی لوگ کام کے مقامات پر جمع ہو جا رہے ہیں۔ اور ترقی کی رفتار رک رہی ہے۔ انفرادی زندگی میں ادب کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم راستہ چل رہے ہو ں تو راستے کا ادب یہ ہے کہ نظر نیچی کرکے چلیں ورنہ ٹھوکر لگ سکتی ہے۔ گاڑی چلا رہے ہوں تو ٹرافک قوانین کی پاسداری کریں ورنہ چالان ہوسکتا ہے۔ کھانے کا ادب یہ ہے کہ تازہ غذا کھائی جائے بھوک سے کچھ کم کھائی جائے اور ایسی غذائیں ملا کر نہ کھا ئی جائیں جنہیں طب نبوی ﷺ کے حساب سے منع کیا گیا ہے جیسے مچھلی اور دودھ ایک غذا میں کھانے کی ممانعت ہے۔ گرم کھانہ نہ کھائیں۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس لئے کھانے اور دیگر امور بد پرہیز ی سے بچا جائے۔ پانی پینے کا ادب یہ ہے کہ پانی کو دیکھ کر بیٹھ کر اور تین سانس میں پیا جائے۔ دھوپ سے آکر فوری پانی نہ پیا جائے اور یہ کہ کھانے کہ فوری بعد پانی نہ یا جائے۔ لباس کا ادب یہ ہے کہ لباس صاف ہو۔ ہر طرح کی گندگی سے پاک ہو۔ اور جسم پر ڈھیلا ہو اور ایسا نہ ہو کہ جسم کے اعـضاء جھلک رہے ہوں۔ تجارت کا ادب یہ ہے کہ مال دکھا کر بیچا جائے خراب مال نہ بیچا جائے اور ناپ تول میں کمی نہ کی جائے اور نہ ملاوٹ کی جائے۔ یہی حال زندگی کے تمام کاموں کا ہے۔ اگر انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی یا شیطان کی مرضی سے گذارے تو وہ حیوانیت پر اتر آتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملے میں جہیز کم لانے پر لڑکیوں کو جلایا جارہا ہے۔ لوگ شراب پی کر غلط حرکتیں کر رہے ہیں۔ خوف خدا نہ ہونے کی وجہہ سے انسان برائیوں میں مبتلا ہو رہا ہے۔ ایسے میں انسان کو ادب والی زندگی پر لانے کے لئے جاننے والے انسانوں اور خاص طور سے دنیا کا بیش قیمت دین اسلام رکھنے والے مسلمانو ں کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کریں اور بری باتوں سے منع کرتے رہیں۔ اگر انسان کا ایما ن پختہ ہوگا تو برائیوں سے بچے گا اور ادب والی زندگی گذارے گا۔ اگر اس کا ایمان کمزور ہوگا تو وہ بے ادب زندگی گذارتے ہوئے حیوان ہو جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ آ ج کی اس حیون صفت دنیا میں ادب والی زندگی کو عام کرنے کے لئے ہم اسلامی تعلیمات اور افکار کو عام کریں۔ خود بھی اسلام پر چلیں اور لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں۔ ورنہ بے دینی کی آگ ہمیں اور ہماری نسلوں کو کھا جائے گی۔ اس طرح حالی ؔکایہ شعر ہمیں ادب والی اسلامی زندگی گذارنے کی دعوت دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔