اے دختر ملت رک جا

مرزا عادل بیگ

  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ اور مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے  گو مشرک تمہیں اچھا ہی کیوں نہ لگے یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں  اور اللہ تعالیٰ جنت اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے۔ (البقرہ -221)

مذہب اسلام انسانی فطرت ِ دین ہے۔ جس پر چل کر انسان اپنے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مذہب اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانی ذہانت کو سکون، روح کو تسکین، جسم کو طاقت، اور سماج میں عزت، اور ایک واحد خدا کی عبادت کاحکم دیتا ہے۔ آج ساری دنیا میں مذہب اسلام انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دنیا میں کونے کونے میں اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے نام لیواں افراد کا قافلہ بڑھ رہا ہے۔ مذہب اسلام کی شہرت، مقبولیت سے  دشمنانانِ اسلام خوف زدہ ہے۔ وہ مذہب اسلام کو پھیلنے سے روکنا چاہتے ہے۔ اس کے لیے کئی سازشیں، ہتھکنڈے، دل فریب چالے، فحاشی و بدکاری، حسن کے بے راہ روئی، عشق و معاشقے کے قصیدے، تعلیم نسواں ، آزادی نسواں، برابری کا حق، جیسے نام نہاد نعروں کو بلند کیا جاتا ہے۔ یہودو نصاریٰ، مذہب اسلام اور مسلمانوں سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہے۔ یہ مذہب اسلام کے کھلے دشمن ہے یہ مسلمانوں سے ان کی شناخت، مذہب اسلام کی تعلیمات، ان کی تہذیب کو حذف کرنا چاہتے ہیں۔

     وطن عزیز کے حالات سے آپ بھی اچھی طرح واقف ہے۔ یہاں بھی مسلمانو ں پر ہو رہے ظلم و ستم کی ایک لمبی تاریخ نظر آتی ہے۔ جہاں پر مسلمانوں کے مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، مدارس کو دہشت گردی کے اڈے ثابت کیا جاتا ہے، مآب لینچنگ کی جاتی ہے۔ داڑھی، ٹوپی، برقعہ،  اذان، پر بہث و مباحثے کیے جاتے ہے، مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 1925 سے مسلسل آر۔ ایس۔ ایس اپنے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ۔ جس کا مقصد ملک کو ہندوں راشٹر یہ بنانا ہے۔ جو دوسرے مذاہب کو کو اپنے مذہب میں زاعم کرنا چاہتی ہے۔ آر۔ ایس۔ ایس کی کئی شاخیں ہے۔ جو مسلمانوں کے اندر کا م کر رہی ہے۔ جیسے ہندو مہا سبھا، ابھینو بھارت، ہندو یوا واھنی، اکھل  بھارتیہ وتھارتھی پریشد، وشو ھند پریشد، مسلم راشٹر یہ منچ، سنا تھن سنستھا، وغیرہ۔

ہندوں یووا ں واھنی، اے۔ بی۔ وی۔ پی، وی ایچ پی، مل کر لو جہا دکے معاملات کو منظر پر عام پر لانے کا کام کرتے ہے۔ مسلمانوں کے اندر لو جہاد والا کوئی کنسپٹ نہیں ہے۔ مگر ملک کے ماحول کو داشتعال انگیز بنانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2014 کے الیکشن کے بعد کھل کر آر۔ ایس۔ ایس بیان دیتی رہی کہ اب لو جہاد کا ری ایکشن ہوگا مسلمانوں اور عیسائیوں کی گھر واپسی کی جائے گی، پھر ہندوں یوواں واھنی کی طرف سے بیان آیا کہ 21000 مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ان کی گھر واپسی کی جائے گی، ان کو غیر مسلم کے ماننے والوں سے شادی کرائی جائے گی، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انہیں طلاق اور حلالہ جیسے رسم سے چھٹکارہ دلایا جائے گا، ان پر ظلم نہیں ہوگا، انہیں زیادہ بچے پیدا کرنے نہیں پڑیں  گے، ایسے بیانوں میں زیادہ تر نفرت نظر آرہی تھی، انہیں مذہبِ اسلام کی حقانیت معلوم نہیں ہے۔ مذہب اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا جس نے اسلام سے نفرت کیا وہ اتنے ہی جلدی اسے قبول کر لیتا ہے۔ (بشر طیکہ اللہ تعالیٰ ہدایت دیں)

 2014 کے بعد سے ملک کے الگ الگ ریاستوں سے مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے دوستی، معاشقے، اور کورٹ میریج کی خبریں آنے لگی، یہ لڑکیاں کوئی معمولی لڑکیاں نہیں تھی، بلکہ پڑھی لکھی اور سمجھدار تھی، کچھ گورمینٹ نوکریاں کرنے والی تھی، کوئی ڈاکٹر تو کوئی STI، SDM، وغیرہ تھی، کچھ لڑکیاں انجینیرس، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام والی تھی، تو کچھ کالجیس میں اپنی پڑھائی پوری کر رہی تھی، Marriage Online Notice/maharashtra.gov سائیٹ پر جاکر چیک  کیا جائے تو پتا چلے گا ہر روز دو سے تین مسلم لڑکیاں فارم فل اپ کررہی ہے، نومبر 2018 سے اپریل 2019 پانچ مہینوں کے اندر 312 مسلم لڑکیوں نے کورٹ میریج کرنے کے لیے درخواست دی ہے، جس میں سے مسلم تنظیمیں، دینی جماعتیں، اور ملی فورم وغیرہ نے وقت پر پہنچ کر گھر والوں کو اگاہی کراکر، بچیوں کو فارم کینسل کرنے لگائے ہے۔ الحمداللہ تقریباً 45 بچیوں کو مرتد ہونے سے روکا گیا ہے، ابھی بھی بہت سی بچیوں کے گھر، ان کا پتہ، گھر والے مل نہ سکے ہے، بہت سے لڑکیاں جالی آدھار کارڈ بنا کر غلط پتہ دے رہی ہے۔ جس سے ڈھونڈنے پر بہت پریشانی ہو رہی ہے۔ یہ لڑکیاں ان تنظیموں کو دھوکا نہیں دے رہی ہے بلکہ خود کو دھوکا دے رہی ہے۔ 5مہینے کے اندرمہاراشٹرمیں 150 مسلم لڑکیا ں کورٹ میریج کر چکی ہے، اب ان کے لوٹ آنے کے دروازے بند ہوچکے ہے۔ ابھی مارچ مہینے کا جائزہ لیا جائے تو 50 مسلم لڑکیاں کورٹ میریج (اسپیشل میریج )کے تحت درخواست جمع کرا چکی ہے۔ انہیں ماہ اپریل کے ختم ہونے تک روکنا، سمجھانا، ان کے گھر والوں کو معلوم کرنا، یہ ذمہ داری تمام مسلم برادرانِ ملت کی ہے۔ جس میں ناگپور (7)، کولھا پور(3)، سانگلی (2)، چندرپور(2)، ممبئی (18)، جلگاؤں (1)، تھانہ (10)، ناسک (1)، لاتور(2)، پالگھر (1)،سندھ درگ(1)، عثمانہ آباد (1)، ایوت محل(1) ہے۔ بہت لڑکیوں کی مدت پوری ہو چکی ہے۔ کوئی کورٹ میں آئے کوئی نہیں آئے۔ مگر ان کی درخواست وہاں جمع ہے۔

  مسلم معاشرہ کی لاپرواہی:

  ان بچیوں کے زندگی کو اٹھا کر دیکھا جائے تو ہمیں پتہ چلےگا یہ لڑکیاں مغربی تہذیب کی دلدادہ تھی، ان کو مذہب اسلام کی معلومات نہیں تھی، یہ صرف اور صرف دنیا وی علوم حاصل کرکے نوکریاں کرنے والی تھی، ہماری یہ بچیاں جنہیں اسلام کی معلومات نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے، انہیں فیشن، بے پردگی، گرل فرینڈ بوئے فرینڈ کلچر، مغربی تہذیب، سرو دھرم سمبھو، منشو واد  کا پاٹھ پڑھایا جارہا ہے۔ ہماری بیٹیاں آسانی سے بہکاوے میں آجاتی ہے۔ مسلم معاشرہ کی طرف سے لا پرواہی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ والدین نظر نہیں آتے جو بچیوں کو کسی برائی سے بچانا چاہتے ہے۔ جو بچیوں کی، تربیت کرنا چاہتے ہے، اب والدین اور سرپرست حضرات  کی ذمہ داری اتنی رہ گئی ہے کہ صرف اور صرف کسی بڑے کالج میں داخلہ مل جائے، اب والدین کی سوچ صرف اور صرف میری بیٹی ڈاکٹر بن جائے، چاہے اسے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑیں، میڑی بیٹی انجینیر بن جائے، بچیوں کو بچپن سے انگلش میڈیم سے پڑھایا جاتا ہے۔ جس سے ان کا میزاج دوسرے مذاہب والوں جیسا ہو رہا ہے۔ ان کے رہن سہن، کلچر، تہذیب و تمدن سب اسلامی مخالف ہورہی ہے، یہ انگلش میڈیم سے پڑھنے والی بچیاں مسلم دین دار اور پڑھیں لکھیں نوجوانوں سے نکاح کرنے کو معیوب سمجھ رہے ہے۔

کالجیس بے حیائی اور فحاشی کے اڈے ہے:

  آج کے کالجیس، یونیورسیٹیاں، انٹیٹیوٹس، بے حیائی اور فحاشی کے اڈے بن چکے ہے، جہاں پر نوٹس کے بدلے دل بدلے جاتے ہے، کالجیس کے اندر ہونے والی سرگرمیاں، انڈسٹری کیمپ، این۔ ایس۔ ایس کیمپ، کلچرل پروگرام، فرینڈشپ ڈے، ویلنٹائین ڈے، گیٹ ٹو گیدر س، بوئے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر پورے کالجیس، یونیورسیٹیاں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ اس ماحول میں مسلم بچیاں زیادہ دیر تک اپنے آپ کو سمبھا ل نہیں سکتی، ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہے۔ وہ بھی اس تہذیب کا حصہ بن جاتے ہے۔ مسلم تعلیمی یافتہ بچیوں کی اسلامی نقطہ نظر سے پرور ش کرنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ مسلم بچیوں کو کالجیس سے دور رکھا جائے، انہیں اس شیطانی ماحول سے بچا یا جائے، تو میری مخالفت کی جائے گی، مجھے تنگ نظر ٹھہرایا جائے گا۔ اس لیے مسلم طلبہ و طالبات کی دینی تعلیم کی فکر ہونی چاہیے۔

موبائل اور بے وجہ سوشل میڈیا کا استعمال:

   آج موبائل انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے، اس کا ضرورت کے اعتبار سے بات چیت، ریکارڈنگ، فوٹو گرافی، ڈاؤن لوڈ،  مختلف اپلیکیشن کا استعمال کرنا، مفید اور کار آمد ہے۔ مگر اس موبائل کے ذریعے ناجائز کاموں کو مکمل کرنا، حرام کاموں کو کرنا مطلب دنیا اور آخرت برباد کرنا ہے۔ سوشل میڈیاپر ٖفوٹوس اپلوڈ کرنا، واٹس اپ اور فیسبک کے ذریعے اجنبی سے بات چیت کرنا، یہ ایک مشغلہ بن چکا ہے، جس سے کوئی نہیں بچ رہا ہے، نوجوان نسل لڑکا یا لڑکی دونوں اس لت کے شکار ہو چکے ہے، مسلم طلبہ و طالبات کا گھنٹوں موبائل پر بات چیت کرنا فیسبک اور واٹس اپ پر چینٹنگ کرنا، وغیرہ اس سے اسلامی معاشرہ بیگاڑ کی طرف گامزن ہورہا ہے۔

ہمیں ان سب امور پر توجہ دینی ہونگی، ورنہ یہ بیماری یہ  ناسور سارے مسلم معاشرے کو ختم کر ڈالے گا۔ آخر میں ملت کے دانشور افراد، جماعتیں، گرلس آرگنائیزیشن  اور ملی تنظیموں کو اس گھنونے منصوبہ سے ملت کی بہن، بیٹی کو بچانا چاہیے، ہمیں اپنی بچیوں کی حفاظت خود کرنی ہے۔ والدین اور سرپرست حضرات اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرائے تو بہتر ہونگا، اب ہمیں نیند سے بیدار ہونا پڑے گا، اور دشمن کے منصوبہ کو ناکام و نامراد کرنا ہوگا۔ ورنا بس دبی آواز میں کہنا پڑے گا اے دختر ملت رک جا۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔