قضیہ’خواتین کی نماز مسجد میں اور اسلامی تعلیمات‘ کا

توقیر بدر القاسمی

 (ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا )

آج کل جب سے پونا شہر کے ایک مسلم جوڑے نے سپریم کورٹ جاکر "مسجد”میں "مسلم خواتین کی نماز کی ادائیگی”کو لیکر اپنا مقدمہ رکھا ہے،تب سے میڈیا پر خاتون اور مسجد میں انکی ادائیگی نماز کو لیکر ایک شور سا برپا ہے.

اس بابت ‘پہلی بات’ تو یہ ہے کہ درخواست گزار کی بات سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ "عام مساجد کل ہند” کا میٹر نہیں ہے،بلکہ کسی ایک مسجد سنی (بریلوی) کی ہے جس میں بازار سے لوٹتے ہویے شوہر کے جانے کے بعد اسکی اہلیہ کو وہاں کی انتظامیہ یا گیٹ پر مامور شخص نے مسجد کے اندر جانے سے روک دیا، بدقسمتی یہ بھی ہویی کہ کسی دینی ادارے سے معلوم کیا گیا تو اس نے بھی روکے جانے کی تائید کردی،جسے انتہائی بدبختانہ عمل ہی کہا جا سکتا ہے،کیونکہ ایک نماز کی پابند مسلم خاتون کو اس طرح،وہ بھی دوران سفر مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روکنا شریعت سے مکمل ناواقفیت کی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے، بلکہ دین کے نام پر بے دینی والی غنڈہ گردی بھی کہا جایے تو کم ہے.

‘دوسری بات’ خواتین پر مساجد میں جاکر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں کویی پابندی نہیں ہے. البتہ جو خواتین فرمان نبوی کے مطابق محتاط ہوکر گھر میں ہی ادائیگی نماز کو ترجیح دیتی ہیں،وہ بلاشبہ ‘افضلیت’کی مستحق ہیں.

‘تیسری بات’ یہ کہ جب معاملہ فقط ایک خاص مسجد کا تھا عام مساجد کا نہیں،کیونکہ وہ خود جماعت اسلامی کے مساجد کو پابندی سے مستثنٰی قرار دیتے نظر آتے ہیں.لہذا انہیں اگر عدالت ہی جانا تھا تو اصولی طور پر انہیں اس مخصوص مسجد کی انتظامیہ کو فریق بناکر اپنی بات رکھنی تھی،مگر انہوں نے یا انکے وکیل دوبے جی نے بڑی چالاکی سے اسے "عام مسجد میں خواتین کی پابندی”کا کیس بنا کر میڈیا میں شہرت حاصل کرلی.

کچھ دلچسپ حقائق

یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ملاحظہ فرمائیے وہ یہ کہ بعض اخبارات مثلا بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق درخواست گزار نے یہ بھی اعتراض پیش کیا ہے کہ جہاں اجازت ہے وہاں بھی مرد و عورت کے آنے جانے کے دروازے الگ الگ ہیں ایسا کیوں؟یہ بھی مساوات کے خلاف ہے!

مزید اس سے بھی دلچسپ پہلو اس کیس کا یہ بھی سنتے چلیے کہ جب عدالت میں جج صاحبان نے عرضی گزار کے وکیل دوبے جی سے قبول عرضی کے لیے یہ پوچھا کہ "روکنے والے نے کیا کویی فرمان یا حکم نامہ دکھایا تھا ” تو جواب ندارد! پھر جج صاحبان نے پوچھا”اس معاملے میں کسی کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہورہی ہے؟”وکیل نے کہا:”مساوات نہیں ہوپارہی ہے”اس پر جج صاحبان نے کہا "کیا اسکو لیکر NGOs یعنی غیر سرکاری تنظیم کے زمرے میں آنے والی عبادت گاہیں کو ہم فریق بنا سکتے ہیں؟یہ کویی ریاست state تو نہیں کہ اس نے اپنے اس شہری کے ساتھ ناانصافی کی،جس سے اسکے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی ہوئی،لہذا اسے فریق بناکر اسکی تلافی کی جایے؟” مزید جج صاحبان نے مثال دیکر کہا کہ کیا کسی فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے فرد کو فریق بنایے اور کہے کہ یہ مجھے اپنے برابر نہیں سمجھتا،اپنے جیسا حق نہیں دیتا،میرے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے”اس پر وکیل صاحب لاجواب ہوتے ہوتے یہ کہہ گیے کہ "مساجد کو بھی ریاست اور سرکار مراعات اور پیسے دیتی ہے”اور پھر یوں معاملے کو سماعت کے لیے قبول کرلیا گیا اور اسکے بعد اس سے متعلق فریق کو نہیں بلکہ تنظیموں کو نوٹس دی گئی!اسی کو شاید” مدعی سست گواہ بلکہ وکیل چست”کہتے ہیں. تفصیل کے لیے دیکھیے ہندی أخبار دینک جاگرن(اشاعت 17/04 /2019 )

اب بتایے جب وکیل حضرات اس قدر ہوشیار ہونگے تو ہم آپ کیا کہہ سکتے ہیں،اب اگر کچھ کہنے کو رہ گیا ہے تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ذرا یہ تو بتایا جایے کہ جس حق حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، وہ حقRight ہے یا کویی ذمہ داری Duty؟ظاہر ہے مسجد میں جماعت کے ساتھ شرکت کرنا یہ ایک واجبی فریضہ اور شرعی ذمہ داری ہے،جس کا مکلف شرعا مردوں کو بنایا گیا اور خواتین کو اس بابت آزاد رکھا گیا ہے،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے،لہذا اس سلسلے میں شور مچانا اور حق تلفی کا ڈھنڈورا پیٹنا سراسر غیر قانونی ہے.ورنہ پھر تو ممکن ہے کل کویی یہ سوال لیکر عدالت ہو آیے کہ مسجد میں نماز کے اندر امامت فقط مرد ہی کیوں کرتے ہیں عورت کو اس سے کیوں محروم رکھا جائے؟پھر بعد ازاں یہ قضیہ کھڑا ہو کہ یہ مرد و عورت کا ہی سلسلہ ہی کیوں ہے؟اس سے تفریق و تمیز کا احساس جنم لیتا ہے،یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے.لہذا اسے ہی ختم کردو!تو بتایے اس وقت کیا کیا جایے گا اور کیوں کیا جایے گا؟

"آمدم بر سر مطلب”

خیر’آمدم بر سر مطلب’اس حوالے سے آپ سبھی قارئین یہ یاد رکھیں کہ میڈیا جس طرح سے یہ ماحول پیدا کررہا ہے کہ سبری مالا مندر میں خواتین پر پوجا کو لیکر پابندی عائد تھی اور سپریم کورٹ و عدالت عظمی نے ان ہندو خواتین کی داد رسی کرتے ہویے ان پر عائد پابندی ختم کرکے صنفی مساوات کا علم بلند کیا،ٹھیک یہی سب مسلم خواتین کے ساتھ نیایے و انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے.ان پر بھی لگی پابندی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور مسجد میں عبادت کو لیکر انہیں صنفی مساوات کا احساس کرایا جانا چاہیے.یہ سراسر انکا بھرم بلکہ انکی کھسیاہٹ ہے.

اسکا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ یہ بھرم کیوں کر ہے ذرا سوچیے!کیا واقعی سبری مالا مندر کی طرح مسلم خواتین پر مسجد میں دخول کو لیکر ممانعت ہے.کیا ممانعت پر مبنی دلائل اور مذہبی باتیں بزبان پنڈت و اشلوک،اسلامی تعلیمات وہدایات میں بھی ہیں؟کیا اسلام میں بھی انکی طرح عورت کو سراپا مجسم ناپاک مانا گیا ہے؟سبھی جانتے ہیں ایسا نہیں ہے؟

ظاہر ہے اگر ایسا ہوتا تو خود درخواست گزار جماعت اسلامی والوں کی مساجد کو مستثنٰی کیوں رکھتے؟کیا وہ اسلام کا حصہ نہیں؟یہی نہیں مشہور مساجد مثلا جامع مسجد دہلی، مکہ مسجد حیدرآباد وغیرہ جہاں سینکڑوں سیاح آتے ہیں.ان میں خواتین کی بھی کثرت رہتی ہے.وہ نماز کے وقت وہاں نماز بھی ادا کرتی ہیں.کیا پابندی ہوتی تو یہ وہاں جا پاتیں؟نماز ادا کر پاتیں؟باتیں اور مثالیں کیی اور بھی ہیں مثلاً خواتین کے لیے مخصوص حلقے اور حصے میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے اندر انکی نماز کی ادائیگی سے تو سارا عالم واقف ہے.

یہ اور بات ہے شہر مکہ اور مسجد حرام کی مقدس فضا کا کویی موازنہ نہیں اور نا یہاں ملک عزیز میں چھیڑ خانی پر پولیس و عدالت کی تیز رفتاری کا وہاں سے کویی مقابلہ! کاش وہاں کی پولس و عدالت کی طرح تیز رفتاری کے ساتھ یہاں کی پولیس وعدالت بھی مجرموں کا ناطقہ بند کر پاتی!تو تایید ہی تایید ہوتی!

"حقیقت اور غلط فہمی”

اس بابت حقیقت کیا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں!بعض اسکالر حضرات اس موقع سے احادیث کا معروضی مکمل مطالعہ کرنے کے بجاے آدھا ادھورا من پسند مطالعہ کرکے اسی کا ماحصل پیش کرتے ہیں اور فرضی "پابندی پابندی”کا نعرہ لگاتے ہوئے بیجا فقہ پر لعن طعن شروع کردیتے ہیں.

یہ فقہ تو قرآن و حدیث کے لب ولہجے،سیاق وسباق نیز مقاصد سے کشید سہولت وآسانی پر مبنی قاعدے قانون ہوتے ہیں.جسے دنیا کی ہر مہذب قوم اپنے طور پر اپنے آئین و دستور سے مرتب کرکے سامنے رکھا کرتی ہے.ایسے احباب فقہ کا خاطر خواہ مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے خود بھی کنفیوزڈ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی مغالطے میں ڈال دیتے ہیں.

لہذا اس حوالے سے یاد رہے کہ دراصل خواتین اور مسجد میں انکی نماز کی ادائیگی کی "اسلامی و فطری حقیقت” کیا ہے؟حقیقت یہی ہے کہ جس طرح عورتوں کی شایان شان اللہ نے انہیں اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کی شان واحترام کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیاہے۔چناچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ(صحيح أبي داود:567)

ترجمہ:اپنی عورتوں کو نماز ادا کرنے کے لیے مساجد میں آنے سے مت روکو،ہاں البتہ اس کام کے لیے ان کے گھر بہتر ہیں۔

اب ذرا فرمان رسول پر غور کرنے کی زحمت کیجیے اور لوگوں کو بتایے اسکا کیا مطلب ہے؟

ظاہر اس کا مطلب یہی ہے کہ مرد حضرات مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے جو فضیلت پاتے ہیں وہی فضلیت خواتین اپنے گھروں میں نماز پڑھ کر حاصل کر لیتی ہیں۔جس کی بابت ہمارے فقہاء کرام نے کہا کہ خواتین اسلام پر نہ تو ادائیگی نماز کے مسجد جانا لازم ہے اور نہ ہی انہیں جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے.کیونکہ خواتین اسلام کو تو بزبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم یہ ہدایت دی گئی ہے کہ یہ خاتون اسلام اپنے گھروں میں پنچ گانہ نماز ادا کریں،اخلاص کے ساتھ نماز میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کریں خشوع وخضوع اور حضور قلبی کے ساتھ نماز ادا کریں،نماز میں اعتدال وسکون برقرار رکھیں،ایک نماز ادا کرکے دوسری نماز کا خیال اسی وقت سے کرنے لگیں اور گھر میں بھی نماز کے لئے مزید اندرونی کوٹھری کا انتخاب کریں،یہ انکے لئے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔ چناچہ ابو داؤد کی مزید ایک روایت ملاحظہ فرمائیں اس میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :

صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها(صحيح أبي داود:570)

ترجمہ:عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے (اندرونی)کوٹھری میں زیادہ افضل ہے۔

آپ کو یہ جانکر مزید حیرت ہوگی کہ اس سے بھی زیادہ واضح دو ٹوک روایت میں ذکر ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں تو آپ انہیں گھر میں نماز پڑھنے کی تعلیم دیتے ہیں اور اسے افضل قرار دیتے ہیں۔بھلا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجدنبوی میں نمازپڑھنے سے زیادہ افضل عمل کیا ہوسکتا ہے مگر روایت دیکھیں اور گھر میں عورتوں کی نماز کی افضلیت کا اندازہ لگائیں اور صحابیہ کاقابل قدر ادائیگی نماز دیکھیں۔ماشاءاللہ!

امام احمد نے اپنی مسندمیں،ابن حبان وابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے۔”عن أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي رضي الله عنهما:أنها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت:يا رسول الله إني أحب الصلاة معك قال:قد علمت أنك تحبين الصلاة معي،وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك،وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك ، وصلاتك في دارك خير لك من صلاتك في مسجد قومك،وصلاتك في مسجد قومك خير لك من صلاتك في مسجدي،قال:فأمرت فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه فكانت تصلي فيه حتى لقيت الله عز وجل۔ترجمہ:ابو حمید ساعدی کی بیوی ام حميد رضی اللہ عنها سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور پوچھا: اے الله كے رسول میں آپ کے ساتھـ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، كہا:میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو {لیکن} بہتر ہے تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا اپنے كمرے میں نماز پڑھنے سے اور بہتر ہے تمہارا اپنے كمرے میں نماز پڑھنا اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے اور بہتر ہے تمہارا اپنے گھرمیں نماز پڑھنا اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے اوربہتر ہے تمہارى اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔كہا: مجھے حکم دیا کہ گھر کے آخری کونے میں اس کے لئے مسجد بناؤں اور اسے تاریک رکھوں، قسم بخدا مرنے تک اسی گھر میں نماز پڑھتی رہی۔اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی حسن لغیرہ کہا ہے۔(صحیح الترغیب والترہیب:1/340)

یہ وہ فرامین نبوی ہیں جن میں خواتین اسلام کے شایان شان پوری عزت وقار کے ساتھ انہیں مکمل رعایت دی گئی ہیں،جن سے یہ روز اول سے مستفید ہوتی آرہی ہیں.ظاہر ہے جو ان روایات سے

بے بہرے ہونگے وہ فقہ کو نشانے پر لانے کی کوشش کریں گے، جب کہ فقہ اسلامیات انہی روایات کی مکمل پاسدار ہے.

جہاں تک عرضی گزار کا یہ سوال ہے کہ جن مساجد میں اجازت ہے وہاں بھی انکے الگ الگ دروازے ہیں،تو یاد رہے ابو داؤد ہی میں ہے کہ اسکا التزام ہدایت نبوی کے مطابق عہد صحابہ سے ہی دیکھنے کو ملتا آرہا ہے.

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:(( لَوْ تَرَکْنَا ھٰذَا الْبَابَ لِلنِّسَاء:قَالَ نافع تِلْمِیْذُ ابْنِ عُمَرَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ ابْنُ عُمَرَ حَتّٰی مَاتَ))

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:کاش کہ ہم مسجد کا یہ دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص کردیں!’

امام نافع جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے شاگرد ہیں’ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر وفات تک اُس دروازےسے مسجد نبوی ۖمیں کبھی بھی داخل نہ ہوئے۔جو عورتوں کے لیے مخصوص تھا”

(سنن ابی داود’ کتاب الصلاة’ باب فی اعتزال النساء فی المساجد عن الرجال)

"اسلامی مزاج اور اس بابت مسلک احناف”

اس موقع پر یہ بات بھی ضرور پیش نظر رہنی چاہئے کہ شریعت اسلامی کا مزاج تنگی و دشواری کے بجائے سہولت و آسانی کی جانب مائل ہے،یہی وجہ ہے کہ کتاب الٰہی کا واضح اعلان ہے”مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج“دین میں تمہارے اوپر کوئی تنگی نہیں رکھی گئی ہے،اس لئے اسباب و ذرائع کے بارے میں فطرت سے ہم آہنگ یہ حکمت آمیز فیصلہ کیا گیا کہ جو امور کسی معصیت کاایسا "سبب قریب” ہوں کہ عام عادت کے اعتبار سے ان کا کرنے والا اس معصیت میں ضرور مبتلا ہوجاتا ہے،ایسے”قریبی اسباب”مثلا کسی جوان عورت کا کسی مرد کے سامنے بے پردہ ہونا اور زنا کا سبب بننا،اسکو شریعت اسلام نے اصل معصیت کے حکم میں رکھا اور ممنوع و حرام قرار دیا ہے۔اسکا حکم زمان ومکان کی قید سے ماورا ہوتا ہے.یہ حرمت سبھی دور أور سبھی أشخاص کے لیے ہوتی ہے.البتہ علاج معالجے کے لیے استثنائی صورت الگ ہے.اسکے بعد جن اسباب کا تعلق معصیت اور گناہ سے”سبب بعید”کا ہوتا ہے،جیسے خواتین کا باپردہ ہوکر گھر و چہار دیواری سے باہر نکلنا کہ ان کے اختیار کرنے اور عمل میں لانے سے گناہ میں مبتلا ہونا عادةً لازم و ضروری تو نہیں مگر ان کا کچھ نہ کچھ دخل گناہ میں ضرور ہے ایسے اسباب و ذرائع کو مکروہ قرار دیا گیا.یہ زمان ومکان اور أشخاص کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں.

مذکورہ بالا سدا للذریعه(اسکی اصل پر گفتگو آگے آرہی ہے)جیسے منطقی انجام تک پہنچانے والے اصول کا ہی دین ہے کہ فقہ حنفی میں مساجد میں جماعت کی شرکت کو لیکر خیر القرون کے بعد جوان اور بڑی عمر کی عورت میں فرق روا رکھا گیا،خیرالقرون کے بعد فتنے کے اندیشے سے جوان عورت کو منع کیا گیا ہے اور بڑی عمر کی عورت کی شرکت میں”کویی حرج نہیں”کہکر اجازت دی گئی ہے.البتہ جہاں جہاں فتنے کا غلبہ بہر صورت محسوس ہو وہاں جماعت میں شرکت کے حوالے سے کیا نوجوان عورت اور کیا بوڑھی سبھی کے حق میں تحفظ و سیکورٹی کے پیش نظر منع کی بات بھی ملتی ہے.

"پابندی نہیں،بلکہ اجازت ہے” 

پابندی نہیں بلکہ اجازت کے حوالے سے فقہ حنفی کی مشہور متن وشرح کی وقیع اور جامع کتاب "ہدایہ”میں ہے:

"ویکرہ لھنّ حضور الجماعت یعنی الشّوابّ منھنّ لما فیہ من خوف الفتنۃ ولا بأس للعجوزأن تخرج فی الفجر والمغرب والعشاء۔” یعنی جوان عورتوں کے لیے جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہے،کیونکہ فتنہ کا ڈر ہے،البتہ بوڑھی عورتوں کے فجر، مغرب اور عشاء میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں”(الھدایۃ مع الدرایۃ: ۱۲۸/۱)ظاہر ہے جہاں بالکلیہ فتنے کا اندیشہ نہ ہوگا وہاں حکم بالمعلل کی بناء پر جوان عورت کے لئے بھی کراہت نہ رہیگی بلکہ حسب گنجایش مساجد میں چاہیے کہ مذکورہ بالا اجازت کے پیش نظر نمازی خواتین کے لئے ایک گوشہ ضرور خاص رکھا جایے،جہاں وہ اپنی نماز ادا کرسکیں!ہفتہ واری دینی و اخلاقی پروگرام انکے لئے برپا کیا جاسکے، بسا اوقات شہروں میں دوران سفر بشری تقاضے کے پیش ضرورت آن پڑتی ہے،وہاں مردوں کے لئے تو کویی مسیلہ نہیں البتہ خواتین پریشان ہوتی ہیں،لہذا خواتین کے لیے علیحدہ مخصوص ٹوائلٹ اور وضو خانے کا بھی نظم ہو،یہ وہ کرنے کے کام ہیں جو آج ایک اہم ضرورت کا درجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں.

یہ سبھی علیحدہ اور مخصوص اس لیے کیونکہ شرعا یہی مطلوب ہے،جیسا کہ اوپر انکے لیے عہد نبوی میں خاص دروازے اور گیٹ کی بات ابوداؤد کے حوالے سے ہم نقل کر آیے ہیں.اور دنیا میں بھی بھیڑ والی جگہوں پر اسکا اہتمام ہوتا دیکھ سکتے ہیں.

ان اقتباسات و وضاحت سے ہم اسلام کا مزاج اور ملک میں اکثریتی طبقہ کے فقہ حنفی کا نقطہ نظر اس بابت دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں.

منکرین حدیث اور ان سے چند سوالات:

یہاں اسکی بھی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اگر قرآن پر اصرار کے ساتھ کسی کو سنت و حدیث کی حجیت ہی تسلیم نہ ہو،تو اور بات ہے،رہ گیا فقہ،تو اس کے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے دماغ و جگر کی ضرورت پڑتی ہے.

البتہ حجیت حدیث اور فقہ سے انکار کی صورت میں منکرین حدیث سے یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ آخر آپ قرآن ہی میں یہ دکھا دیں کہ "پانچ وقت کی نماز مسجد میں جاکر ادا کرو”!یہ کہاں ہے؟اسی طرح "خاتون کو ساتھ مسجد لیکر جاؤ”!یہ حکم کس سورہ میں آیا ہے؟

"لیڈیز فرسٹ” اور "البینة علی المدعی” کے پیش نظر پہلے وہ ان باتوں کی دلیل قرآن سے دکھادیں تو پھر آگے ان سے کویی بات ہوسکتی ہے.اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جہاں ایک طرف مرد حضرات مسجد جاکر جماعت میں شرکت کی جگہ آفس،گھر میں ہی نماز پڑھنے لگے ہیں جو قابل افسوس ہے،اس معاشرے میں کسی عدالتی فیصلے کے بعد سبھی خواتین کیا مسجد ہی جانے لگیں گی؟کیا انکو ایسا نہ کرنے پر کسی عتاب وسرزنش کا سامنا کرنا ہوگا؟ظاہر ہے ایسا نہیں ہے،کیونکہ پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر معذرت خواہانہ انداز میں”کہنا اور ہوتا ہے اور عملا ہوتا دیکھنا اور ہوتا ہے”اندازہ لگایے کیا خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر بطور خاص میاں بیوی دونوں نماز جمعہ میں شرکت کی غرض سے آدھ پونے گھنٹے کے لئے گھروں پر تالا ڈال کر جانے لگیں گی؟یا وہ گھروں میں ہی نماز پڑھیں گی؟جو گھروں میں پڑھیں گی انکو جماعت کا ثواب ملیگا یا نہیں؟کیا وہ تمام مساجد جو ابھی مردوں کے لئے ہی بسا اوقات تنگ ہوجاتی ہیں وہاں ان خواتین کے لیے گنجایش کہاں سے نکلے گی؟اس صورت میں جو حسب سابق گھروں میں نماز پڑھیں گی؟وہ آخر کس بنیادپر؟اور اس سے بڑھ کر جب کہ کسی موقع سے کویی حادثہ ہوجاتا ہے تو بولنے والے الگ الگ بولی بولنے لگتے ہیں، اگر آتے جاتے اللہ نے کرے کچھ ہوجاتا ہے تو کیا اسے مسجد یا نماز سے جوڑ کر بتانے کی کوشش نہیں کی جایگی؟پھر اس وقت گھر میں ہی نماز پڑھنے کی تلقین ہو تو کس بنیاد پر؟یہ سبھی پہلو بھی نگاہوں میں رہنے چاہیے!

"سداللذریعة کی ایک مضبوط اصل” 

یہاں یہ ساری معروضات اس لیے پیش کی گئی ہے کیونکہ مذہب اسلام دراصل ایک کامل ترین اعلی نظامِ حیات کا داعی و حامل ہے اور فطرت کے مطابق قانون الٰہی کا مبلغ و مفسر بھی،چناچہ اس میں ایک طرف جہاں جرائم و معاصی کی حرمت بتلائ گیی ہے وہیں ساتھ ساتھ جرائم و معاصی کے ان اسباب و ذرائع کو بھی حرام و ممنوع قرار دے دیاگیا جو اکثر و بیشتر اپنے اثرات کی بدولت بطور عادت جاریہ ان جرائم تک پہنچانے والے ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً آپ شراب کو ہی لے لیجیے ایک طرف شراب پینے کو حرام کہا گیا تو ساتھ ساتھ دوسری طرف شراب کے بنانے،بیچنے،خریدنے اورکسی کو دینے کو بھی حرام کردیاگیا۔اسی طرح سود کو لے لیں ایک طرف جہاں سود لینے کو حرام قرار دیا گیا تو وہیں دوسری طرف سود سے ملتے جلتے سارے معاملات کو بھی ناجائز اور ممنوع ٹھہرایا گیا۔اسی طرح جب شریعت اسلامی میں زنا کو حرام قرار دیا گیا تواس کے تمام قریبی اسباب و ذرائع اورمقدمات پر بھی سخت پابندی عائد کی گئی،چنانچہ اجنبی عورت پر شہوت سے نظر ڈالنے کو آنکھوں کا زنا،اس کی باتوں کے سننے کو کانوں کا زنا، اس کے چھونے کو ہاتھوں کا زنا، اس کےپاس جانے کو پیروں کا زنا ٹھہرایا گیا۔جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں وارد ہے:العینان زنا ہما النظر، والاذنان زنا ہما الاستماع،واللسان زنا الکلام، والید زناہا البطش، والرجل زناہا الخطی“)مشکوٰة، ص:۲۰ باب الایمان بالقدر(آنکھوں کا زنا )اجنبی عورت کی جانب شہوت سے( دیکھنا ہے، کانوں کا زنا )شہوت سے اجنبی عورت کی( باتوں کی طرف کان لگانا ہے، زبان کا زنا اس سے گفتگوکرنا ہے، ہاتھ کا زنا اس کو چھونا وپکڑنا ہے، پیروں کا زنا اس کی طرف(غلط ارادہ سے)جانا ہے۔

برے ارادے سے کسی اجنبی عورت کی جانب دیکھنا اس کی باتوں کی جانب متوجہ ہونا،اس سے بات چیت کرنا، اس کو چھونا و پکڑنا اس کے پاس جانا یہ سارے کام حقیقتاً زنا نہیں بلکے زنا کے اسباب ومقدمات میں سے ہیں مگر انھیں بھی حدیث میں زنا سے تعبیر کیاگیا ہے تاکہ امت کے أفراد یہ بات اچھی طرح سے جان لے کہ زنا کی طرح اس کے مقدمات و اسباب بھی شریعت میں حرام و ممنوع ہی ہیں۔انھیں شہوانی جرائم سے بچانے کے لئے ہی عورتوں کے واسطے پردہ کے احکام نازل و نافذکئے گئے۔تاہم یہ سبھی شرعا و فطرتاً آسانی کیلیے ہوں جبھی لازم ہے.ورنہ استثنائ صورت میں گنجائش نکالنی پڑتی ہے.

ظاہر ہے اس قدر اصول و حکمت آمیز فلسفے سے لیس قوانین کو اب اگر کویی اپنے لیے قید سمجھے تو سمجھے اسلامی احکامات و ہدایات آخر یہاں کیا کرسکتے ہیں!

"نتیجہ بحث”

بہر حال ہماری ذمہ داری تو قرآن وحدیث کی روشنی میں یہاں ایک اسلامی طالب علم کی حیثیت سے اس مسئلے کی قابل قبول توجیہ پیش کرنی تھی،وہ یہ کہ اولا عورت کی مسجد میں جماعت کے لیے حاضری، کی بابت کہیں کوئی پابندی اور حرام کی بات نہیں ہے، اسی طرح نہ ان پر مسجد آنا لازم ہے، بلکہ أفضل یہی ہے کہ وہ گھروں میں نماز پڑھیں،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے انکا یہی ذہن بنایا تھا. اب جو ذہن بنایا گیا کہ”بیوتھن خیر لھن”اسکے مطابق اسکے مقاصد کو سامنے رکھتے ہویے فقہا نے خوف اور فتنے کے پیش نظر جوان اور معمر خاتون کے مابین فرق رکھا ہے،حدیث میں بیان کردہ شرطوں کے مطابق معمر کو اجازت دی گئی ہے وہ بھی مغرب عشاء و فجر جیسے نماز میں،جبکہ جوان خاتون کی شرکت کو سدا للذریعه کے طور پر کراہت سے تعبیر کیا گیا،البتہ جاکر نماز کرلے تو کویی اسکے فساد وبطلان کا فتوی نہیں دیتا،اسکے مطابق اب اگر کہیں وہ خوف اور فتنہ نہیں تو وہ کراہت بھی ختم!جیسا کہ حرم مقدس میں دیکھ سکتے ہیں.ثانیا فقہ کویی الل ٹپ من مانی ذاتی پنچایتی ٹایپ کے فیصلے کا نام نہیں،بلکہ یہ تو قرآن و حدیث کے لب ولہجے،سیاق وسباق نیز مقاصد سے کشید سہولت وآسانی پر مبنی قاعدے قانون ہوتے ہیں.جسے دنیا کی ہر مہذب قوم اپنے طور پر اپنے آئین و دستور سے مرتب کرکے سامنے رکھا کرتی ہے.ثالثا استطاعت اور گنجائش کے مطابق عورتوں کی سہولت کی خاطر بڑی بڑی مساجد میں مخصوص گوشے ٹوائلٹ اور وضو خانے بننے چاہیے تاکہ سفر کے دوران انہیں اپنی نماز و دیگر ضروریات کی خاطر پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور ان پر عملا مساجد کے دروازے بند نہ ملیں،جس کی قول رسول صلعم "لا تمنعوا”سے حوصلہ شکنی کی گیی ہے.

ایک بار پھر خلاصہ ذہن میں بٹھا لیں کہ انکا مسجد میں آنا کویی واجب یا لازم نہیں،انہیں یہ فضیلت مسجد آیے بغیر گھر بیٹھے مل جاتی ہیں،لہذا أفضل اور بہتر ہے کہ مسجد آنے کے بجاے وہ گھروں میں نماز پڑھیں،اس کی ترغیب دینی ہے اور کویی خاتون سارے شرائط مذکورہ فی الاحادیث کے مطابق مسجد ہی آیے تو اسے روکنا درست نہیں ہے.

ان باتوں کو سمجھے بغیر یکطرفہ رایے قایم کرنا اور پھر مخالف رایے رکھنے والے کو طنز و تعریض کا نشانہ بنانا یہ اسلامی و اخلاقی ہدایات کے سراسر خلاف ہے.

بہر حال یہ وہ اہم پہلو ہیں جنہیں ہم نے واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی،تاکہ ایک طرف جہاں سبھی کو حقیقت کا ادراک ہو وہیں دوسری طرف پھیلایے جانے والے بھرم کا پردہ بھی چاک ہو.

اللھم وفقنا لما تحب و ترضى!

تبصرے بند ہیں۔