اردو غزل کا منٹو: شادؔ عارفی

ابراہیم افسر

  دبستان دہلی، دبستان لکھنؤ، دبستان عظیم آباد کی طرح دبستان رام پور بھی اردو ادب میں اپنی علاحدہ پہچان، منفرد مقام ومرتبہ لیے ہوئے ہے۔ جغرافیہ کے اعتبارسے یہ ریاست چھوٹی تھی لیکن اس کے فرماں روا بلند حوصلوں کے مالک تھے۔ 1857کے ناکام انقلاب کے بعد جب اردو کے دونوں دبستانوں (دہلی اور لکھنوء) میں افراتفری کا ماحول پید اہوا اور ادبا وشعرا میں اضطراب پنپنے لگا تھا۔ ایسے پُرآشوب ماحول میں والئی رام پور نوّاب یوسف علی خاں ادباوشعراکے لیے امید کی کرن بنے۔ کیوں کہ رام پورمیں ادبی فضا برقرار تھی اور نوّاب یوسف علی خاں بہ ذات خودایک شعر تھے ان کا تخلص ناظم تھا۔ شاعروں کے لیے یہ مٹی بڑی زرخیزرہی ہے۔ اس سرزمین کو اس بات کا فخر حاصل ہے کہ دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ کی زبانوں کا امتزاج اور اثر یہاں کے شعرا نے قبول کیا۔ ریایت لفظی، قافیہ پیمائی سے نجات حاصل کرسادگی اور معنی آفرینی ان کے مزاج کا لازمی جز بن گیا۔

 دبستانِ رام پور کے امین، پاسبان اور علم بردارشاعروں میں شادَؔ عارفی کا نام بڑے ادب واحترام سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز لڑکپن سے ہی کردیا تھا۔ البتہ ان کی شہرت بیسویں صدی کے نصف میں بامِ عروج کو پہنچی۔ شادؔ عارفی نے سرزمین رام پور کواپنا اوڑھنا، بچھونا بنایا۔ تقسیم وطن کے بعد ہندوستان کے بہت سے ادباو شعرا پاکستان ہجرت کرگئے تو ایسے پُرآشوب اور پُر خطر ماحول میں شاد عارفی نے ہندوستان میں ہی مرنے جینے کا آہنی فیصلہ کیا۔ کیوں کہ وطن عزیز کی مٹی سے ان کو بے پناہ اور والہانہ محبت تھی۔ شادؔ عارفی نے اپنی شاعری میں ان تمام باتوں کا محاکمہ بڑے دلچسپ اور طنزیہ انداز میں اس طرح کیا ہے:

منتظر ہے پاکستان اور میں نہ جائوں گا

برہمن کے مصرعہ پرطبع آزمائوں گا

چاہتا ہوں بھارت کا نام اور اونچا ہو

سوچتاہوں مسجد سے جوتیاں چرائوں گا

زاہد کہتا ہے جنت میں بے ایماں نہیں جائے گا

لیکن شادؔ مسلماں ہوکر پاکستان نہیں جائے گا

  شادؔ عارفی اپنی بات شوخی وظرافت کے انداز میں کہنازیادہ پسندکرتے تھے۔ اس لیے ان کے یہاں طنزومزاح کا انداز زیادہ ملتا ہے۔ اپنے منفرد لب ولہجے کے بل بوتے  عام وخاص کو متاثرکرنے کا فن شادؔعارفی کی شاعری میں بہ درجہ اتم موجود ہے۔ اس لیے پُرنم اور پُردرد ماحول میں ہی شادؔ کی شاعری پروان چڑھ کر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ہندوستان کے لیے اپنی جان قربان کرنا ان کے لیے باعث فخرتھا۔ ساتھ ہی رام پور کی زمین ان کے لیے ایک عظیم خطۂ ارض تھی۔ جس طرح سے میرتقی میرؔ کا دل دہلی کے لیے ہمیشہ دھڑکتا رہا، ٹھیک ویسے ہی شادؔ عارفی کے دل میں رام پور آباد تھا۔شادؔ عارفی نے نواب حامد علی خاں اور نواب رضاعلی خاں کے افکار وخیالات کی پاس داری کر ان کا اپنے انداز میں شکریہ ادا کیا۔

  شادؔعارفی کی شاعری ان کی زندگی کی حقیقی ترجمان ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے طنزیہ اشعارمیں ایک خلش محسوس ہوتی ہے۔ شادؔ عارفی کی زندگی کا کینوس بہت وسیع تھا، اس میں وہ طرح طرح کے رنگ بھرتے نظرآتے ہیں ۔ اس میں رومان، احتجاج، طنزومزاح اور رام پور کے محل کی شان وشوکت پر اپنے انداز سے شاعری کی نرم اور گہری چوٹ کرنا بھی شامل ہے۔ اس لیے جب ہم شادعارفی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں طرح طرح کے Shadesنظرآتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان کو اپنے ہم عصر شعرا سے جداکرتی ہے۔انھی خصوصیات کی بنا پر  ناقدین ادب نے شادؔارفی کا شمار فراقؔگورکھپوری اور یاس یگانہؔچنگیزی کی صف میں کیا ہے۔ اس بارے میں شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں :

’’یگانہ، فراق اور شادعارفی نے اپنی اپنی انفرادیت کو زیادہ استقلال بخشا، انہوں نے غزل کے سرمائے سے ایسے الفاظ کم کرنے کی کوشش کی جو روایتوں کسے مشترک تھے، جنہیں ترقی پسندوں نے بھی مسترد نہیں کیا تھا لیکن جو اپنی معنویت کھوچکے تھے۔ انہوں نے بھی شاعرانہ موضوعات کی کچھ عمارت ڈھادی اور یہ خلاقانہ ذہن کے لیے ہرموضوع بن سکتا ہے۔‘‘(1)

  شادؔعارفی نے شاعری کے لیے مواد، مآخذ اورموضوع اپنے اردگرد سے ہی لیا۔ کیوں کہ ان کے اندر اتنی صلاحیت اور قابلیت تھی کہ وہ اپنی زندگی کے ہرلمحے کو شاعری کے پیرائے میں بیان کرسکتے تھے۔ ان کی عاشق مزاجی کے چرچے رام پور ہی نہیں ، اردو دنیا میں زبان زد خاص وعام تھے۔ مالی حالت کا کمزور ہونا، بے روزگاری، عقد میں لمبی عمرکاکھینچنا، پھر ان تمام واقعات کو خوبصورتاور منفرد انداز میں نظم اور غزل کی شکل میں منظرعام پرلانا، اس طرح شاعری نے شادعارفی کی مقبولیت کو شہرت دوام بخشا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کے شعر کے ایک مصرعہ سے ہی اندازہ لگالیا جاتا ہے کہ یہ شعر شادعارفی کا ہے۔ اس طرح ان کے اسلوب اور انداز تحریر کی انفرادیت کا اندازہ بہ آسانی لگایاجاسکتا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے طرح طرح کے گوشے عیاں ہوتے ہیں اور شادؔعارفی اپنی اسرار کی گفتگوکو بھی شاعری میں لے آتے ہیں ۔ اس طرح کی شاعری پر شاد ؔعارفی فخرکرتے ہیں ۔ طنزومزاح میں عشقیہ لب ولہجہ ان کی شاعری کی شناخت ہے۔ ایسی شاعری قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔

دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستان کوئی نہیں

………

میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں

………

ابھی انگڑائیاں لی جارہی ہیں

سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے

………

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

ایک قدم پھولوں پہ ایک تلوار پر

………

جیسے بکھری ہوئی زلفوں میں کسی کا چہرہ

جیسے دروازے کی اولٹ میں کوئی پیشانی

   مندرجہ بالا اشعار کے تناظرمیں یہ بات ببانگ دہل صداقت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شادؔعارفی نے اپنی شاعری میں ان باتوں کو محوِ سخن میں تبدیل کیا جو ان کی ذاتی زندگی میں رونما ہوئیں ۔ اپنے اکلوتے معشقے پرفخرکرنا، اپنی محبوبہ سے چوری چوری ملنے جانا، تکرارکرنا، التفات کی باتیں کرنا، غرض عشق کی کبیرا، صغیرا حرکتوں ، نازک مزاجیوں کو منظرعام پر لانے کا کام شادؔ عارفی کے سوا کون کرسکتا ہے؟ ان تمام امور کا محاکمہ کرتے ہوئے معتدل ناقد آل احمدسرور لکھتے ہیں :

’’شاد کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر ہی طنز نہیں ہے محبت اور نفسیات انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انہیں ایک ایسے تیور بانکپن سے پیش کیاگیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں ۔‘‘(2)

 شادؔعارفی زمانے کو جلی کٹی، کڑوی اور کھری باتیں سنانے والے شاعر تھے کیو ں کہ وہ ایک غیرت مند، غیوّر اور خود دار انسان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی مصائب جھیلے وہ اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوکر ابھرے۔ مصائب کا اثر ان کی شاعری میں صاف عیاں ہے۔ وہ اپنے عزیزواقربا سے بے پناہ اور بے لوث محبت کرتے تھے۔ ادبی معرکے، لطیفے اورواقعات ان کو زبانی یاد تھے۔ ذوقؔ، داغؔ، امیرؔمینائی اور نظام رام پوری وغیرہ کے بہت سے اشعارونکات اپنے تلامذہ کو سناکر محظوظ کرتے۔ شادؔ عارفی کا یہ کمال تھا کہ وہ جوبات کہتے نئے انداز میں کہتے وہ دنیا کو ان کی باتیں نئی معلوم ہوتی تھیں ۔ انہوں نے پرانے لفظوں کو نئی جہت اور معنویت بخشی۔ عشق کے معاملات کو اس طرح پیش کیا کہ وہ سیدھا دل پر اثرکرے۔ اس لیے ادراک اور واحساس کا لمس ان کے یہاں موجود ہے۔ ان کی شاعری میں عشقیہ حلاوت اور جذباتی آسودگی جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً

شاد! ہجر وصل تک محدود تھی میری نظر، اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے، سوچنے کی ہے

………

شباب وصفوت کی بات اچھی تو ہے مگرآج کل نہ کہیے

غزل برائے حیات لکھیے، غزل برائے غزل نہ کہیے

………

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزم عیش میں

اس غزل کا شادؔ کیا، ماحول بھی قائل نہیں

………

وسمہ وغازہ کی یہ شوقین بڑھیا تابہ کیے

فرض کرلیجیے غزل میں بانکپن باقی بھی ہے

 شادؔ عارفی کی شخصیت، مصلحت، مزاج اور صاحبِ طرز انداز پر بحث کرتے ہوئے پروفیسرخالدمحمود لکھتے ہیں :

’’شادصاحب ایک غیور، خود داراور سادہ لوح انسان تھے۔ بے نیازی نے انہیں جری بنادیا تھا۔ ایسی کج کلاہ شخصیتیں کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔ مصلحت اور زمانہ سازی انہیں بالکل نہیں آتی۔ خصوصاً ٹیڑھی نگاہ سے تو انہیں اللہ واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ شاد صاحب مزاجاً ایسے ہی تھے۔ انہوں نے زندگی کی کڑوی کسیلی سچائیوں کی یلغارکو طنز کے تیروں پر رکھ لیا تھا اور یہ مشکل کام وہ آسانی سے انجام دیتے رہے، اس راہ میں اپنے نقصان کی بھی پروانہیں کی۔ ان کی کج کلاہی نے خوشامد طلب اور لطافت پسند طبیعتوں کو ان کے واشگاف انداز بیان اور لہجے کی تیزابیت کی داد کا حوصلہ نہیں بخشا۔ اس لیے اس نادر روزگارشاعرکے ساتھ انصاف نہیں ہوسکا۔‘‘(3)

 شادعارفی نے اپنی شاعری کی ابتداترقی پسندتحریک کے زیرسایہ کی۔ لیکن شاد نے کبھی بھی اس تحریک کے اصول وضوابط کی پابندی نہیں کی۔ بلکہ اپنی آتش فشاں شاعری سے اس ادبی تحریک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ ذات خود شاد عارفی زندگی کی ان تلخ حقائق سے روبرو ہوچکے تھے جن کی نمائندگی ترقی پسندتحریک کررہی تھی۔ شاد کا جس گروہ یاطبقے سے تعلق اور وابستگی تھی اس کی نمائندگی یا ترجمانی وہ بخوبی کررہے تھے۔ مشکل حالت میں شادؔ نے مختلف فیکٹریوں میں ملازمتیں کیں ۔ اخبارورسائل میں پروف ریڈر اور ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔ بچوں کو گھرپرٹیوشن پڑھایا۔ حالانکہ شادؔ صرف دسویں جماعت پاس تھے۔ لائبریری رام پور میں بحیثیت لائبریرین بھی کام کیا۔ علاوہ ازیں نائب ناظم تحصیل سواراور اپنے شاگردوں کی شاعری پر اصلاح کا معاوضہ بھی لیا۔ ان کے اندرشاعری کا ذوق عنفوان شاب سے ہی ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ محض 17برس کی عمر میں ہی ان کی پہلی غزل منظرعام پر آکر دادتحسین حاصل کرچکی تھی۔ اسی عمرمیں احمد علی خاں عرف لڈّن خاں یعنی شادعارفی ہاڑمانس کی محبوبہ سے محبت کربیٹھے۔ یہ عشق ناکام رہا۔ شاد زندگی بھرپہلی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے طنزیہ عشقیہ شاعری کرتے رہے۔ اس طرح ان کی شاعری میں ناکام عشق کا اثر جابجا دکھائی دیتا ہے۔

نہ پوچھو مست انگڑائی سے او سانوں پہ کیا گزری

یہ دیکھو، ہاتھ سے گِرگِر کے پیمانوں پہ کیا گزری

نقابِ رخ الٹ کر کیا کریں گے اُن پہ روشن ہے

غلط فہمی نظارہ سے دیوانوں پہ کیا گزری

کسی کافر ادا کے روپ میں آنچل کو ڈھلکائے

قیامت سامنے آئی تو فرزانوں پہ کیا گزری

شادؔعارفی کے عشق مزاجی نئے لب ولہجے اور دیگرشعرا کے رنگ جو ان کے کلام میں اکثر نمایاں ہے، کا ان کے شاگردِ معنوی پروفیسر مظفر حنفی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’شادعارفی کی غزل پر کہیں کہیں آتش کے رنگ کی چھوٹ پڑتی نظرآتی ہے۔ بے باک لہجہ اور بے تکلف اندازِ گفتگو اور محبوب کے سامنے بھی سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ آنا آتش کی نمایاں خصوصیات ہے۔ شاد کے یہاں بھی ہمیں آتش کی طرح شوخ لہجے کے ساتھ احساس کی گرمی، محبوب کے جسم کی آنچ، حسن کی چلتی پھرتی تصویر پھرتی تصویر اور عشق کی حقیقی کیفیات کی نقاشی ملتی ہے۔ لیکن آتش کی پوری شاعری اس پایے کی نہیں ہے اور بیشتر مقامات پر وہ بری طرح لکھنوی رنگ کا شکارہوگئی ہے۔ جب کہ شاد کی تقریباً تمام عشقیہ غزلیں ان خصوصیات کی حامل ہیں اور ان کے ہاں یہ رنگ کافی نکھرکر اوپر آیا ہے۔ ان کے اشعار میں عاشق ومحبوب کی انسانی فطرت اور نفسیات کے ایسے متحرک عکس نظرآتے ہیں جو پرکھنے والے کو دیرپامسرت سے ہم کنار کرتے ہیں احساسی شاعری اور لمسیت کی اتنی اچھی اور ایسی مثالیں جن کے لیے انگریزی ادب میں کیٹس مشہور ہے، اردومیں شادعارفی کے ہاں بکثرت ملتی ہے۔‘‘(4)

 شادؔعارفی کی حب الوطنی اور ترک وطن کے بارے میں ، میں شروع میں ہی تحریرکرچکا ہوں لیکن شادؔعارفی نے شاعری کے علاوہ نثرمیں بھی ترک وطن کرنے والوں پرخوب لعن طعن کی ہے۔ شادؔ نے جو مکتوبات اپنے دوستوں کے نام تحریرکیے ان میں ان باتوں کا خلاصہ ہے۔ ساتھ ہی ان کی وطن پرستی کا جذبہ صاف محسوس کیاجاسکتا ہے۔ ترک وطن کرنے والے ادبا وشعرا کو شادؔ عارفی نے کھبی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ایسے لوگوں کو انہوں نے اپنے مکتوبات میں تنقید کا نشانہ بنایا۔وہ نیازفتح پوری اور جوشؔ ملیح آبادی سے وہ بہت خفا تھے۔ کیوں کہ تمام اہل ہند کو ان کے ترک وطن کے فیصلے ناراضگی تھی۔ شادؔ کا ماننا تھا کہ اردو دنیا میں جو ان کی پہچان، شہرت، مقام ومرتبہ ہے وہ ہندوستان کی بدولت ہے۔ اس لیے ان دونوں حضرات پر شادعارفی کے ذریعے خوب تحریری بم برسائے گئے۔ شادؔ عارفی کے مداح جو پاکستان میں مقیم ہوگئے تھے انہوں نے ان کو وہاں بلانا چاہا، مگر ایک خوددار اور محبانِ وطن انسان نے اپنی مٹی میں ہی دفن ہونا پسند کیا۔ اس معاملے میں شاد کا انداز فکر اورمزاج دوسرے ادیبوں اور شاعروں سے مختلف وجداگانہ تھا۔ شادؔ اپنے ملک میں ہی رہ کر تمام طرح کے مصائب برداشت کرنے کو فوقیت دیتے تھے اور ترک وطن کو ایک عظیم ترگناہ تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے شاد نے عیش وعشرت کی زندگی کو ٹھکرا کر رندوفاقہ کشی کی زندگی کو گزارنا پسند کیا۔ شادؔ عارفی کے ایسے بہت سے مکتوبات ہیں جن میں بالائی باتوں کا ذکر ہے۔ شاد ؔعارفی کا درج ذیل مکتوب حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور ان کی فکر کی صحیح ترجمانی بھی کرتا ہے:

’’خوشامدی مزے کررہے ہیں اور سچی بات کہنے والے، وطن سے محبت کرنے والے ترکِ وطن کرنے والوں پر چارحرف بھیجنے والوں کی کون سنتا ہے مگرکب تک۔ ایک دن آئے گا کہ ہم Left Wing والوں کی قدرہوگی (ہم ہوں یا نہ ہوں ) جوش پاکستان گیا تو سب سے پہلے میں نے اسے لتاڑا، اب بھی اس کو معاف نہیں کررہا ہوں ، کم بخت نمک حرام اور وطن دشمن تھا۔ دُم دبا کر نکل گیا اور اپنی ایک حالیہ رباعی میں کہتا ہے کہ کسی سے میرا بال بیکانہ ہوا۔ بے وقوف کو یہ خبر نہیں دُم اور ناک یہیں رہ گئی۔ میں یہاں فاقے کررہاہوں تو کیا ہوا؟ کیا پاکستان میں میرے لیے ’مرغ وماہی‘ کے امکانات ہیں کہ جو میں ادھرجانے کا خیال کروں اگرہوں تب بھی:

کون جائے اے ظفر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر

جہاں نال گڑی ہو وہاں سے دوسری جگہ جاکر آدمی کیسے مطمئن ہوسکتا ہے۔‘‘(5)

 اسی طرح شاد عارفی نے اپنے کرب اور جذبات کا اظہارایک اور مکتوب میں کیا ہے:

’’تمہیں معلوم ہے کہ حکومت نے جن کو نوازا (مثلاً جوش اور نیازفتح پوری) دونوں ہندوستان سے فرار ہوگئے اورمیں (جسے کوئی مراعات حاصل نہیں ) محض وطن کی محبت کے سلسلے میں فاقے اور بے گھری اور درد در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے پاکستان جانا نہیں چاہتا (اپنا وطن پھر اپنا وطن ہوتا ہے) چاہتاہوں یہیں کی خاک میں مل کر اپنی وفاداری اور حب الوطنی کا ثبوت دے جائوں ۔‘‘(6)

 شادؔعارفی کو اپنی حب الوطنی کے ساتھ ساتھ طنزیہ، مزاحیہ اور عشقیہ شاعری پرناز تھا۔ جن نظموں اور غزلوں سے شاد کی شہرت ومقبولیت بام عروج پرپہنچی ان میں ’ساس‘،’بیٹے کی شادی‘،’دلال‘،’دھوبن‘، ’غمازہ‘، ’دیہاتی لاری‘،’پرانا کوٹ‘،’پیرودہقاں ‘،’ٹکڑے گولے‘،’رنگیلے راجا کی موت‘،’پرانہ قلعہ‘،’ان اونچے اونچے محلوں میں‘،’پروڈیوسر‘،’شوفر‘،’مہترانی‘،’مشورہ‘،’بھکارن‘،’سالی‘،’مال روڈ‘،’میرے محلے کے دوگھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘،’گل کاری تصور‘،’میرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے‘،’جبروقدر‘ اور ’دسہرہ اشنان‘ وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ اپنی عمرکے آخری دور میں شادؔعارفی نے ’آپ کی تعریف‘ کے عنوان سے منظوم خاکوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کاوش سے شادؔ عارفی کا مقصد لوگوں کے کرداروں کو طنزومزا ح کے انداز میں منظرعام پرلانا تھا۔ شاد ؔکا ارادہ تقریباً ایک ہزار کرداروں کو ’آپ کی تعریف‘ میں شامل کرنے کا تھا۔ لیکن ڈھلتی عمراور جسم کی کمزوری سے وہ پار نہ پاسکے اور یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔ شادؔعارفی کے حوصلے ہمیشہ بلندرہتے تھے۔ ہمت کا دامن انہوں نے کبھی نہ چھوڑا۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے مداحوں نے ان کا کلام شائع کرادیا تھا۔ مگر اس کی طباعت عمدہ نہ تھی۔ شادؔعارفی کا ارادہ اپنی منتخب نظموں کو الگ سے شائع کرانے کا تھا۔ لیکن افسوس صدافسوس یہ ارادہ ان کے دل میں ہی رہ گیا، کیونکہ زندگی نے ساتھ نہ دیا۔ البتہ آج اردو دنیا میں شاد عارفی کی اپنی منفرد شناخت ہے۔ (ان کی شہرت میں پروفیسر مظفرحنفی کی کارفرمائیاں بھی ہیں ) کیوں کہ ہندوستان میں انہوں نے شادؔ عارفی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آج دنیاکی مختلف یونیورسٹیوں میں شادؔ عارفی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر ہورہے ہیں ۔ اس طرح شاد عارفی کی مقبولیت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ آخر میں ، میں شادؔعارفی کو ڈاکٹر مولابخش کے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں :

’’شاد اردو غزل کے منٹو ہیں ۔ اگرشاد نے اپنے جذبات اور چڑچڑے پن پرقابو رکھاہوتا تو آج کی غزل کی تاریخ فراق کی عظمت پر سوالیہ نشان قائم کرچکی ہوتی۔ لیکن انہیں کمزوریوں نے ہی شاد کو ایسا خالص طنزیہ شاعر بنادیا ہے جس کی نظیر اردو ادب میں شاید ہی ملے۔‘‘(7)

حواشی

(1)ہندوستان میں نئی غزل، شمس الرحمن فاروقی، فنون لاہور، جدید غزل نمبر، حصہ اول، ص:134-136

(2)میرا صفحہ،آل احمدسرور،ہفت روزہ، ہماری زبان، علی گڑھ،18اپریل1968،ص:21

(3)کتاب نما، نئی دہلی، شاد عارفی نمبر،فروری2014،ص:6

(4)ایوانِ اردو، نئی دہلی، اپریل2014،ص:7

(5)نقوش، خطوط نمبر، حصہ دوم،ص:531

(6)ایک تھا شاعر، مظفر حنفی، 1967،ص:586

(7)کتاب نما، نئی دہلی، شاد عارفی نمبر،فروری2014،ص:87

تبصرے بند ہیں۔