کیا شبلی کالج کے منتظمین اور طلباء مسلمانوں کے تعلق سے سنجیدہ ہیں؟
ذاکر حسین
مکرمی !
گزشتہ دنوں بڑے شور شرابے کے بعدشبلی کالج کے طلباء یونین کے انتخابات اختتام پذیر ہوئے۔ یونین کے صدر کے عہدے کیلئے قمر کمال نے جیت درج کی۔ ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے خاکسار کی مودئبانہ گذارش ہیکہ ایک سال کے عرصہ میں کالج میں ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کریں جو مسلمانوں اور علامہ شبلی نعمانی کی ترجمانی کرنے والا ہو۔ اس کے علاوہ راقمِ سطور کالج کے منتظمین حضرات سے بھی درخواست کرتا ہے کہ شبلی کالج میں تعلیم کا بہتر نظم اور کالج میں زیرِ تعلیم طلباء کی اچھے سے ذہن سازی کریں، تاکہ مستقبل میں وہ قوم کے لئے بہتر طریقے سے کام کرسکیں۔
آج مسلمانوں کی حالات نہایت ناگفتہ بہ ہیں اور قوم کو پسماندگی کے دلدل سے نکالنے کیلئے ہم سب کو مل کر کوشش اور جد جہد کرنی ہوگی۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس کانگریس کی سینئر لیڈر اور دہلی کی سابق وزیراعلیٰ شیلا دیکشت کی اعظم گڑھ آمد پر اعظم گڑھ شبلی کالج کے منتظمین نے جس طرح سے خیر مقدم کیااس سے ہماری سطحی اور احساسِ کمتری کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ بات کے سلسلے کوآگے بڑھایاجائے ماضی کے اوراق میں اعظم گڑھ سے وابستہ شرمناک داستان کا بھی آموختہ پڑھ لیتے ہیں۔
اعظم گڑھ آمد پر راہل گاندھی سے شبلی کالج کی چند مسلم طالبات نے قوم اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے ہاتھ ملایاتھا۔نقاب پوش طالبات کا راہل گاندھی سے ہاتھ ملانے والا شرمناک نظارہ میڈیا کے لوگوں نے اپنے کیمرے میں قید کر لیا۔ دوسرے دن وہی ہوا جو عام طور سے میڈیا مسلمانوں کے ساتھ کررہاہے۔ راہل گاندھی سے شبلی کالج طالبات کاہاتھ ملانے والی تصویر ہندی روزنامہ ہندوستان نے پہلے صفحہ پر شائع کر کے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔جن لوگوں نے شیلا دیکشت کے استقبال میں قابلِ ذکر رول ادا کیاان سے خاکسار کا ایک سوال ہیکہ کہ اگر بٹلہ ہائوس انکائونٹرمیں مارے گئے عاطف اور ساجد آپ جگر کے ٹکڑے ہوتے تو کیاآپ لوگ شیلا دیکشت کے استقبال میں وہی رویہ اختیار کرتے جیسا شرمناک رویہ آپ نے اپنایا۔سب کو پتہ ہے بٹلہ ہائوس انکائونٹرمیں کانگریس اورشیلا دیکشت نے کیسا مذموم کردار ادا کیا تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شیلا دیکشت کی آمد پر بٹلہ ہائوس انکائونٹر معاملے پر شیلا دیکشت خیر مقدم گروپ شیلا دیکشت سے باز پرس کرتا اور ان محترمہ شیلاسے ابھی تک بٹلہ ہائو س انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری نہ ہونے کی وجہ پوچھتے۔
سب کو علم ہیکہ کانگریس نے بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری نہ کرواکے کانگریس نے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو شعلوں میں جھلسانے کا کام کیابلکہ کانگریس نے آئین کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔آئین کی مجوعی کرمنل پروسیجر کوڈ (ضابطہ ء مجموعہ فوجداری)کی دفعہ ۱۷۶کے تحت پولس تصادم کی کسی بھی وارادت کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے۔ ہمارا آئین کی اسی دفعہ کے تحت بٹلہ ہائوس انکوائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہے۔
اس کے علاوہ شبلی کالج کے منتظمین کو کانگریس کے ذریعہ آرٹیکل ۳۴۱پر لگائی گئی مذہبی پابندی کے معاملے میں شیلا دیکشت کوگھیرتے۔ واضح ہوکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم اور کانگریس سربراہ جواہر لعل نہرو نے آرٹیکل ۳۴۱ پرمذہبی پابندی لگاتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ جو ہندو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان بن گئے ہیں اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب میں داخل ہو جائیں توانہیں ریزرویشن ملے گا۔اگر مسلمانوں ہندو نہیں بنتے ہیں تو انہیں ریزرویشن نہیں ملے گا۔ گویاسابق وزیر اعظم مسلمانوں کومرتد بنانے کی یہ ایک ناکام کوشش تھی۔
شیلا دیکشت کا خیر مقدم کرنے والوں کو شیلا دیکشت سے یہ بھی پوچھنا چاہئے تھا کہ ۱۹۶۴میں جب گجرات میں مسلم کش فساد ہوا اس وقت مرکز اور ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن کانگریس مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی نتیجے کے طور پر پانچ ہزار مسلمان شر پسندوں کے ہاتھوں کیوں اپنی جان کھو بیٹھے ؟پھر گجرات میں ہی ۱۹۸۵ میں مسلم کش فساد ہواپھر سے کانگریس کی مرکزاور ریاست میں حکومت۔ لیکن مسلمان کا لہواور مسلمانوں عورتوں کی عصمتیں شدت پسندوں کے ہاتھوں کیوں نیلام ہوتی رہیں ؟
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔