اسلام میں لباس و شرم و حیا کا تصوّر

حافظ محمد ہاشم قادری

 مولائے رحیم نے تمام بنی نوع انسان کو لباس پہننے کا حکم فرمایا اور لباس پہننے کیلئے کچھ  بنیادی اصول بتائے  لھذا لباس  کے تعلق سے  اِن اُصولوں کا خیال  رکھنا  ضروری  ہے۔

 ارشاد باری تعالی ہے (القرآن، سورہ اعراف، آـیت نمبر ۲۶ )میں ہے یـٰـبنی آدمَ قَدْ اَنْزَلْنَا۔ ۔۔۔۔ الخ  ترجمہ: اے آدم کی اولاد بیشک ہم نے تمہار ی طرف لباس اُتارا تاکہ تم سب شرم گاہوں کو چھپائو اور لباس سے آرائش، زیب و زینت حاصل کرو اور پرہیز گاروں کا لباس بہتر ہے۔ تاریخ اس بات پرمتفق ہے کہ انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل اور عرُیانی  (ننگے پنی)  کے احساس سے پریشان ہوکر جنگلیوں نے پتّوں سے اپنے شرمگاہوں کو چھپایا اور آج ترقّی یافتہ کہے جانے والے دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی نے’’لباس ‘‘ کا نام وِیایہی لباس اِنسانی زنذگی کی اہم ضرورت کیونکہ لباس کی بنیادی غرض جسم کی پردہ پوشی زیب و زینت کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات (سردی گرمی) وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور انسانی کھال و جسم کو ماحول کے تاب و کاری کے اثرات و بیماری کے جراثیم کو دور رکھنا بھی ہے۔

امام فخرالدین راضی رحمتہ اللہ علیہ نے عمدہ لباس کے علاوہ زیب و زینت کی تمام اشیاء کو اس آیت میں داخل فرمایا ہے خواہ انکا تعلّق لباس کی نفاست، جسم کی نظافت، گھر کی صفائی و آرائش سے ہو بشرطِ شریعت نے اُنھیں حرام نہ کیا ہو اور فضول خرچی نہ ہو سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے بہکاوے کا شکار ہونے پر حضرتِ آدم علیہ السلام اور حضرتِ حوّا کو اپنی عُریانی کا احساس ہوا اور وہ درختوں کے پتّوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے عیسائیوں کی مقدّس کتاب بائبل کے عہد نامہ قدیم کے پہلے عنوان پیدائش کے باب ی’’ب۳ ‘‘  آدم اور انکی خاتون کو ہونے والی احساس عُریانی اور درخت کے پتّوں کے لباس کا ذکر کا واقعہ ملتا ہے۔

لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ ذکر ملتاہے لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ستر کے حصّوں کو چھپالے جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے سرے سے وہ لباس ہی نہیں کیونکہ وہ لباس اپنا بنیادی مقصد پورا نہیں کر رہا ہے جس کے لئے وہ سلایا، بنایا گیا ہے، بیشک یہی لباس انسان اور باقی تمام جانوروں میں فرق ظاہر کرنے کا پہلا اور آخری ذریعہ بھی ہے یہی وجہ ہے غیر مذہب، جنگلی انسانوں نے جو غاروں، جنگلوں میں رہا کرتے تھے وہ کپڑا میسر نہ ہونے کے باوجود و اپنے ستر کو ڈھاپنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے وہ بھی کپڑا نہ ملنے کے باوجود پتّوں سے اپنے ستر چھپائے رہتے تھے۔

آجکل کا ننگا پہناوا موجود ہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل مقصد کو مجروح کر دیا ہے آجکل مردوں عورتوں میں اپنے لبا س ر ائج ہیں جس میں اسکی کوئی پرواہ نہیں کہ جسم کا کونسا حصہ کھل رہا ہے اور کونسا ڈھکا ہوا ہے حا لانکہ اسلام میں ستر کا حکم یہ ہے کہ مرد کے سامنے مرد کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں اور عورت کے سامنے عورت کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں مثلاََ اگر کسی عورت نے ایسا لباس پہن لیا جس میں سینہ کھلا ہوا ہے بازو کھلے ہوئے ہیں تو اس عورت کو اس حالت میں دوسری عورتوں کے سامنے آنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس حالت میں مردوں کے سامنے آئے اسلئے کہ یہ اعضاء اسکے ستر کے حصے ہیں۔ آجکل شادی وغیرہ کی تقریبات میں دیکھئے کیا حال ہو رہا ہے بے حیائی کے ساتھ ایسے لباس پہن کر مردوں کے سامنے عورتیں بچیاں گھومتی پھرتی ہیں اگر کوئی کہے تو کہا جاتا ہے سوچ بدلیئے مذہب اسلام اس بات کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کپڑے بدلیئے سوچ بدل جائیگی  بقولِ شاعر

مجھی سے سب کہتے ہیں رکھ  نیچی  نظر اپنی

کوئی انسے نہی کہتا نہ نکلے  یوں عیاں  ہوکر

اسی سلسلے میں مشہور طنزیہ شاعر جناب اکبرؔ الہ آبادی نے بھی بہت خوب کہا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں

اکبر زمیں پہ غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

خدا کے فضل سے بیوی میاں دونوں مہذب ہیں

شرم ان کو نہیں آتی انہیں غصہ نہیں آتا

آجکل اس طرح کے جملے بہت کثرت سے سننے میں آتے ہیں کہ صاحب اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے، دل صاف ہونا چاہیئے مذہب سے دور اسلام بیزار ذہنیت کے لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور پھیلا رہے ہیں ‘  نام نہاد نئی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کا عجیب فلسفہ ہے کہ اگر عورت اپنے گھروں میں اپنے لئے، شوہر کے لئے، اپنے بچوں کے لئے کھانا تیّار کرے تو یہ د قیانوسی اولڈ ماڈل (Old Model)ہے اور اگر وہی عورت ہوائی جہاز میں ایر ہوسٹس(Air Hostes) بنکر انسانوں کی ہوس ناک نگاہوں کا نشانہ بنے اور لوگوں کی  (خدمت)  غلامی کرے تو اِسکا نام آزاوی ہے اگر عورت گھر میں رہ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن کیلئے خانہ داری کا نظم کرے تو ذلت ہے۔ دوکانوں پرسیلز گرل بن کر اپنی نازو ادا ومسکراہٹوں سے گا ہکوں کی توجہ اپنی طرف کرے یا دفتر میں بوس(Boss) کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے نعوذ باللہ !

اللہ نے انسانوں کو عر یا نیت (ننگا پن)  کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام بنی نوع انسانی کو لفظ آدم کہکر آگاہ فرمایا کوئی مذہب کی قید نہیں پارہ ۸ سورہ اعراف میں فرمارہا ہے  ترجمہ : اے آدم کی اولاد خبردار تجھے شیطان فتنے میں نہ ڈالدے جیسا تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور اُتر وادیااُن سے انکا لباس تاکہ نظر پڑے انھیں شرم کی چیزیں شیطان آج بھی تمام دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ عُریانیت پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے تاکہ انسان جس لباس کو اپنی بنیادی اور اہم ترین ضرورت سمجھتا ہے اس سے  اس کو آزاد کر کے پھر سے جانوروں درندوں کی طرح بے لباس کر دیا جاے، اللہ انسانوں پر بے پناہ مہربان ہے بے حیائی سے دور رکھنے کیلئے قرآن مجید میں کئی جگہ بار بار اس قسم کے احکام جاری کئے جن میں شرم و حیاء کا دامن تھا منے کی تعلیم دی گئی  سورہ انعام،  سورہ احزاب، سورہ شوریٰ،  سورہ نور،  سورہ العنکبوت، سورہ طلاق، سورہ بنی اسرائیل، بطور خاص اس حوالے سے قابل ذکر ہیں ہر وہ قول یا عمل سے بے حیائی یا بے شرمی کو فروغ ہو غلط ہے عریانی بے شرمی دیکھنے والوں کے حیوانی جذبات سیکس(Sex) کو اُبھا ردیتے ہیں اور انسان مذہبی تمدّنی, اخلاقی قدروں سے دور ہو جاتا ہے   حجتہالاسلام حضرت اِمام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شہوت تمام انسانی شہوات پر غالب ہے اورہیجان کے وقت سب سے زیادہ  عقل کی نا فرمان ہے۔ اسکے نتائج ایسے بھیانک ہیں جن سے شرم آتی ہے اور اظہار سے خوف لگتا ہے۔

عریانی بے حیائی سے پیدہ شدہ جنسی اشتعال  انسان کو زنا باالجبر، جنسی بے راہ روی ناجائز تعلق اور ہم جنس پرستی جیسے سنگین اورگھنائو نے جرائم پر مجبور کر تا ہے۔ قرآن سورہ اعراف میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے  ترجمہ: کہدو میرے پروردگارنے توبے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ منع فرمایاہے۔ اس سلسلے میں سورہ احزاب کی تلاوت اور مطالعہ بہت ضروری ہے جو مسلمان مرد اور عورت کی عزت و احترام تحفظ اور پاکیزگی کو مستقل طور پر حفاظت میں رہنے، پردے کی پاکیزگی کو اپنانے بے حیائی سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور اسکا ابلاغ اور عمل ان شاء اللہ ہمارے ماحول کو اور معاشرے کو بے حیائی، عریانی کی لعنت سے پاک رکھے گا اور بے پناہ فائدے کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام کس طرح ایک باحیا معاشرہ پیدا کرتا ہے؟

    اسلام اور ایمان کی بنیاد حیا اور شرم پر ہے۔ اور جب حیا ختم ہو جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا

    اسی واسطے اسلام بچپن ہی سے بچوں کی باحیا تربیت پر زور دیتا ہے تاکہ آگے چل کر یہی بچے ایک باحیا معاشرے کی بنیاد ڈالیں.
    اس سلسلے میں ہمیں مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھ کر ان پر عمل کی کوشش کرنا چاہیئے.
    – چھوٹی عمر سے بچوں کو باحیا لباس پہنانا*

    – اپنے اہل وعیال، خاندان کے بچوں اور دیگر ماتحت لوگوں میں بےحیائی کی کوئی بات دیکھ کر ہرگز خاموش نہ رہنا اور حکمت کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش کرنا.

    – 10 سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کردینا (اگر جگہ کی تنگی ہو تو بیٹا باپ کے ساتھ اور بیٹیاں ماں کے ساتھ سو سکتی ہیں)

    – چھوٹی عمر سے بچوں کی ذہن سازی کرنا اور 10 سال کی عمر کے بعد بچوں اور بچیوں کو پردہ کی ترغیب دینا

    – بچوں کو بچپن سے ورزش، تیراکی، کھیل کود اور مثبت تفریح کی عادت ڈالنا

    – بچوں کو کارٹون، فلموں، یوٹیوب وغیرہ سے دور رکھنا کیونکہ یہ ذرائع خاموشی سے بچوں کے اندر سے حیا ختم کردیتے ہیں (اور خود بھی ان سے بچنا)

    – چھوٹے اور نابالغ بچوں کو خاندان کے مرد رشتہ داروں (خاص کر غیر شادی شدہ) اور دیگر ملنے جلنے والوں کے پاس تنہا نہ چھوڑنا اور ان کی نگرانی کرنا

    – بچوں کو اجنبیوں سے دور رہنے کی تربیت کرنا

    – بچوں کو جلد سونے اور نماز فجر سمیت تمام نمازوں کی پابندی کی عادت ڈالنا

    – مردوں کو تمام نامحرم خواتین سے نظروں کی حفاظت کرنا اور غیر ضروری اختلاط سے حتی الامکان بچنا

    – خواتین کا تمام نامحرم مردوں سے پردہ اور نظروں کی حفاظت کرنا

    – اپنے گھروں کو بے حیائی کے تمام ذرائع (ٹی وی، اسمارٹ فون وغیرہ) سے پاک رکھنا

    – بےحیائی کے تمام امور میں حتی الامکان رکاوٹ بننا اور خود انکا حصہ بننے سے بچنا

    – مسلمانوں میں حیا پیدا کرنے کیلئے دینی علوم کو پھیلانا اور بے حیائی کی تباہکاریوں کا پرچار کرنا

    – خود بھی اور اہل و عیال کیلئے بھی اہل اللہ کی صحبت کا اہتمام کرنا

    – موسیقی، گانے بجانے، خاندان کی مخلوط محفلیں اور کھلم کھلا گناہ کی تمام جگہوں سے خود بھی دور رہنا اور اپنے اہل و عیال کو بھی دور رکھنا

    -لڑکے اور لڑکیوں کے نکاح میں غیر ضروری تاخیر ہرگز نہ کرنا

    – نکاح کو سادہ اور آسان بنانا اور ہر قسم کی رسومات خصوصاً بارات، مہندی، مائوں اور دیگر خرافات جن میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ان سے بچنا اور ایسی تقریبات کا بائکاٹ کرنا

    – حکومت وقت سے اسلامی سزاؤں کے سر عام نفاز کا مطالبہ کرنا اور اس کام کیلئے کوشش کرنا
    اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے .
    آمین

تبصرے بند ہیں۔