اسلام میں مزدوروں کے حقوق

عبدالرشیدطلحہ نعمانی

دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا مذہب ہی دینِ اسلام ہے،اسی مذہب نےمعاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنایااورتقسیم کار کےفطری قانون کے ذریعہ کسی کو مالک تو کسی کو مملوک ،کسی کو خادم تو کسی کو مخدوم،کسی کوحاکم تو کسی کو محکوم قراردیا ؛اسی  بناءپر باہمی حقوق وفرائض عائد کئے گئے اوراسی کی خاطرایک دوسرے کےساتھ شفقت وہمدردی کی تعلیم دی گئی۔

محنت مزدوری کرنا، ہاتھ سے کماکر کھانا، کوئی ذریعہ ٔمعاش اِختیار کرنا،کسی ہنر، فن، کاریگری اور صنعت وحرفت کو ذریعہ معاش کیلئے بطورِ پیشہ اِختیار کرنا کوئی معیوب چیز نہیں ۔ متعدد اَنبیاء ؑ، صحابہ ؓاور سلف صالحین نے حصولِ رزق کے لئے  کئی پیشوں کو اِختیارفرمایاہے۔

ابنِ جوزی نے المنتظم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے۔ ’’حضرت آدم ؑ ہل جوتتے، حضرت نوحؑ بڑھئی کا کام کرتے، حضرت ادریس ؑکپڑے سیتے، حضرت صالح ؑ تجارت کرتے، حضرت ابراہیم ؑ کھیتی باڑی کرتے، حضرت شعیبؑ و موسیٰؑ بکریوں کی نگہبانی کرتے اور حضرت داؤدؑ  زرہ بنا تے تھے جبکہ  حضرت سلیمانؑ بادشاہ تھے، ہمارے نبیؑ مقام اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی فرماتے تھے ۔

غرض؛اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے ہیں ؛یہی وجہ ہے کہ بے وجہ  بھیک مانگنےاوربلاعذر دست سوال درازکرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا؛بل کہ اس طرح  کرنےوالوں کو دردناک وعید سے آگاہ بھی کیا گیا ۔

کسب حلال کی اہمیت :

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ رزقِ حلال کمانے اوراللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔

 جیساکہ ارشادربانی ہے ۔” جب نماز سے فارغ ہو جائو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو” (سورہ جمعہ)۔

اس آیت مبارکہ میں حلال رزق کمانے کو فضلِ الٰہی سے تعبیر کیاگیا اور بھی متعددمقامات پر حلال کمانے اور حلال کھانے کی تاکید کی گئی نیزانتہائی سختی کےساتھ رزقِ حرام سے منع بھی کیاگیا؛ کیوں کہ جو چیزیں حرام اور ناپاک ہیں ، وہ انسانی اخلاق پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں اور جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے انسان کے لیے مضر ہیں ،ارشاد ربانی ہے : ’’اے اہل ایمان! آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ۔‘‘ (النساء)

احادیث میں بھی حلال رزق کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہو گا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لئے زادِ راہ ثابت ہو گا۔

”ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی نے نبی کریم ﷺسے کچھ سوال کیا۔ آپ ﷺنے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے جواب دیا کہ صرف کمبل اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس کو کون خریدے گا۔ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔ آپ نے فرمایاکہ ان کی اس سے زیادہ کوئی قیمت دے سکتا ہے؟ ایک اور صحابی نے کہا کہ میں اس کو دو درہم میں خریدتا ہوں ۔ آپ  نے یہ اشیاء اس صحابی کے حوالہ کیں اور دو درہم صحابی کو دے کر کہا کہ ایک درہم کی کلہاڑی اور ایک درہم کا گھر کے لیے سامان لے آؤ۔ انہوں نے ارشاد نبوی  کی تعمیل کی۔ نبی کریم ۖ نے اس کلہاڑی میں دستہ لگا کر ان کو دیا اور فرمایا جائو اس سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، اب پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا، وہ صحابی جب پندرہ دن کے دن حاضر ہوئے توآپۖ نے پوچھا کیا حال ہے؟ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے دس درہم کما لیے ہیں ، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم سے غلہ خریدا ہے۔اس موقع پر آپ ۖ نے فرمایا کہ کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اْٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے؟

ایک صحابی کے ہاتھ محنت مزدوری کرنے سے سوج گئے۔ جب نبی کریم ﷺنے دیکھا تو فرمایا ” کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے ہیں ۔

نبی کریمﷺ نے ایک اور جگہ پر ہاتھ سے کمانے والے آدمی کے متعلق یوں فرمایا: ”اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔ ”ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ ﷺنے فرمایا اپنی محنت کی کمائی!

مزدوروں کے حقوق:

مزدورکو سب سے پہلے اسی دین نے  وسیع اور جامع ترین حقوق فراہم کئےاور ہرقسم کے ظالمانہ سلوک سے باز رہنےکاحکم دیا ۔

مزدور کے حقو ق کا اندازہ نبی مکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔

آج مغرب میں مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت آواز بلند کی جاتی ہے؛ جبکہ اسلام نے آج سے 1400پہلے ہی مزدور کے حقوق متعین فرمادئے تھے۔

نبی کریم ﷺکے آخری خطبہ حجة الوداع کو انسانی حقوق کا منشور کہا جاسکتا ہے، اس موقع پر نبی مکرم ﷺنے فرمایا ”اپنے غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو”۔

نبی رحمت حضرت محمد کی سیرت مقدسہ سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کا پتہ چلتا ہے۔

نبی رحمت حضرت محمد ﷺنے ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہوں ۔

اسی طرح شریعت مطہرہ کی رو سے مستاجر کو یہ حق ہےکہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود  چند باتیں اُصولی طور پر طےہے؛ جن کی پابندی دونوں کو لازم ہے۔

(1)  ان کو کم از کم اتنی اُجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں ۔ ضروریات زندگی کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

(2)  ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔

(3)  مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہو گی۔

(4)  مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے  قصداً کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجرکو یہ حق ہو گا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر  سکے تو یہ حکومت کا فرض ہو گا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔

(5)  اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہو گی۔

 (6)  اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اُجرت میں کمی کر دینے کا حق ہو گا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علیحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علیحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بددلی کی وجہ سے ہو۔

(7)  محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بناء پر مزدور کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے۔  (اسلامی قانون محنت ص46۔ 47)

درحقیقت اسلام نے ان زریں تعلیمات کےذریعہ اپنے پیروکاروں میں ایسی سوچ پیدا کر دی تھی کہ جس سے ہر شخص محنت مزدوری میں فخراور بھیک مانگنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام کسی دوسرے پر اپنا معاشی بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حلال رزق کمانے کیلئے ہر قسم کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے اور محنت و مشقت کرنے سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رزق کمانے کیلئے مختلف پیشوں کو اختیار کیا، حضرت ابوبکر صدیق کپڑے کے تاجر تھے،وہ خلیفہ بننے کے بعد  کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے ، راستہ میں حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ ملے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر کو کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں ، آپ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں ؟ حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں اگر کپڑا نہیں بیچوں گا تو اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلائوں گا۔ پھر ان کیلئے تنخواہ مقرر کر دی گئی۔دیگر صحابہ کرام بھی محنت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

چنانچہ حضرت خباب بن ارت لوہار تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص تیر سازتھے ،حضرت زبیر بن عوام درزی تھے، حضر ت سلمان فارسی حجام تھے، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔ ازدواج مطہرات اور صحابیات بھی محنت کرنےسے گھبراتی نہیں تھیں ۔ وہ گھروں میں اون کاتتی اور کھالوں کو دباغت دیتی تھیں ۔حضرت اسماء بنت ابی بکر جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں ،کچھ خواتین کھانا پکا کر اورکچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں ۔ کچھ صحابیات دایہ کا کام کرتی تھیں ۔ حضرت عائشہ نے حضرت زینب بنت حجش (زوجہ رسولﷺ) کے بارے میں فرمایاکہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اورا للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں ۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے مال کمانے سے روکتا نہیں بلکہ ان کو ترغیب اور عزت و احترام دیتا ہے ۔ چنانچہ محنت و مزدوری سے حلال رزق کمانے اور جائز پیشہ اختیار کرنے کو بہت بڑی عبادت کہا گیا ہے۔ انبیاء، صحابہ ، صلحاء سب نے محنت مزدوری کر کے ہی ضروریات زندگی حاصل کیں ۔ ہمیں بھی ایک مسلمان ہونے کے ناطے محنت مزدوری کر کے حلال رزق کمانا چاہئے۔

مئی ڈے کا پس منظر:

یکم مئی:مزدوروں کےتئیں انسانی حقوق کے تجدید عہد،استحصالی قوتوں کی ستم کاریوں کے خاتمہ اور منصفانہ نظام کےقیام واستحکام کے لیےایک طویل جدوجہدکانام ہے ۔

یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منانے کا آغاز اس وقت ہوا جب مغربی دنیا میں مزدوروں کے حوالے سے شعور پیدا ہوا۔

واضح رہے کہ  یہ دن 1886ء میں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کے دوران گولیوں کا نشانہ بننے والے محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں اور مختلف اداروں و ٹریڈ یونیوں کے زیراہتمام ریلیوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں محنت کشوں کو درپیش مسائل، انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ اور مزدور دشمن قوانین کیخلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ یکم مئی کا دن مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہوئے دنیا کو131سال ہوگئے ہیں ؛لیکن آج بھی مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال انتہائی مایوس کن منظرنامہ پیش کرتی نظرآتی ہے ؛جس کاازالہ کرنے کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے۔

خداکرے کہ زمینی سطح پر بھی اس کے کچھ فوائد محنت کش مزدوروں کے مقدر میں آئے اورانہیں بھی بہ حیثیت انسان،انسانی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملے ۔

تبصرے بند ہیں۔