اس قیادت سے امت کو بچا میرے مولا!

قریب ایک دو برس پہلے کی بات ہے جب جمیعت علماء ہند کے اہم ذمہ دار،مولانا ارشد مدنی نے سعودی تانا شاہوں  کی وفاداری کے قصیدے پڑھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں  کو بھی سعودی وفاداری کے گن گانے کی بات کی تھی۔ انہیں  اسلام کا صحیح ترجمان بتانے کے ساتھ اس ترجمانی کی نشر و اشاعت کے واحد مبلغ، داعی اور علم بردار قرار دیا۔ یہ معاملہ کسی پردہ خفاء میں  نہیں  تھا۔اس بات کا باقاعدہ اعلان ہوا تھا۔ بلکہ اشتہار کے ذریعہ باقی مسلمانوں  تک اس پیغام کو پہنچایا گیاتھا۔ ان دنوں  دار العلوم ندوہ کے اہم رکن اور ذمہ دار مولانا سلمان ندوی کی سعودی شاہوں  سے کچھ زیادہ نہیں  بن رہی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں  کے جد مولانا ابو الحسن علی ندوی کو کعبہ شریف کی کنجیاں  حاصل تھیں۔  خود مولانا موصوف کے سعودی فرماں  رواؤں  اور شیوخ کے ساتھ بڑے مضبوط اور گہرے مراسم تھے۔ ایک عرصہ تک دوستی کا سفر جاری رہا۔ وہیں  سے تعلیم و تربیت بھی پائی۔ سعودی وفادار خطیب و امام مولانا معراج ربانی کے مطابق سعودی کے مذہبی و سیاسی(آل سعود، آل شیخ) حکمرانوں  نے مولانا موصوف پر کافی سرمایا کاری کی تھی۔ لیکن سعودی کے قطر سے بگڑتے رشتے کی وجہ سے اچانک مولانا سلمان ندوی نے گھر بدل لیا۔ گھر بدلتے ہی انہوں  نے سعودی دشمنی کا اظہار ببانگ دہل کیا۔ لکھنؤ، ممبئی، بنگلور سمیت کئی شہروں  میں  سلفی / اہل حدیث / اخوان المسلمین کی قصیدہ خوانی میں  پروگرام کئے اور سعودی کو مسلمانوں  کا دشمن، اسلام کا باغی، ظالم، ڈاکو اور رہزن جیسے اوصاف سے نوازا۔ کہتے ہیں  گھر کا آدمی جب دشمن ہو جائے تو پردے ہٹنے میں  دیر نہیں  لگتی ہے۔ جیسے ابھی حال ہی میں  ٹی وی کے نائک ڈاکٹر ذاکر نائک کے ساتھ ہوا تھا۔ انہیں  کے ساتھ کام کرنے والوں  نے ان پر سنگین الزامات لگائے۔ کئی راز کھولے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آرگنائزیشن پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مولانا سلمان ندوی کے سعودی انکشافات کا سلسلہ صرف سعودی حاکموں  اور عالموں  تک محدود نہ رہا۔ انہوں  نے ہندوستان میں  سعودی وفاداروں  کو بھی آڑے ہاتھوں  لیتے ہوئے مولانا ارشد مدنی اور ان کے سعودی وفاداری کے اشتہار پر جم کر تنقید و تنقیص کی۔ سعودی ظلم و جبر کو لے کر بیسوں  سوالات قائم کر دئے۔ سعودی فکر کی حمایت کرنے والوں  کو بھی سوالوں  کے گھیرے میں  لاکر کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد دارالعلوم دیو بند اور دار العلوم ندوہ کے درمیان کی کڑواہٹ اپنا رنگ لینے لگی۔ قطر اور سعودی کے لئے ہندستان میں  لڑی جانے والی فکری و لفظی جنگ نے مذہب کے مہذب حدود کی پرواہ کئے بغیر باغیانہ اور جابرانہ طور پر ایک دوسرے کو دعوت مباہلہ دے ڈالی۔ اس دعوت مباہلہ کو بھی کئی مختلف ناموں  سے یاد کیا گیا۔ پھر اس مباہلے کی دعوت کو مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ایمان اور غیرت ایمانی کا نام لینے والے اور اس کی دہائی دینے والوں  نے اسلامی غیرت کو نام و نمود کی خاطر چند ٹکڑوں  میں  بیچ دیا۔ امت اور مذہب کے وقار اور اس کی پاسداری کاایک تماشا بنا کے رکھ دیا گیا۔ جس نیامت مسلمہ کو جگ ہنسانی کا موقعہ فراہم کیا۔ آخر کار چند دنوں  بعد روزنامہ خبریں  میں  ایک صحافی نے دونوں  ہی کے نام ایک کھلا خط لکھا اور دین و شریعت کو ذاتی مفاد کے چکر میں  بدنام نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

تاریخ کا یہ پس منظر دیکھنے کے بعد ابھی تبلیغی جماعت کے مرکزی مرکز،جو دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء میں  واقع ہے، اس کے ایک ذمہ دار امیر مولانا سعد کاندھلوی نے اپنے مرکز کو مکہ و مدینہ کے بعد سب سے محترم اور قابل تعظیم قرار دیا۔ یہاں  یہ واضح رہے کہ اسی جماعت کا نظریہ ہے کہ مکہ و مدینہ کے علاوہ دنیا میں  کوئی اور چیز شریف نہیں ،محترم، مکرم، قابل تعظیم و توقیر نہیں۔  ان کے مقابل صوفیوں  کی جماعت نے ہر اس جگہ کو شریف اور مبارک سمجھا جہاں  رب کریم کی نشانیاں  موجود ہوں  یا اس کے محبوب سے منسوب ہوں۔  یہ اور بات ہے کہ ان سب میں  اولیت اور افضلیت انھیں  دونوں  مقام کو حاصل ہے۔ مولانا سعد کاندھلوی کے اس بیان پر دار العلوم دیو بند کا ایک فتویٰ صادر ہوا جس میں  ایسا بیان دینے والے کو گمراہ اور بیان کو گمراہ کن کہا گیا۔ اب تبلیغی جماعت اور دیو بند کے درمیان پھر سے نورا کشتی شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے ایک مہینے سے لفظی جنگ جاری ہے۔ یہ معاملہ طنز و مزاح کا موضوع بنا ہوا ہے۔جس نے ایک بار پھر اسلامی وقار اور اس کی عظمتوں  کو سڑک چھاپ بحث و مباحثہ کے ذریعہ بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں  ہے جب دیو بند کا کوئی فتویٰ تنازعہ کا شکار نہ ہوا ہو۔ تنازع خیز فتوے دہائیوں  سے صادر ہو رہے ہیں۔  اس سے پہلے کئی فتوے ایسے آئے ہیں  جس سے داخلی انتشار و اختلاف کو ہوا ملی ہے اور فکری کشیدگی بڑھی ہے۔ عید میلاد النبی کو لیکر بھی دار العلوم دیو بند کا فتویٰ کئی دنوں  تک میڈیا کے کیمرے اور اخباروں  کی سرخیوں  میں  گھومتا رہا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے عید میلاد النبی کے حوالے سے سوال پوچھا تھا تو دار العلوم دیوبند کی جانب سے عید میلاد النبی کی حرمت اور عدم جواز میں  فتویٰ دیا گیا۔ اس کے بعد اس کے رد میں  آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدر جو اس وقت یعنی 2012؍میں جنرل سیکریٹری تھے، سید محمد اشرف کچھوچھوی نے اس فتویٰ کا جواب دیا۔ کئی دنوں  تک یہ معاملہ اخباروں  کے ذریعہ سرگرم اور موضوع بحث بنا رہا۔ اس کے بعد دیو بند خاموش ہو گیا اور بورڈ نے بھی سکوت اختیار کر لیا۔ اسی دوران ایک اور فتویٰ نے لوگوں  کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی جب باڈی اسکین کے خلاف دیو بند کا فتویٰ آیا تھا۔ اس وقت بھی بورڈ نے دیو بند کے فتوے پر اعتراض کیا تھا۔ معاملہ کچھ دن بحث و مباحثہ کے بعد خاموشی پر ختم ہوا۔ اسی طرح کے گائے کی قربانی، مولد نبوی کے موقعہ پر جلوس نکالنے، درگاہوں  پر جانے وغیرہ معاملات میں  ان فتووں  نے امت کے درمیان کی دوری کو بڑھنے ہی کا کام کیا ہے۔

مولانا سعد کاندھلوی کے معاملے میں  بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ فتویٰ بازی کے بعد اخباری بیان بازی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دیو بند کی جانب سے دئے گئے فتوے کو جہاں  ایک طرف مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے وہیں  دوسری طرف خود تبلیغی جماعت کی طرف سے حمایت بھی ملی ہے۔ چند دنوں  بعد بنگلہ دیش میں  ہونے والے تبلیغی اجتماع میں  مولانا سعد کو مدعو نہیں  کیا گیا، الجامعہ اہلہ دار العلوم معین الاسلام کے رئیس اعلی اور حفاظت اسلام بنگلہ دیش کے سربراہ مفتی شاہ احمد شفیع  نے کہا کہ جب تک مولوی سعد اپنے بیان سے ہٹ نہیں  جاتے انہیں  بنگلہ دیش آنے کی اجازت نہیں  اور ان پر عائد پابندی بھی نہیں  ہٹے گی۔ دار العلوم دیو بند کا فیصلہ درست ہے۔ یہ ادارہ اور تنظیم دیوبند کے فتوے اور فیصلے کے ساتھ ہے۔

ادھر دوسری طرف حال ہی میں  یو پی کے سنبھل میں  ابھی ایک بڑا اور عظیم تبلیغی اجتماع ہوا۔ جس میں  مولانا سعد کاندھلوی نے ایک بار پھر سے اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے اپنے موقف کا دوبارہ اظہار کیا۔ اس اجتماع میں  دار العلوم دیوبند کے کئی علماء اور مفتیان کرام نے شرکت کی۔ ان میں  دو ایسے مفتیوں ، مفتی محمود بلند شہری اور مفتی سلمان کی شرکت درج کی گئی جن کے دستخط مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف دئے گئے فتوے میں  موجود ہیں۔  تنظیم مساجد اور ائمہ کے صدر مفتی وجاہت قاسمی نے دیوبندکا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں  ہی مفتیوں  کو دار العلوم کی جانب سے ہرگز نہیں  بھیجا گیا تھا۔ انہوں  نے تو ان دونوں  مفتیوں  کو خوب بھلے برے لفظوں  سے یاد کیا اور آخر میں  کہا کہ دار العلوم کے ذمہ دار سے بات ہو گئی ہے انہوں  نے ان دونوں  مفتیوں  سے باز پرس اور سرزنش کی یقین دہانی کرائی ہے۔۔مفتی وجاہت قاسمی نے دار العلوم کی حمایت میں  بولنے والے دیگر مفتیوں  کی تعریف کی اور تبلیغی جماعت کو باطل فرقہ قرار دیتے ہوئے دارالعلوم سے امید ظاہر کی ہے کہ ادارہ جلد ہی کوئی سخت اقدام عمل میں  لائے گا۔ انہوں  نے دونوں  مفتیوں  کی شرکت کو دار العلوم سے غداری قرار دیتے ہوئے انھیں  اہل علم و شعور کی فہرست سے خارج کر دیا۔

اس داخلی انتشار کا شکار امت، کس تعمیر اور ترقی کا خواب دیکھے اور اسے کس طرح شرمندہ تعبیر کرے؟ یہ حال ایک مکتب فکر کاہے۔ اس کی یہ صورت محض ایک جھلک ہے۔ حالات اس سے بد تر ہیں۔  کم و بیش یہی صورت حال دوسرے مکاتب فکر کابھی ہے۔ اس امت کے زوال اور رسوائی میں  اہم رول اور کردار اسی داخلی شیرازہ بندی کا ہے۔ اپنے اپنے دامن کے داغ کو چھپانے اور اس کی پردہ پوشی کیلئے اتحاد کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ عام امت مسلمہ کی سادہ لوحی کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس پر بھی احساس تفاخر یہ ہوتا ہے کہ ہم ہی قوم کے قائد و رہنما ہیں۔  اب بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ مولا! ایسی قیادت و رہنمائی سے امت مسلمہ کو محفوظ و مامون رکھ اور انہیں  ہدایت نصیب فرما! آمین یا رب العا لمین بوصیلت حبیبک رحمت للعالمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔