افکار وصفی

عبد الرحمن  خاں وصفی  بہرائچی شہرو ضلع   بہرائچ کے  مشہور استاد شاعر تھے ۔ آپ کے دادا ضامن  علی خا ں  انیقؔ بہرائچی  میر انیس کے ہم عصر شاعر تھے اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ وصفی صاحب کے بھائی ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالی بھی ضلع بہرائچ کے  مشہور  ماہر لسانیات  ہونے کے ساتھ ساتھ  تین درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف  تھے۔ وصفی صاحب  کا  ضلع بہرائچ کے تمام ادیبوں اور شاعروں سے گہرا تعلق تھا ۔ آپ  حاجی شفیع اللہ شفیع   بہرائچی کے گہرے دوست تھے اور روز شام کو شفیع صاحب  کی دوکان سنگم ہوٹل  پر آتے تھے, جو ہر شام کو ادبی محفل کا مقام تھا جہاں بیٹھ کر وصفی صاحب ، ساغر مہدی ،اظہار وارثی، عبرت بہرائچی  اپنے کلام کو ایک دوسرے سے ساجھا کرتے تھے۔ وصفی صاحب  کا  رافعت بہرائچی، شوق بہرائچی،بابو لاڈلی پرشاد  حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال، حکیم اظہر وارثی، واصف القادری نانپاروی، ایمنؔ چغتائی نانپاروی ،محسن زیدی،سید ساغر مہدی ، اظہار   وارثی،عبرت  بہرائچی ،والی آثی لکھنوئی فنا  نانپاروی،اثر بہرائچی،شاعر جمالی وغیرہ سے  گہرا تعلق تھا ۔

شاگرد

وصفی صاحب  کے شاگروں میں حاجی  لطیف بہرائچی ،اطہر رحمانی اور فیض بہرائچی کا نام قابل ذکر ہے ۔

تصنیف

وصفی بہرائچی کا صرف ایک مجموعہ کلام افکار وصفی  نام سے اگست 1986ء میں  فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ  اتر پردیش  کے مالی تعاون سے شائع ہوا تھا ۔جو آپ کی غزلوں کا مجموعہ  تھا ۔

وفات

وصفی بہرائچی کا انتقال 13/اپریل1999ء میں  شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں واقع مکان میں ہوا تھا اور تدفین شہر کے مشہور قبرستان عیدگاہ میں ہوئی تھی ۔جس میں عوام  کے علاوہ شاعروں اور ادیبوں نے بھی شرکت کی تھی۔

نمونہ کلام

قدرت کے کرشمے ہیں یہ ہیں وقت کے حالات

 سورج کو اب آئینہ دکھانے لگے ذرات

یہ چاند یہ سورج  یہ  نجوم  ارض  و سماوات

ہیں  خلق  مگر  خالق اکبر کی  ہیں  آیات

بے واسطہ  الفت میں جب آتے ہیں پیامات

ہوتے  ہیں بہت سخت وہی  عسق  لمحات

بے  سعی  عمل  ہیچ  ہے  ہر  فکر  و  تدبر

  بے  معنی  و  مفہو م  غلط  حرف  و حکایات

وہ  اور ہیں  حالات  بدل دیتے ہیں جن کو

ہم صاحب  ہمت  ہیں  بدل دیتے  ہیں حالات

آگیا لے سیلاب کرم

  دیدئہ گریں ا ب تو  تھم

ڈھونڈلے ان کے نقشِ قدم

  تیرے  قدم پر جاہ  و حشم

کون کرے گا طے پیہم

 راہِ طلب کے پیچ وخم

بھیگی پلکیں آنکھیں نم

 اَ تو برس اے ابر کرم

چھیڑ دے ساز عیش و طرب

  اٹھ نہ سکے جب بار الم

دیکھ کبھی دامن اپنا

 دیکھنے والے بیش و کم

کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو

دل صاف کرو اتنا کہ آیئنہ بنا دو

تعمیر گلستاں کے لئے کیا ہے ضروری

 بھولے ہیں جو یہ بات انھیں یاد دلا  دو

معلوم ہوں سب ایک ہی کنبے ہیں  افراد

یوں شمع مساوات  واخوت کی جلا دو

اب دور نہیں آپ  سے کچھ آپ کی منزل

منزل کی طرف ایک اور بڑھا دو

یوں  مل کے رہو اہل چمن صحن چمن میں

 دشمن کے لئے آہنی  دیوار بنا دو

یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے

فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو

وصفیؔہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی

اس خاک کے ہر  ذرے کو گلزار بنا دو

شفیع بہرائچی کے  بڑے بھائی قادر میاں   کے انتقال پر لکھے اشعار

جانتے تھے کہ ایک  روز زیر زمیں

ہم کو رہنا ہے تاریک ماحول میں

جاکے حرمین  سے اپنے قادر میاں

 شمع لے آیے  تھے روشنی کے لئے

زندگی ہے تو کچھ کام کی بات ہو

  دین  ودنیا میں آرام کی بات ہو

موت کی بات مجھ سے اگر پوچھیئے

  درس عبرت  ہے  ہر آدمی کے لئے۔

حوالہ جات

افکار وصفی مطبوعہ 1986ء

  نغمعہ  دل و مضراب  نشاط  از حاجی  لطیف  بہرائچی مطبوعہ 1984ء

روزنامہ ہندستان  بہرائچ میں شائع مضمون 2014ء

احساسات فیض مطبوعہ 2015ء

تبصرے بند ہیں۔