تلاوتِ قرآن اور اسوہ صحابہؓ (2)

ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہیں  گئی ہوئی تھیں ۔ انھیں  گھر واپس آنے میں  کچھ تاخیر ہوگئی۔ آں  حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا: آپ کے اصحاب میں  سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں  نے ایسی قرأت کبھی نہیں  سنی۔ آپؐ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ تھے۔ اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ۔

’اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں  تم جیسے لوگ موجود ہیں ‘۔ (ابن حجر عشقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،1/68)

ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمن بن سائبؓ کی قرأت قرآن کریم سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا: ’تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن، 1337)

قرآن کریم نے سابقہ قوموں  کے بعض اصحاب علم کاتذکرہ تحسین و توصیف کے انداز میں  کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں  تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے:

وَیَخِرُّوْنَ لِلاذَقَانِ یَبکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعً۔(الاسراء:109)

’اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گرجاتے ہیں  اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے۔‘

احادیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں  کہ ایک رات آپؐ نمازکے لیے کھڑے ہوئے۔ جب سورۂ مائدہ کی اس آیت پر پہنچے:

 إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ  (المائدہ:118)

’’اب اگر آپ انھیں  سزا دیں  تو وہ آپ کے بندے ہیں  اور اگر معاف کردیں  تو آپ غالب اور دانا ہیں ‘

تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے، یہاں  تک کہ صبح ہوگئی۔ (سنن نسائی:1010، سنن ابن ماجہ:135۰)

یہی حال تمام صحابۂ کرام کابھی تھا۔ وہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے تو خود ان پر بھی بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ قرآن  کریم کی کسی آیت سے ان پر خاصا تاثر ہوتاتھا تو اسی کو بار بار دہراتے تھے۔ اس کامضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اس سے اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے اور شدّت گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کچھ لوگ یمن سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے انھوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاَ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔

حضرت عمربن الخطابؓ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں  سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں  اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے، یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں  ہے کہ وہ اتنے زور زور سے رونے لگے تھے کہ پیچھے مقتدی ان کے رونے کی آواز سنتے تھے۔

حضرت عباد بن حمزہؓ بیان کرتے ہیں  کہ میں  حضرت اسماءؓ کی خدمت میں  حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں ۔ جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں :

فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ  (الطور:27)

’آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں  جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔‘

تو اس پر ٹھہرٹھہر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں  اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں ۔ میں  نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں  ہیں  تو میں  وہاں  سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں  اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں  پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں  اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں  اور اللہ سے دعا کررہی ہیں ۔

حضرت تمیم داریؓ ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:

 أًمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أّن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ (الجاثیہ:21)

’کیا وہ لوگ جنھوں نے بُرائیوں  کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ ہم انھیں  اور ایمان لانے والوں  اور نیک عمل کرنے والوں  کو ایک جیسا کردیں گے۔‘

تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے، یہاں  تک کہ صبح ہوگئی۔

حضرت ابورجاءؒ بیان کرتے ہیں  کہ حضرت ابن عباسؓ کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔(نووی، التبیان، ص:67-69)

صحابۂ کرام اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں  گزارتے تھے۔ وہ دن میں  بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں  بھی۔ وہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں  مصروف رہتے تھے اور مسجد میں  بھی۔ (بخاری: 5011، 5018، 5037، 5038) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؓ نے فرمایا: اِقْرَأُفَکُلٌّ حَسَنٌ ویَحَیٰ اَقَوَامٔ یُقِیْمُوْنَہ‘ کَمَایُقَامُ القِدْحُ، یَتَعجَّلُوْنَہ‘ وَلَایَتَاَجَّلُوْنَہ‘۔ ’پڑھے جائو، سب کاطرزاچھاہے۔ کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیر کی طرح سیدھا کریں گے، لیکن ان کامقصد دنیاہوگی آخرت نہ ہوگی۔‘

(سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب مایجزیٔ الأمی والأعجمی من القرأۃ، 830)

ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ

’اللہ کاشکر ہے۔ اس کی کتاب ایک ہے، لیکن تم میں  سرخ، سفید اور سیاہ قسم کے لوگے ہیں ۔‘ (سنن ابی دائود، حوالہ بالا، 831)

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے مسجد میں  لوگوں  کی قرآن پڑھنے کی گونج سنی تو فرمایا:

’یہ لوگ قابل مبارک مبادہیں ۔ ایسے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے۔‘ (نووی، التبیان، ص:84)

سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں  بھی صحابہ کے اس شوق میں  کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں  ہے کہ جس وقت بلوائیوں  نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھر پر حملہ کیا، وہ قرآن مجید کی تلاوت میں  مصروف تھے اور اسی حالت میں  ان کی شہادت ہوئی تھی۔ (ابن عبدالبر، الاستیصاب فی معرفۃ الاصحابہ تذکرہ عثمان بن عفان، 3/78)

تلاوت قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کہا: ’فلاں  شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتاہے۔‘ انھوں نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ (وہ دل کااندھا ہے)(النووی، التبیان، ص:77)

قرآن کی تلاوت کرتے وقت پوری سنجیدگی، انہماک، توجہ اور وقار کو ملحوظ رکھناچاہیے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا، کوئی دوسرا کام کرنے لگنا، کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں  نہیں  ہے۔ اس سے غیردل چسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے تعلق سے مناسب رویّہ نہیں  ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں  آتاہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، 4526)

قرآن کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات میں  سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سنائو۔ انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا: آپ کو قرآن سنائوں ، جب کہ وہ تو آپ ہی پر اترا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں  میں  اسے دوسرے سے سننا چاہتاہوں ۔  حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں : میں  نے سورۂ نساء ابتداء سے پڑھنی شروع کی، یہاں  تک کہ جب میں  آیت نمبر 41 پر پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: رک جائو۔ وہ آیت یہ ہے:

فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَـؤُلاء  شَہِیْداً ۔(النساء:41)

’پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریں گے جب ہم ہر امت میں  سے ایک گواہ لائیں  گے اور ان لوگوں  پر تمھیں  (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔‘

میں  آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپ کی آنکھوں  سے زارو قطار آنسو جاری ہیں ۔

(بخاری:4582 و دیگر مقامات، مسلم:800، ابودائود:3448، ترمذی:3024، 3025)

اوپرگزراکہ حضرت عمرؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایش کرکے قرآن سناکرتے تھے۔ آج کے دور میں  قرأت قرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ  کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قرأکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل، سی پی پلیر اور دوسرےآلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔