الہ آباد سے پریاگ راج تک

غلام مصطفی عدیل قاسمی

ہندوستان کے چند نام نہاد اور بکاؤ صحافی یہ غلط الزام دھرتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے یہاں کی تہذیب و تمدن کو مسخ کیا ہے اور یہاں کے شہروں کو اسلامی نام سے موسوم کر دیا ہے، یہ سراسر مبنی بر جہالت اور مبنی بر سیاست ہے، ان دلالوں کو پتہ ہونا چاہیئے کہ خسرو اور اکبر الہ آبادی کی جائے پیدائش کا نام  قدیم زمانے سے الہ آباد اور پریاگ ہر دو استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے، انہیں یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیئے کہ اسلام نے اپنی تہذیب کو لیکر کبھی تسلط والا معاملہ نہیں اپنایا ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے ماننے والوں نے  کبھی کسی اور کی تہذیب کے غلبہ کو اپنے اوپر مسلط بھی نہیں ہونے دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان راجاؤں نے گنگا کے کنارے پر بسے شہر کو جہاں الہ آباد کا نام دیا، وہیں اس کے دوسرے نام پریاگ کو بھی علی حالہ باقی رہنے دیا، کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے حسن معاشرت کے سارے اصول و قواعد کو  بحسن و خوبی متعارف کروایا ہے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلام نے مدینہ میں آکر جہاں شہر یثرب کو مدینة الرسول سے موسوم کیا، وہیں اسکے قدیم نام یثرب کو بھی باقی رکھا، اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے نام لیوا نے دنیا کے جس گوشہ و قریہ میں بھی قدم رکھا وہاں کی تہذیب اور تمدن کو بعینہ رہنے دیا اور اپنی تہذیب و روایات کو بھی متعارف کروایا؛ اس لئے یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے پریاگ کا نام بدل کر ہی الہ آباد رکھ دیا تھا، در اصل ہندوستان میں جب سے بھاجپائی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ملک سے بدحالی و بے روزگاری ختم کرنے کے بجائے یہاں کی تاریخی روایات اور تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کے جتن کر رہی ہے، شہر و قصبات کی تقدیر بدلنے کے بجائے ان کے نام بدلنے اور تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کا کام کر رہی ہے.

سوال یہ ہے کہ بھلا کسی شہر و اسٹیشن کا نام بدلنے سے ملک کی ترقی کیسے ہو جائے گی؟ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کیسے ہو جائے گا؟صرف نام بدلنے سے ترقی ہرگز نہیں ہوسکتی ۔۔! در اصل بات یہ ہے کہ جو کمیونٹی شروع ہی سے دوسروں کی جائداد کو ہڑپنے کی عادی ہو اس سے ہم خیر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔! مناسب سمجھتا ہوں کہ تاملناڈ کے انقلابی لیڈر آنجہانی کروناندھی کی موت پر لکھے گئے اپنے سابقہ مضمون کے چند اقتباسات ذکر کردوں؛ تاکہ برہمن واد کی موجودہ حکومت کی دوغلی پالیسی کی  قلعی کھل جائے کہ یہ لوگ کون ہیں اور چاہتے کیا ہیں۔۔، ہندوستان کے افق پر ایک کامیاب سیاستداں بن کر ابھرنے والے کروناندھی اک انقلابی رائٹر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں، انھوں نے اپنی قوم کے مفاد کے لیے طویل تحریک چھیڑی تھی اور آخری دم تک اپنے دراوڑی قبیلہ کے لیے لڑتے رہے، اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ دراوڑی قبیلہ وہی نسل ہے جن پر برہمن وادیوں نے  2500 قبل مسیح  ظلم و بربریت اور خون کی ہولی کھیل کر انہیں انکی زمین و جائداد سے بے دخل کر دیا تھا اور انہیں کھدیڑ کر ہندوستان کے جنوب میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا، درحقیقت انہی حادثات و واقعات نے کروناندھی کو زندگی بھر بے چین کیے رکھا اور برہمنوں سے پنگا لینے پر انہیں اکساتے رہے؛ چنانچہ اسی بات کی چنتا کو لیکر وہ پچاس کی دہائی میں برہمنوں کے دوسرے ذاتی کی عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے منافقانہ روش کو اپنی فلم پاساشکتی میں آشکارا کیا تھا، جس پر غاصب برہمن واد نے کڑی نندا جتائی تھی، جس کی بنا پر پہلے پہل اس فلم پر پابندی لگا دی گئی؛ لیکن جب 1952 میں وہ فلم ریلیز ہوئی تو ایسی ہٹ ہوئی کہ کروناندھی کو دراوڑی قبیلے کا مہان لیڈر بنا گئی، انھوں مزید دو چار فلمیں بنائیں جن میں لٹیرے برہمن واد کے ظلم و زیادتی کو دکھایا، ان کے چھوت چھات سے نفرت جتائی اور مورتی پوجا وغیرہ پر سخت تنقید کی تھی، غرضیکہ انہوں نے جس لائن میں بھی کام کیا ان کے پیش نظر صرف اور صرف اپنی قوم کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا تھا، فلم انڈسٹری سے لیکر سیاست کے گلیاروں تک ان کی یہی کوشش رہی کہ ملک کو برہمن واد کے زہریلے ناگ سے چھٹکارا دلایا جائے اور انکی دوغلی پالیسی کو طشت از بام کیا جائے، وہ اپنی تہذیبی شناخت کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہا کرتے تھے، چنانچہ ان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آیا کہ اپنے دراوڑی تہذیب و تمدن کی بحالی کے لئے انہیں ریل روکو آندولن کرنا پڑا جس میں مزاحمت کرتے ہوئے کئی جانیں بھی قربان ہوئیں تھیں؛ لیکن کروناندھی اور انکی تحریک سے وابستہ افراد اپنی مانگ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، وجہ یہ بنی تھی کہ اس وقت کی حکومت نے کللاکوڈی ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر ڈالمیا پورم رکھ دیا تھا جس پر ساری دراوڑی قوم سڑکوں پر اتر آئی تھی.

خیر! یہ تو تھی اک غیر مسلم لیڈر کی کہانی جنہوں نے صرف چودہ سال کی عمر سے اپنی قوم کے لئے بیش بہا کارنامہ انجام دینے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی تھی، نہ کبھی مصلحت کے دبیز پردے نے انہیں انکے مشن سے روکا، نہ کبھی گنگا جمنی کلچر کی بحالی  ان کے آڑے آئی اور نہ ہی کبھی حالات کا رونا رویا؛ بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی ہر بات منوائی ، جس نے کللاکوڈی ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر ڈالمیا پورم رکھنے کے خلاف اپنے کارندوں کو لیکر ریلوے پٹری پر سونا تو گوارا کیا؛ لیکن خاموش رہنا بالکل بھی پسند نہیں کیا، کروناندھی نے ہر زاویے سے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہندوستان کے اصل باشندے ہم ہیں، یہ دھرتی ہماری تھی ہماری ہے اور ہماری ہی رہے گی اور ہندوتو کے متوالے غنڈے اور موالی ہی درحقیقت غاصب ہیں ظالم و جابر اور غیرملکی ہیں.

اور ایک ہم مسلمان اور ہمارے قائدین ہیں جنہوں نے حالات کا رونا رو رو کر ایسی درگت بنوالی ہے کہ نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن ، ہم اصل ہندوستانی ہو کر بھی و دیشی ٹھہرے اور برہمن و دیشی غیر ملکی ہو کر بھی بھارتی کہلائے…. آخر ہمارے پاس بھی تو لیڈران تھے اور آج بھی ہیں؛ لیکن انھوں نے مسلم قوم کے لئے آخر کیا کیا؟ میں موجودہ مسلم لیڈران سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کروناندھی جیسے لیڈران کی طرح کتنی قربانیاں دی ہیں؟….. کتنی بار کال کوٹھری کے چکر لگائے ہیں؟…. آئے دن ہماری تاریخی عمارتوں و ریلوے اسٹیشنوں کا نام بدل کر بھگوائی نام دیا جا رہا ہے، چند مہینے قبل مغل سرائے اسٹیشن کو دین دیال اپادھیائے کا نام دے دیا گیا؛ لیکن آپ کی پیشانی پر جوں تک نہ رینگی!…. آج تاریخی شہر  الہ آباد کے قدیم نام کو بدل کر بھگوائیوں نے پریاگ راج سے موسوم کر دیا؛ لیکن اب بھی آپ بے حس بنے بیٹھے ہیں، اسکے علاوہ ہمارے اکثر تاریخی مقامات (بشمول تاج محل جامع مسجد) پر ان کی بری نظریں جمی ہوئی ہیں؛ بلکہ انھوں نے ان کے نام تک کا اعلان کر رکھا ہے، پھر بھی آپ کی پیشانی پر بَل نہیں آ رہا ہے! آخر کب تک آپ مصلحت کی چادر تان کر سوتے رہیں گے؟ آپ کی زبان سے حق اور سچ نکلتا کیوں نہیں ہے؟ ہم نے آپ کو ایوان میں کس کام کے لیے بھیجا ہے اور آپ وہاں بیٹھ کر آخر کیا کر رہے ہیں؟ جب آپ کو ہمارا مکمل تعاون اور سپورٹ حاصل ہے تو پھر میدان میں اترنے سے کتراتے کیوں ہیں ؟ ہماری عنایت کی ہوئی کرسی اتنی ہی عزیز ہے تو ہمارے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپ کی زبان پر کس بات کے تالے لگے ہوئے ہیں؟  آخر آپ کو ڈر کس بات کا ہے؟ بولتے کیوں نہیں ہیں ہمارے حق میں؛ کیا زبان میں آبلے پڑ گئے ہیں!  مجھے پتہ ہے کہ میرے کسی سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے؛ لیکن اچھی طرح سمجھ لیں بہت دیر ہو چکی ہے، اب آپ کو اسٹینڈ لینا پڑے گا، سخت موقف اختیار کرنا ہوگا ، ہمارے حقوق کی بازیابی کے لئے تحریک چھیڑنی ہی پڑے گی؛ زبان کھولنی پڑے گی؛ ورنہ آج تو صرف مسلم عوام کی جان اور ہمارے تاریخی مقامات کے لالے پڑے ہیں، کل کو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نفرت کی آگ آپ اور آپ کے گھر والوں کو بھی جلا کر بھسم کر دے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا؛ کیونکہ اب “چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے”.

اس لئے آپ بھی کروناندھی و دیگر انقلابی لیڈران کی طرح مسلم قوم کی کھوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کیجئے ، آج آپ کے سامنے بھی کروناندھی کی طرح مغل سرائے اسٹیشن اور تاریخی شہر الہ آباد قربانی اور زبان کھولنے کی بھیک مانگ رہا ہے، اس لئے جس طرح آنجہانی کروناندھی دراوڑی قبیلہ کو ساتھ لیکر برہمن واد سے نبرد آزما رہے اور زبان و قلم سے ہندوتو کو منہ توڑ جواب دیتے رہے، آپ بھی ان کی طرح اپنی ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے اٹھیں اور اپنی تاریخ  رقم کریں؛ تاکہ آنے والی نسلیں آپ پر فخر کر سکے، ورنہ آنے والی نسلیں صدیوں تک آپ کو کوستی رہیں گی اور تاریخ کے اوراق آپ کی نسلوں کو شرمسار کرتے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔