اخلاص ہی راہ نجات ہے

عبد الکریم ندوی گنگولی

    بچشم غور دیکھا جائے تواعمال صالحہ کی قبولیت اور عنداللہ محبوبیت کا لب لباب، مغزاور اصل الاصول صرف اور صرف اخلاص ہے، اخلاص ہی ایک ایسی صفت ہے جو مالک ارض وسماء کی رحمت بیکراں میں جوش پیدا کرتی ہے اور نجات وفلاح سے ہمکنار کراتے ہوئے سرخروئی وسربلندی سے سرفراز کراتی ہے، مایوسی کے تیز وتندگھنے بادلوں کے سائے تلے امید ورجائیت کی شمع فروزاں کراتی ہے،دلوں کو ذوق عمل سے سنوارتے ہوئے رگوں میں منجمد لہو کو رقصاں کرتی ہے، اورجس کی بوئے وفا سے بزم ہستی کے تاریک گوشے زعفران زار اور لمعہ پاش ہونے لگتے ہیں، بالآخر یہ صفت بارگاہ الہی میں محبوبیت و مقبولیت کے اس مقام تک پہنچادیتی ہے جس سے بحر ظلمات کے متلاطم موجوں کی شکار کشتیٔ حیات ساحل مراد پاتی ہے اور دل کی بے تاب کلی کھل کر مسکرااٹھتی ہے اور راہ خدا میں مرمٹنے کی تمنائے بے تاب آتش سیال بن کر دل کی دھڑکنوں میں جنبش پیدا کردیتی ہے۔

 مالک کن فکاں کلام مجید میں اسی اخلاص کی پسندیدگی کا اظہار یوں فرماتا ہے ’’الا للہ الدین الخالص ‘‘(زمر:۳)یاد رکھو عبادت تو خالص اللہ ہی کے لئے ہے،اور اسی اخلاص اور جذبۂ ایمانی سے لبریز واقعات احادیث رسول ﷺ کے پاکیزہ دامن میں مثل خورشید روشن وتابناک ہیں، امام بخاریؒ نے زبان رسالت سے نکلا ہوا گذشتہ دور کا ایک واقعہ نقل فرمایاکہ تین حضرات غار میں تھے کہ اچانک ایک چٹان نے غارکا منہ بند کردیا، گھبراہٹ کے عالم میں تینوں نے اپنے اپنے اس مخلصانہ عمل کا واسطہ دے کر گریہ وزاری کی جو خالص اللہ کی رضاپر مبنی تھے،تو غار کے منہ پر آپڑا پتھر ہٹ گیا اور وہ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، یعنی ان کے اخلاص والے عمل وسیلۂ نجات ثابت ہوئے اورجس کی ضوفشاکرنوں سے کشت ایمان ویقین لہلہااٹھی اور ان کے اسی اخلاص نے ظلمت شب میں بانگ سحر کاکام کیا۔

تمام انبیاء علیہم السلام معصوم اور گناہوں کے شبہات سے بھی پاک، نیک سیرت ونیک طبیعت کے مالک تھے، جن کی زندگیاں پانی کی طرح صاف وشفاف تھے اور حق وصداقت کے انسانی پیکر تھے، جن میں ایک نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی جلی حروف میں آتاہے، فی الحقیقت کانہ ٔ کعبہ کے اردگرد عاشقان الہی کا منظر آپؑ کے سراپا اخلاص کا شاہکار معلوم ہوتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ وہ ہیں جن کے قدم ابتلاء وآزمائشوں کے راہوں سے آشنا ہوتے رہے لیکن آپ کے جذبۂ اخلاص وشوق اطاعت کے سامنے نمرود کا کوہ ظلم وستم بھی پارہ پارہ ہوگیا اورمخلصانہ عشق کوبے خطر آتش نمرود میں کودتادیکھ کرمحو تماشائے لب بام کھڑی عقل ودانش ورطۂ حیرت میں پڑگئی،اور اسی اخلاص کی وجہ سے شعلے بھڑکاتی، انسانیت کی نگاہوں کوخیرہ کرنے والی خوفناک آگ گل گلزار بن گئی اور آپ کی اللہ کے لئے فدائیت واپنائیت کے سامنے اخلاص نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے جب آپ اپنے اکلوتے لخت جگر نورنظر کو لے خواب کو شرمندۂ تعبیر اور حکم الہی کی تعمیل میں نکل کھڑے ہوئے اور تاریخ انسانیت نے عشق الہی کا ایک ایسا خوشنما بے مثال و بے نظیر منظر دیکھا، جوتاقیامت مثل آفتاب وماہتاب روشن وتابناک رہے گا اورجسے اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لئے یادگار اور زندۂ جاویدبنادیاہے، اوران کی لازوال قربانی کی لافانی خوشبوئے وفا سے وادیٔ بطحاکی فضاؤں کومعطر کردیا، ان شاء اللہ جس سے صہبائے ایمان ویقین کے بادہ کش، خوان حرمین کے ریزہ چیں، علم ومعرفت کے جام وسبو سے لذت یاب ہونے والے افراد معطر ہوتے رہیں گے اور ان کے چشمۂ ایمانی سے تشنہ لبوں کی مسلسل سیرابی ہوتی رہے گی۔

 بھلا سکیں گے نہ اہل زمانہ صدیوں تک

مری وفا مرے عشق وجنوں کے افسانے

عمل کس قدر ہی بڑا کیوں نہ ہو، اگر اخلاص کے رنگ سے خالی وعاری ہوتو اس کی کوئی حیثیت نہیں، فرمان رسولﷺ ہے ’’ان اللہ لا یقبل من العمل الا ماکان خالصا وابتغی بہ وجھہ‘‘(ابوداؤد،نسائی)اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو پسند کرتا ہے جو صرف اسی کی رضاکے لئے کیاگیا ہو۔ یہ وجہ ہے بارگاہ ایزدی میں خلوص عمل ہی پہنچتاہے، ورنہ ناقابل قبول ہوتا ہے ’’لن ینال اللہ لحومھا ولادمائھا ولکن ینال التقوی منکم‘‘(الحج)،ان آیات کے پیش نظر ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوجائے گی کہ ہمارے معاشرہ کی تصویر دو رنگی اور امرؤالبیتین کے مانندہے، آج نہ افراد کی کمی ہے اور نہ تحریکات واداروں کی قلت، اور نہ ہی خدمت خلق پر مامور تنظیموں کی عدم موجودگی کی شکایت،لیکن افسوس صد افسوس!اخلاص کا فقدان ہے، وہ اصل شیٔ مفقود ہے، جس پر ساری عمارت کی بنیادقائم ہے، اور اعمال کی روح ہے، جس کے بغیر قوموں کی زندگیاں مصلوب ہوکر بے بندگی سے گذر کر شرمندگی کی نذر ہوجاتی ہیں، پسماندگی ان کا مقدر اور باقار زندگی محض خواب وخیال بن جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ شخصیت پرستی، خود پسندی، شکم پروی، مفاد پرستی، جاہ طلبی کی گرم بازاری ہے اور شہرت ونام نمود نے اپنے شکنجے گاڑدئیے ہیں، جس کے دبیز پردوں میں اخلاص دم توڑ چکی ہے، دور دور تک اس کا سایہ بھی نظر نہیں آرہاہے، درحقیقت عصر حاضر میں ایک بہت بڑا المیہ اور قابل غور وقابل عمل لمحۂ فکریہ ہے اوراس سے بڑھ کر حکم خداوندی ’’وما ؤمروا إلا لیعبدوااللہ مخلصین لہ الدین حنفاء‘‘ہے اوراس سے اعراض گویا اپنی زندگی کے حسین وقیمتی لمحات کاضیاع ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور اخلاص سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔