امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 پالیسی  (Policy)انگریزی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی اردو میں حکمت عملی، لائحہ عمل، طریقہ کار، اور مصلحت وقت کے آتے ہیں، یہ حکمت، دور اندیشی ، دانائی اور مصلحت پر مبنی ہوتی ہے، اس کے بنانے میں ادارہ کے سربراہ اور مملکت کے حکمراں کی فکر اور سوچ کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسیاں جامد نہیں ہوتی ہیں، یہ بدلتے حالات، تغیر پذیر زمانہ اور سربراہان کی سوچ کے اعتبار سے وقفہ وقفہ سے بدلتی رہتی ہے۔

امارت شرعیہ کا قیام انگریزی عہد حکومت میں ۲۶؍ جون ۱۹۲۱ء کو ہوا تھا، اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی رائج تھی اور اس کامقصد ایک ایسی نسل کو پروان چڑھانا تھا جو گوشت وپوست کے اعتبار سے ہندوستانی ، اور دل ودماغ کے اعتبار سے مغربی افکار وخیالات کی حامل ہو اور انگریزوں کے اقتدار کے سورج کو غروب ہونے سے بچا سکے، اس لیے بانیٔ امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے امارت شرعیہ کے ابتدائی عہد میں مکاتب دینیہ کے قیام پر زور دیا ، تاکہ مسلمانوں کو ایمان وعقائد اور بنیادی دینی مسائل سے واقفیت بہم پہونچائی جائے، بنیادی دینی تعلیم کی فراہمی اور اس کے حصول کو یقینی بنانے کی پالیسی جو بانیٔ امارت شرعیہ نے بنائی تھی، وہ الحمد للہ آج تک باقی ہے اور اس میں کسی دور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، کیوں کہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے کسی بھی قسم کی چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بنیادی مذہبی تعلیمات اور اقدار سے دور ہوجائیں، امارت شرعیہ نے اسے کبھی گوارہ نہیں کیا کیوں کہ اس کی بنیادہی تنفیذ شریعت علی منہاج النبوت پر ہے۔

 مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کرتے تھے کہ ابتدائی مکاتب کا عمدہ نصاب تیار کیا جائے، انہوں نے ایک میٹنگ میں علماء کرام سے اپیل کی تھی کہ ’’آپ حضرات آج ہی سے غور وخوض شروع کردیں کہ وہ نصاب کن اصولوں پر بنایا جائے، اور کس حد تک رکھا جائے اور جو حضرات اس کے متعلق کوئی مسودہ تیار کریں وہ ہمارے نام روانہ فرمائیں؛ تاکہ ترتیب میں مجھے سہولت ہو اور آئندہ آپ کو بھی آسانی ہو۔ (مقالات سجاد ۸۰-۷۹)

بعد کے دنوں میں مکاتب امارت شرعیہ کے لیے ایک جامع تعلیمی منصوبہ خود کفیل نظام تعلیم کے عنوان سے مرتب کرکے رائج کیا گیا اور مکاتب دینیہ کے نصاب کو اس کا لازمی حصہ بنایا گیا، اور امارت شرعیہ کے حلقہ کے مکاتب میں اس نصاب کو بڑے پیمانے پر رائج کیا گیا، اور اس پر خصوصی توجہ دی گئی، احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے اپنے ایک مضمون ’’امارت شرعیہ کی بنیادی تعلیمی تحریک‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا:

’’امارت شرعیہ کے دستور میں امیر کے فرائض میں زبانی اور کتابی ہر قسم کی تعلیم کوشامل کیاگیا۔ امارت کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میں ان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے‘‘۔ (تعلیم- ترقی کی شاہ کلید ۳۳)

ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے زمانہ میں مکاتب کے نصاب تعلیم ، نظام تعلیم اور طریقۂ کار پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ مجلس عاملہ منعقدہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۰ء  کو حضرت امیر شریعت سابع نے ایک چہار نفری کمیٹی تشکیل دی، جس میں موجودہ نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی ، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)مفتی نذر توحید صاحب مظاہری اور ڈاکٹر یٰسین قاسمی رانچی کو اس کا رکن نامزد کیا ،قائم مقام ناظم کی حیثیت سے مولانا محمد شبلی قاسمی بھی کمیٹی میں شامل ہوئے، کمیٹی کے کنوینر مولانا محمد شمشاد رحمانی بنائے گیے، انہوں نے مکاتب کے لیے نئی تعلیمی پالیسی بنائی ، ہم لوگ آن لائن کئی مٹنگوں میں اس پر متفق ہوئے، ابھی اس کا نفاذ ہونا باقی تھا کہ حضرت امیر شریعت کا وصال ہو گیا، حضرت کے حکم پر بہار میں ہفتہ ترغیب تعلیم اور جھارکھنڈ میں عشرہ ترغیب تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے بیداری لائی گئی، آٹھویں امیر شریعت مکاتب کے نظام کو اس سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور دینی تعلیم کے ساتھ بعض عصری علوم کو بھی مکتب کے زمانہ میں مفید سمجھتے ہیں، حضرت کی توجہ خود کفیل نظام تعلیم کو مضبوط کرنے اور ہر بڑی آبادی تک پہلے مرحلہ میں اسے پہونچانے کی ہے اور ۱۴۴۳ھ میں  کم از کم سو مکاتب قائم کرنے کا ہدف ہے اور اب تک الحمد للہ تیس جگہوں میں تعلیم شروع ہو چکی ہے، ۲۴؍ جگہوں پر کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، ۴۶؍ جگہوں پر مکاتب کے قیام کو اصول طور پر اب تک منظوری مل چکی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

 مکاتب کے بعدمدارس اسلامیہ کی سرپرستی اور اس کی علمی فکری معاونت بھی امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی کا حصہ رہی ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے اس بات پر زور دیا کہ غیر منقسم بہار کے تمام مدارس اسلامیہ عربیہ میں ایک ہی  نصاب رائج ہو ، ایک مجلس ممتحنہ ہو جو امتحان کے اصول ونوعیت باعتبار کتاب ودرجات قائم کرے اور تمام مدارس کے نتائج کو با ضابطہ شائع کیا جائے اور بغیر کامیابی طلبہ کو ترقی نہ دی جائے۔ (مقالات سجاد ۷۷-۷۶) مولانا کی خواہش یہ بھی تھی کہ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہونے والوں کو ایک سال تک وظیفہ دیا جائے، جو طلبہ ایک مدرسہ سے نکل کر دوسرے مدارس میں داخل ہونا چاہیں ان سے سابقہ مدرسہ کی تصدیق طلب کی جائے اور مدارس کے ذمہ دار یہ تصدیق نامہ دینے سے انکار نہ کریں۔ اسی طرح صوبہ بہار کے کسی ایک مدرسہ کو جامعہ(یونیورسٹی) کا درجہ دے دیا جائے۔

 مدارس کے سلسلہ میں اس پالیسی کے نتیجہ میں بعد میں مدرسہ اسلامیہ بتیا اور مدرسہ اسلامیہ بلیا پور دھنبادکا قیام براہ راست امارت شرعیہ کی سرپرستی میں ہوا، یہ دونوں مدارس خاص طور سے امارت شرعیہ کے سمجھے جاتے رہے، ان دونوں کا تعلق امارت شرعیہ سے سر پرستی سے اوپر کا تھا، یہ اتفاق ہے کہ ان دونوں مدرسہ سے امارت کا تعلق اب پہلے جیساباقی نہ رہا،بلکہ مدرسہ اسلامیہ بلیا پور کا تعلق امارت شرعیہ سے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کی مدارس کے نظام کے سلسلہ میں جو رائے تھی ، اسی بنیاد پر ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے مدرسہ ضیاء العلوم رام پور رہوا میں ایک میٹنگ بلا کر وفاق المدارس قائم کیا جو آج بھی قائم ہے، مدارس کے نصاب ونظام تعلیم اور نظام امتحان میں یکسانیت لانے کے لیے کام کر اس وفاق سے ان دنوں دوسو تہتر مدارس ملحق ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے گودوسال سے امتحانات نہیں ہوئے ہیں، لیکن وفاق کے ذریعہ ضروری ہدایات ان مدارس کو دی جا رہی ہیں اور اس گائیڈ لائن کے مطابق مدارس کام کر رہے ہیں، جزوی فرق کے ساتھا ن مدارس میں جو نصاب رائج ہے، وہ درس نظامی ہی کا ہے۔

حضرت امیر شریعت رابع مولانامنت اللہ رحمانی اور ان کے دو خصوصی معاون مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سیدنظام الدین ؒ کے عہد میں دینی تعلیم کے حوالہ سے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کو پورے طور پر داخل نہ کیا جائے، ایسا کرنے سے مدارس کی روح نکل جائے گی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی فرمایا کرتے تھے کہ مدارس اسلامیہ اصلا مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے ہیں اور ان کو اسی کے لیے خاص رکھنا چاہیے، ان کی سوچ تھی کہ ا گر میڈیکل کالج میں انجینئر نہیں بنائے جاتے ، انجینئر نگ کالج سے ڈاکٹر تیار ہو کر نہیں نکلتے تو پھر مدارس ہی سے یہ کیوں چاہا جائے کہ وہاں سے فارغ ہونے والا سب کچھ بن کر نکلے، ان کے زمانہ میں دار العلوم الاسلامیہ قائم ہوا اوراس کا نصاب حضرت قاضی صاحب ؒ کی نگرانی میں بنا، وفاق المدارس کا نصاب بھی قاضی صاحب کی نگرانی میں ان کے مشورے سے بنایا گیا،انہوں نے دونوں نصاب میں ابتدائی درجات میں بقدر ضرورت انگریزی ، ہندی اور حساب کوشامل کیا ، یہ نصاب آج بھی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ اور وفاق المدارس الاسلامیہ میں رائج ہے۔

موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی خواہش ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی جائے، حالیہ مجلس شوریٰ میں ایک نصابی کمیٹی بنانے کی بات بھی آئی تھی جو ابھی حضرت کے زیر غور ہے، حضرت کی تعلیمی پالیسی یہ ہے کہ نئے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی تبدیلی لائی جائے کہ دینی وعصری علوم کی تفریق کم ہوجائے اور مدارس کے فارغین دوسرے محاذ پر بھی قابل قدر خدمات انجام دے سکیں،ا س سے تعلیم کی دوئی کا تصوربھی ختم ہوجائے گا، علماء ودانشوران کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹا جا سکے گا،اور طلبہ کا رجوع مدارس اسلامیہ کی طرف بڑھے گا۔حضرت دامت برکاتہم کایہ خیال اصلاحضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ کی فکر کا پَرتو ہے، حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ

’’ چوں کہ مدارس عربیہ اسلامیہ میںجو نصاب تعلیم رائج ہے اور جو طریق تعلیم وتربیت عموما شائع ہے وہ ایک حد تک موجودہ ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے کافی نہیں ہے، انہیں وجوہ سے کثرت مدارس کے با وجود علمی کیفیت روز بروز انحطاط پذیر ہوتی جاتی ہے، اگرچہ علماء کی تعداد میں ہر سال ایک غیر معمولی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے حضرات کے دلوں سے مدارس عربیہ اسلامیہ کی وقعت زائل ہو گئی ہے اور انہیں وجوہ سے ملک میں ایک عام بد دلی پھیلی جا رہی ہے۔ (مقالات سجاد : اصلاح تعلیم ونظام مدارس عربیہ ۷۶)

تبصرے بند ہیں۔