امت کی وحدانیت میں اس کی پستی کا علاج مضمر
محمد شاہ نواز عالم ندوی، موبائل نمبر :9590555851
امت مسلمہ یعنی ہماری پستی اور زوال پذیر عہد میں جب کہ پوری انسانیت ایک عجیب وغریب حالات سے دوچار ہے۔ نفسانفسی کا عالم ہے، چودہ سوسال پہلے جن حالات سے رسول اکرمؐ کا سامنا تھا تقریباً اسی طرح کے حالات میں آج آپؐ کی امت گرفتار ہے۔ آپ غور کریں کہ نبی محترم، محسن انسانیت، رحمت عالمؐ کی جب بعثت ہورہی تھی اس وقت عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا عجیب انتشار کا شکار تھی، کہیں انسانیت کا نام ونشان نہیں تھا، انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کی تحریکیں تحریفات کی شکار ہوچکی تھیں، ظلم وستم کی مسلسل آندھیوں اور تھپیڑوں اور گردش ایام نے ان تحریکوں کو گردوغبار کی نہ ختم کی جانے والی تہوں میں کہیں چھپادیاتھا۔ نبوت ورسالت کا زمانہ کافی طویل ہوچکاتھا۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کی رسالت کو کوئی 600 سال کا عرصہ گزر چکاتھا۔ لوگ اپنے خالق ومالک سے بالکل غافل ہوچکے تھے۔ بہر کیف اللہ نے قرآن کریم میں مؤمنین کو اپنی نعمت یاد دلاتے ہوئے ایک پیغام دیا ہے اور فرمایا ’’اللہ کی رسی کواجتماعی قوت کے ساتھ مضبوط پکڑلو اور آپس میں مت بٹو، اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو کہ تم آپس میں دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم آپس میں اللہ کے کرم سے بھائی بھائی ہوگئے اور یاد کرو کہ تم آگ کے دہانے پر کھڑے اس میں گرنے والے تھے کہ اللہ نے تم کو اس سے بچالیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سورہ آل عمران۔۱۰۳)
مفکر اسلام حضرت علی میاں ندویؒ نے اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ارشاد فرمایا کہ اس وقت پوری انسانیت کا حال کچھ اس طرح تھا ’’پوری انسانیت ایک کشتی میں سوار تھی، جس کا ناخدا گہری نیند سورہا تھا اور کشتی پوری انسانیت کو لے کر جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے دہانے پر پہنچ چکی تھی اور قریب تھا کہ اس میں گرجاتی ، ایسے میں اللہ نے اپنی رحمت کی رسی ڈال کر انسانوں کو بچالیا۔‘‘
اب ذرا اپنے موجودہ حالات اور پوری دنیا کا ایک عمومی جائزہ لیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ اسی تصویر کا عکس آج ہم کو یہاں نظر آرہاہے۔ پوری دنیا ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ روزانہ سینکڑوں، ہزاروں انسان ہوس ناکیوں کے شکار ہورہے ہیں۔ کبھی فلسطین میں زندہ انسانوں کو جلایا جاتا ہے تو کبھی چیچنیا میں خون وآگ کا کھیل کھیلا جاتاہے۔ کبھی شام حلب کو نذر آتش کیا جاتاہے تو کبھی برما میں بے بس وبے سہارا روہنگیا مسلمانوں کو تڑپنے پر مجبور کردیا جاتاہے۔ کیا پوری دنیا یہ تماشانہیں دیکھ رہی ہے۔ اگر امریکہ، یوروپ، برطانیہ وغیرہ ممالک کے کسی شہر میں کسی وجہ سے کسی ایک کا خون ہوجائے تو پوری دنیا دہشت گردی کا نعرہ لگانے لگتی ہے ایک شور بپا ہوتاہے اور بغیر کسی ثبوت وشواہد کے کسی مسلم نوجوان کو اس کے جرم ناکردہ کی سزا دے دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا جاتاہے، لیکن آج کیا ہوگیا ہے اقوام متحدہ کو جو محض تماشائی ہے، فلسطین، یمن، شام، چیچنیا، برما کے مسلمان آگ وخون میں تڑپ رہے ہیں۔ غذاودوا کی قلت کی وجہ سے معصوموں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ کیوں نہیں اقوام متحدہ میں اس کے خلاف کوئی چارٹر منظور ہوتاہے۔ خیر اقوام متحدہ تو یہودی پارلیمان ہے ہی اس سے کیا شکوہ ۔ لیکن مسلم ممالک کو کیا ہوگیا ہے؟
ان تمام حالات اور پستی وزوال پر نظر ڈالیں تو ایک بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ وہ دین جو بڑی شان سے عرب سے نکلا تھا وہ آج دنیا میں غرباء کی سی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا اصل سبب امت مسلمہ کی آپس کی نااتفاقی ہے،1924میں مسلمانوں کی روحانی طاقت خلافت کا خاتمہ کیا گیا ۔ہر مسلمان حکمران صرف اپنی ریاست کی بہتری کا سوچتا ہے تمام اسلامی ممالک آج استعماری قوتوں کے مظالم کا شکار ہیں،کشمیر ہو کہ فلسطین،عراق ہو یا افغانستان،صومالیہ ہو یا پاکستان۔۔۔ہر ایک ریاست حکمرانوں کی آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے ذلیل و خوار ہے۔ مسلمان حکمران اور عوام دونوں امت کے اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد کو ترجیح دے رہیں ہیں۔ کیوں میں تمہیدی کلمات میں جس آیت مبارکہ کا حوالہ دیا ہے اس ایک پہلو تو وہ جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ لیکن دوسرا پہلو وہ ہے جو اس کے برعکس ہے کہ اگر تم تفرقہ بازی کروگے، فرقوں میں بٹ جاؤگے اپنی قائدانہ صلاحیت کھودوگے تو تم اے مسلمانوں اللہ کی نعمت سے محروم اور آپس دشمن ہوجاؤگے، دلوں میں بغض اور دوری پیدا کردی جائے گی۔ پھر اس کے نتیجہ میں اسی بھڑکتی ہوئی آگ کے دہانے پر پہنچ جاؤگے جہاں سے اللہ نے تم نکالا تھا اور آج وہی کچھ ہورہاہے ۔ کیوں کہ قانون الٰہی ہے ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ کہ اللہ کی مہربانی اور اللہ کا کرم اور اللہ کی مددونصرت تو جماعت سے وابستہ ہے۔
اس لئے یہ بہت اہم ہے کہ آج ملت کے رہنماؤں ، دانشوروں، علماء ومصلحین اپنے معاشرہ، اپنے سماج اور اپنے حلقہ اثر میں اتحاد واتفاق کی وہی فضا قائم کریں جو خیرالقرون یا کم سے کم علماء ربانیین کے دور میں قائم تھی اور اس کے لئے سب سے پہلے مسلکی، گروہی، جماعتی، علاقائی، نسلی تعصب کا گلا دباناہوگا اور کلمہ کی بنیاد پر، توحید ورسالت کی بنیاد پر، کتاب ہدایت وفرمان رسالت کی بنیاد پر ایک میدان عمل تیار کرنا ہوگا اور ایک پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا اور اسی چراغ مصطفوی کو جلانا ہوگا جس کی روشنی میں صحابہؓ، تابعینؒ، ائمہ مجتہدین اور علماء ربانیین نے زندگی گزاری تھی تب ہی ہم وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں جس کا ہم سے وعدہ کیاگیاہے ۔ کیوں کہ
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تونے وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
مسلمان امت نااتفاقی کی اس دلدل سے نکل سکتی ہے اگر وہ فرقہ پرستی کا خاتمہ کر کے اتحاد اور یکجہتی کے شعور کو فروغ دے،سب سے پہلے اپنا وطن کے نعرے کو چھوڑ کر مظلوم مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کا ساتھ دے،اغیار سے وفاداری کی بجائے مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے متحد ہوں مسلمان حکمرانوں کو نسلی ،لسانی اور جغرافیائی امتیازات سے نکل کر آفاقی تصور کو اپنانا ہوگا،امت کے ہر خطے کے مسلمان کا درد محسوس کر اس کے حل کے لیے باقی حکمرانوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا،حکمرانوں کا مکمل اتحاد ہی باطل کے منصوبوں کی ناکامی کا سبب بن کر امت کو ماضی جیسا عروج دے سکتا ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔