اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے
ذو الفقار نقوی
اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے
کوئی روزن کسی دیوار میں تسخیر کرنا ہے
۔
ذرا دیکھوں تو دم کتنا ہے اس باد مخالف میں
سر دشت بلا اک گھر نیا تعمیر کرنا ہے
۔
نکل آیا ہے جو بیداد راہوں پر دل بے خود
کوئی ناوک فگن آئے اسے نخچیر کرنا ہے
۔
سر دشت جنوں جو بے خودی کے پھول کھلتے ہیں
انہیں روشن دماغوں کے لئے اکسیر کرنا ہے
۔
مکان لا مکانی کا سفر میرا نہیں رکتا
تمہاری یاد کو اب پاؤں کی زنجیر کرنا ہے
تبصرے بند ہیں۔