انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں
مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک خط کا اقتباس
ترتیب: عبدالعزیز
عرب کے فلسفی ابوالعلاء معریٰ نے زمانہ کا پورا پھیلاؤ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا تھا: کل جو گزر چکا، آج جو گزر رہا ہے؛ کل جو آنے والا ہے:
ثلاثہ ایّام ہی الدّھر کُلّہ … وَمَا ہُنَّ الْاَمْس وَالْیَوْم وَالغدا
وَمَا القَمْرُ الَا وَاحِد غَیر انََّہ … یُغیب وَیَأتِی بالضّیائِ المُجَدَّدا
لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم ’’حال‘‘ کہتے ہیں وہ فی الحقیقت ہے کہاں؟ یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسر ہے وہ یا تو ’’ماضی‘‘ کی نوعیت رکھتا ہے یا ’’مستقبل‘‘ کی؛ اور انہی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے، جسے ہم ’’حال‘‘ کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ’ماضی‘ اور ’مستقبل‘ کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہے، لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی اور نکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکتے۔ ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا اور اُدھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی۔ اب یا تو ہمارے سامنے ’ماضی‘ ہے جو جا چکا یا ’مستقبل‘ ہے جو ابھی آیا ہی نہیں؛ لیکن خود ’’حال‘‘ کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا، جس وقت کا ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ ’حال‘ تھا اور ہماری پکڑ میں آیا ہے وہ ’ماضی‘ ہے: نکل چکا ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں سے
شاید یہی وجہ ہے کہ ابو طالب کلیمؔ کو انسانی زندگی کی پوری مدت دو دن سے زیادہ نظر نہیں آئی:
بدنامیِ حیات دو روزے نبود بیش … واں ہم کلیمؔ! با تو چگویم، چساں گزشت
یک روز صرفِ بستن دل شد بایں و آں … روزے دگر بکندنِ دل زین و آں گزشت
ایک عرب شاعر نے یہی مطلب زیادہ ایجاز و بلاغت کے ساتھ ادا کیا ہے۔
ومتی یساعدنا الوصال ودہرنا … یومان، یوم نویٰ و یوم صدود
اور اگر حقیقت حال کو اور زیادہ نزدیک ہوکر دیکھئے تو واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں۔ صبح آنکھیں کھلیں، دوپہر امید و بیم میں گزری، رات آئی تو پھر آنکھیں بند تھیں۔ لَمْ یَلْبَثُوْا اِلاَّ عَشِیَّۃً أَوْ ضُحَاہَا
شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم … دیدیم کہ باقی ست شب فتنہ، غنودیم
لیکن پھر غور کیجئے؛ اسی ایک صبح شام کے بسر کرنے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے، کتنے صحراؤں کو طے کرنا پڑتا ہے؛ کتنے سمندروں کو لانگنا پڑتا ہے؛ کتنی چوٹیوں پر سے کودنا پڑتا ہے؛ پھر آتش و پنبہ کا افسانہ ہے، برق و خرمن کی کہانی ہے:
دریں چمن کہ ہوا داغِ شبنم آرائی ست … تسلیے بہزار اضطراب می بافند

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔