قرآن مجید کی عائلی تعلیمات ( پہلی قسط)  

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اسلام کے جن پہلوؤں پر سب سے زیادہ اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک اس کا نظامِ خاندان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان عورت کے لیے خاندان ایک قید خانہ کے مثل ہے، وہ شوہر کی محکوم اور اس کے زیر نگیں ہوتی ہے، اس کے اوپر بے شمار ذمہ داریاں لادی جاتی ہیں، لیکن وہ اپنے تمام حقوق سے محروم رہتی ہے، اسے اتنا بھی اختیار نہیں ہوتا کہ اپنے گھر سے باہر نکل سکے اور دوسروں سے سماجی رابطے استوار رکھ سکے۔ پردہ کے نام سے اس کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ملازمت اور معاشی جدو جہد سے منع کر کے اسے کلی طور پر شوہر کا دست نگر بنا دیاگیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مرد کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ چار عورتوں تک کو وہ اپنی زوجیت میں رکھے اور جب چاہے ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اپنے سے الگ کر دے۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں۔

یہ تمام باتیں خاندان کے بارے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔بسا اوقات مسلمانوں کی بے عملی، ان کی طرف سے عورتوں پر مظالم اور ان کے حقوق کی پامالی سے بھی یہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں خاندان کے بارے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، انھیں بتایا جائے کہ مسلمان عورت اپنے خاندان میں بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کی حیثیتوں میں شفقت، محبت اور عزت و احترام سے بہرہ ور ہوتی ہے، اسے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل رہتے ہیں، وہ شوہر کی محکوم اور دست نگر نہیں، بلکہ اس کی رفیق ، معاون اور ہم دم و دم ساز ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا کردار ہماری زبان کی گواہی دے رہا ہو۔ ہم واقعی اپنی عملی زندگی میں عورتوں کووہ حقوق دے رہے ہوں جن کے ہم دعوے دار ہیں۔

آئندہ سطور میں کوشش کی جائے گی کہ خاندان کے بارے میں اسلام کی اہم تعلیمات اختصار کے ساتھ بیان کر دی جائیں، تاکہ مسلما ن عورت کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوں اور اس آئینہ میں ہم بھی اپنی تصویر دیکھ سکیں۔

محکم بنیادوں پر خاندان کی تشکیل

اجتماعی زندگی میںخاندان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی تشکیل مرد و عورت کے صنفی تعلق سے ہوتی ہے۔ دنیا کے معاشرے اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں۔ کچھ لوگ صنفی تعلق کو خدا کی یاد میں حارج قرار دے کر اس سے بالکلیۃ کنارہ کش ہو گئے اور انھوں نے رہبانیت اختیار کر کے گیان دھیان کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا، جب کہ کچھ دوسرے لوگوں نے جنسی تسکین کے لیے مکمل آزادی کی روش اپنائی اور کسی پابندی کو قبول نہیں کیا۔ یہ دونوں منحرف رویے انسانیت کو تباہی و بربادی کی راہ پر ڈالنے والے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ دنیانے ان کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزہ چکھا اور ان کی تلخیوں کو جھیلا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ان دونوں کے درمیان شاہ راہِ اعتدال کو نمایاں کرتی ہیں۔ وہ رہبانیت کا قائل ہے نہ اباحیت اور آوارگی کی کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ اس نے صنفی تعلق کو قانونی بنیاد فراہم کی ہے اور اسے نکاح کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں دونوں کو پابند کرتا ہے کہ نکاح سے ماورا کسی طرح کا صنفی تعلق نہ علانیہ قائم کریں نہ چوری چھپے:

مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ(المائدۃ:۵)

"اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو، یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بد کاری کرو‘‘۔

مُحْصَنٰتٍ غَیْْرَ مُسٰفِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذٰتِ أَخْدَان                                                                                         (النساء:25)

"وہ پاک دامن ہوں، نہ کہ علانیہ بد کاریاں کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں‘‘۔

’حصن‘عربی زبان میں قلعہ کو کہتے ہیں۔ یہ بلیغ تعبیر اختیار کر کے قرآن اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ نکاح کے ذریعہ مرد اور عورت دونوں شیطان کے حملوں سے خود کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح پر زور دیا۔ آپؐ نے فرمایا:

یا معشر الشبا ب من ستطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج                                                   (بخاری: 5015مسلم:1400)

"اے نو جوانو! تم میں سے جو بھی شادی کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے‘‘۔

نکاح کا ایک مقصد اسلام یہ قرار دیتا ہے کہ اس کے ذریعہ زوجین کو ایک دوسرے سے سکون اور طمانینت حاصل ہو تی ہے اور فطری طور پر ان کے درمیان محبت و مودت اور   رحم دلی و ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ اپنی ایک نشانی قرار دیتا ہے:

وَمِنْ آیٰتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً(الروم: 21 )

"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‘‘۔

                اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

                لم نر للمتحابین مثل النکاح (ابن ماجہ: 1847)

                ’’دو افراد کے درمیان محبت پیدا کرنے کا ذریعہ نکاح سے بڑھ کر ہم نے نہیں دیکھا‘‘۔

نکاح کا دوسرا مقصد اسلام کی نظر میں یہ ہے کہ اس سے نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہے اور جو اولاد ہو وہ ماں باپ کے زیر سایہ، ان کی شفقت و محبت سے بہرہ ور رہتے ہوئے پروان چڑھے۔

وَابْتَغُواْ مَا کَتَبَ اللّہُ لَکم(البقرۃ:187)

"ازدواجی تعلق کے ذریعہ)اللہ نے جو اولاد تمھارے حصے میں رکھ دی ہیں، وہ طلب کرو‘‘۔

 وَقَدِّمُواْ لأَنفُسِکُمْ(البقرۃ:223)

"اور اپنے مستقبل کی فکر کرو‘‘۔

کاموں کی تقسیم

                اسلام نے خاندان کے دائرہ میں مردوں اور عورتوں کو مساوی حقوق عطا کیے ہیںاور ان کے لیے مساوی اجر کا وعدہ کیا ہے، لیکن مساوات کا مطلب کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اسلام نے دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں اور اس میں ان کی فطری صلاحیتوں کی بھر پور رعایت رکھی ہے۔ ان کے معاملات اور حقوق میں بہ ظاہر جو فرق نظر آتا ہے وہ ان کے درمیان تفریق اور عدم مساوات پر مبنی نہیں ہے، بلکہ الگ الگ نوعیت کے کاموں کی وجہ سے ہے۔ فطرت نے بچوں کی پیدائش اور پرورش کا  عظیم الشان کام عورت کے حوالے کیا ہے۔ وہ حیض و نفاس اور حمل و رضاعت کے مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ کام اس کی مکمل یکسوئی اور توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے گھر کے اندر کے کام اس سے متعلق کیے ہیںاور باہر کے بہت سے کاموں سے اسے مستثنیٰ رکھا ہے۔ دوسری طرف گھر سے باہر کے کام مرد کو سونپے ہیں اور اسے عورت کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کی کفالت کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے کاموں کے ذمہ دار ہیں اور دونوں سے ان کے مفوّضہ کاموں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

الرجل راع علی أہل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ ، والمرأۃ راعیۃ علی أہل بیت زوجھا وولدہ وھی مسئولۃ عنھم (بخاری: 7138، مسلم: 1829)

"مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور بچوں کی نگراں ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔

                کسی بھی ادارہ کا نظام خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری ہے۔ اگر یہ تقسیم نہ ہو تو اس کی سرگرمیاں ٹھپ پڑ جائیں گی اور وہ افرا تفری اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ کوئی بھی کمپنی اسی وقت ترقی کر سکتی ہے، جب اس کے کچھ ملازمین پروڈکشن کا کام سنبھالیں اوراچھے سے اچھا مال تیار کریں اور کچھ دوسرے ملازمین مارکیٹنگ کا کام انجام دیں اور بازار میں اس کی کھپت کے لیے جدو جہد کریں۔ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے ہیں۔ ایک کارخانے کے اندر کا کام ہے اور دوسرا    کار خانے سے باہر کا۔ اگر کمپنی کے ہر ملازم سے دونوں کام متعلق کر دیے جائیں تو وہ ایک دن بھی صحیح طریقہ سے نہیں چل سکتی۔ اسلام نے خاندان کا نظام چلانے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری سمجھی ہے۔ اس نے عورت کو گھر کے اندر کے کام سونپے ہیں اور مرد کو گھر کے باہر کے کام۔      (جاری)

تبصرے بند ہیں۔