ایسا بھی ہوتا ہے

شیما نظیر

بھیکو کا ایک ہی بیٹا تھا اسکی بیوی اور ننھی بچی کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر کئی سال پہلے موت کی آغوش میں جاچکے تھے
بھیکو اور اسکے بیٹے کا گذر بسر گاؤں میں بھیک مانگ کر ہی ہوتا تھا بیوی اور بیٹی کے مرنے پر لیئے گئے قرض کی ادائیگی نہ کرپانے کی صورت میں ساہوکار نے اسکا جھونپڑا ہڑپ لیا تھا اب
کڑاکے کی سردی ہو یا تپتی گرمی
یاپھر برسات کی رم جھم ہر موسم وہ مسجد کے پاس والے بڑے پیپل کے پیڑ  کے نیچے ہی گذارا ہوتا تھا
مسجد کے پیش امام صاحب بڑے نرم دل انسان تھے انکے گھر سے دووقت کا کھانا ان باپ بیٹوں کو بھیج دیا جاتا
نہانے دھونے کیلئے سرکاری نل اور بیتالخلاء کا استعمال کرتے ایسے ہی دن رات زندگی کے دن گذر رہے تھے
کبھی عیدین پر کوئی کپڑے بنادیتا تو وہ پہن لیتے
لیکن ایک بات ضرور تھی وہ دن بھر میں بھیک مانگ کر جو پیسے اکھٹا کرتے دونوں باپ بیٹے اسے مسجد کی دان پیٹی میں ڈال دیتے صرف ضرورتاً ہی کچھ رکھ لیتے
امام صاحب اور دوسرے افراد کہتے بھی بھئی بھیکو یہ تم ہر روز سارے پیسے مت ڈالا کرو مسجد کے غلے میں کچھ اپنے لیئے بھی تو رکھ لو
مگر……….
وہ ہر بار یہی کہتا کہ..امام صاحب کھانا تو آپ کھلا ہی دیتے ہیں
گھر تو میرا کوئی ہے نہی بس جو کچھ ہے یہی جگہ ہے لہذا اتنا مجھے کرنے سے مت روکیئے
لوگ چپ ہوجاتے……..
گاؤں کے افراد کی مدد کرنا  کسی کا پانی بھردیتے
کسی کو سودا لادیتے لوگ جی بھر بھر کے دعائیں دیتے لیکن یہ مست ملنگ لوگ اجرت میں صرف دعاءیں لیکر آگے بڑھ جاتا
اب بھیکو کابچہ بھی تقریباً جوان ہوگیا تھا لیکن اب بھی انکا ٹھکانہ وہی تھا
بیٹا اکثر باپ سے کہتا بابا ہم لوگ کب تک اسطرح درخت کے نیچے رہینگے
باپ کہتا
بیٹا یہ تو اب ہمارے نصیب ہیں..
نہی بابا دیکھنا ایک دن میں کچھ کام کاج کرکے ایک گھر خریدونگا اور آپ دیکھنا ہم ایک ساتھ رہیں گے اس گھر میں.
بھیکو کے لبوں پر پھیکی سی مسکان آکر چلی جاتی
اس طرح زندگی کچھ اور آگے بڑھی
بھیکو کے بیٹے نے کہیں کام ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی پر بنا کسی سفارش کے چھوٹا سا کام بھی کون دیتا ہے
زمانے کی بےدردی کا شکار بھیکو کا بیٹا اسی فکر میں بھاگ دوڑ کے دوران معمولی بخار میں مبتلا ہوگیا
تھا تو معمولی سردی بخار لیکن دوا کرنے کے بعد بھی پتا نہی کیوں کم نہی ہورہا تھا
گاؤں کے ڈاکٹر نے اپنے لیب میں سارے ٹسٹ کروائے اور
بالآخر ایک بڑی جانلیوا بیماری ٹی بی کا انکشاف ہوا جو اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی
بھیکو کافی دن سے بہت فکر مند تھا
پھر ایک شام زندگی سے لڑتے لڑتے اسنے موت سے ہار مان لی
اس دن بھیکو بہت رویا
گاؤں کے سبھی ہمدرد افراد جمع ہوگئے مسجد میں نہلا دھلا کے کفنادیا گیا
لیکن جب تدفین کیلئے مسجد کے احاطہ میں خبر کھودی جارہی تھی تب بھیکو کے مخالفین  نے اسکی خبر کھودنے سے انھیں روک دیا
گاؤں کے ہمدرد افراد نے بہت کوششیں کیں مگر ان لوگوں نے اتنی شدید مخالفت کی کہ اسے گاؤں سے باہر ہی دھکیل دیا
بھیکو روتے روتے ایک جگہ مین روڈ پر بیٹھا تھا
تاکہ کوئی اسکی مدد کردے لیکن کسی نے بھی اسکی مدد کیلئے آگے بڑھنا گوارہ نا کیا
پھر گاؤں کے ہمدرد افراد کا گروپ وہاں پہنچا
انھوں نے بھیکو کو ایک آئیڈیا دیا اور اسکی بھر پور مدد کی
اور دوسرے روز صبح سے دنیا نے دیکھا کہ بھیکو نے بیٹے کو اپنا نام دہدیا ہے
ایک اونچی قبر بنی تھی ایک ہرا کپڑا قبر پر ڈالے اوپر ایک سوکھے پتوں کا چھپر ڈالے سامنے ایک چھوٹا سا بورڈ تھا جسپر ہاتھ سے لکھا گیا تھا

 بھیکو بابا کی درگاہ
اور بس
لوگ اندھی عقیدت میں اس سے اپنی حاجات طلب کرنے آنے لگے جسنے نا ڈھنگ سے زندگی گذاری نا مرنے کے بعد دو گز زمین ہی اسے مل پائی
واہ رے
اندھی عقیدت
دن بدن لوگوں کے آتے اور حاجات طلب کرنے والوں کو دیکھ کر بھیکو سوچتا رہا
کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے
اور پھر اسے اپنے بیٹے کے وہ الفاظ یاد آجاتے
بابا آپ دیکھنا میں ایک دن ایسا گھر بناؤنگا
جسمیں ہم دونوں ساتھ رہیں گے
واقعی مر کر ہی سہی اسنے بھیکو کیلئے ٹھکانہ کا انتظام کردیا تھا

اور اسکا دل پکار اٹھتا واقعی بیٹے تو سچ کہتا تھا
آج ہم دونوں ساتھ ساتھ ہیں فرق صرف اتنا ھیکہ تو
زمین کے اندر ہے اور میں باہر
اور پھر باقی کی تمام زندگی بھیکو نے وہیں گذاردی
سچے واقعے سے ماخوذ
تحریر
یہ درگاہ آج بھی نلگنڈہ کے راستے میں واقع ہے

تبصرے بند ہیں۔