کیا ’شراب ‘کا نقصان ’شہاب ‘کے نقصان سے کم ہے؟

اسجد عقابی

انسان بھی بڑی عجيب مخلوق ہے، کبھی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا خوب استعمال کرتا ہے اور کبھی ایسے فیصلہ لیتا ہے جس سے انسانی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے،کبھی کسی کی حمایت میں اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ صحيح اور غلط کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی مبالغہ آرائی کا ایک نیا باب تراشا جاتا ہے تو کبھی مخالفت میں اس درجہ اندھا بن جاتا ہے کہ نفع و نقصان کا بھی پاس و لحاظ باقی نہیں رہتا ۔ اللہ نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات میں سب سے ا شرف بنا کر روئے زمین پر بھیجا ہے،لیکن عقل کا صحيح استعمال چیدہ چیدہ افراد ہی کرتے ہیں۔ گزشتہ 30 ستمبر بروز جمعه ہندوستان کے صوبہ بہار میں دو بہت اہم فیصلے ہوئے ہیں،جس نے نہ صرف صوبہ بہار بلکہ پورے ملک میں ہنگامہ مچادیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک بُرائی کو اندر کیا تو ہائی کورٹ نے ایک بُرائی کو باہر کردیا۔سیاسی گلیاروں میں دونوں معاملات کو لیکر کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے ۔ایک طبقہ کا خیال ہے کہ بہار میں پہلے بھی جنگل راج تھا اور اب بھی جنگل راج ہی ہے۔ بہار میں شراب بندی اسی جنگل راج کا ایک حصہ تھی،اسلئے عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اسی طرح بہار کے دبنگ مسلم لیڈر شہاب الدین کی ضمانت بھی جنگل راج کا نمونہ تھی اور اسے بھی عدالت نے اندر بھیج دیا ہے۔دوسرا طبقہ ان باتوں کو دوسرے زاويه سے دیکھ رہا ہے اور اس بات پر مصر ہے کہ بہار میں شراب بندی جاری رہے گی اور ہم اس کیلئے نیا قانون لائیں گے اور شہاب الدین کے معاملہ میں یہ طبقہ بھی فريق اول کے شانہ بشانہ ہے۔

پہلے ہم کچھ بات کرتے ہیں دبنگ لیڈر شہاب الدین کے بارے میں،آخر شہاب الدین میں ایسی کون سی خاص بات ہے جس کی بنا پر پورے صوبہ کو اس سے خطرہ لاحق ہوگیا تھا؟ کیا شہاب الدین بہار کا اکلوتا ایسا لیڈر ہے جو جرائم کی دنیا چھوڑ کر سیاست میں پناہ تلاش کررہا ہے ؟کیا ہمارے ملک کے تمام سیاسی حضرات اپنے سفید کپڑوں کی مانند دودھ کے دھلے ہیں؟یا پھر یہ واحد ایسا لیڈر ہے جسے ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب ہمارے ملک میں جرائم پیشہ افراد یا جنہوں نے ماضی میں کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا اب کھلی فضا میں سانس نہیں لے سکتے ہیں؟

نہیں ایسا  بالکل نہیں ہے،اورایسا ہو بھی نہیں سکتا،آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں جو جتنا بڑا جرم کا رسیا ہے اسے اتنا ہی بڑا سوشل ورک کا ایوارڈ دیا جاتا ہے ،اسے بڑی بڑی قومی پارٹی کا لیڈر اور عہدہ دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں ،سمجھیں اور اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں اور پھر شمار کریں کہ کتنے ایسے ہمارے ملک کے قائدین ہے جن پر قانون شکنی کاالزام ہے۔ یقین کریں آپ کو عمر قید کی سزا ہوجائے گی،جیل میں نہیں،جیل سے باہر،صرف اس بات کو سمجھنے کیلئے کہ مجرم کون ہے اور ملزم کون ہے۔  آپ پوری زندگی لگا دیجئے لیکن یہ فرق آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ مجرم کسے کہتے ہیں اور سوشل ورکر کسے کہتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں شراب بندی کے خلاف فیصلہ کی۔ دیسی شراب پر کوئی بحث نہیں ہے اس پر جوں کی توں پابندی عائد رہے گی ، لیکن غیر ملکی شراب پر پابندی کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ نتیش حکومت گاندھی جینتی کے موقع پر نیا قانون بنانے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔ کیا شراب پینے کے اپنے نقصان نہیں ہے؟ کیا شراب کے نشہ میں دھت انسان جرم کی دنیا سے قريب نہیں ہوجاتا ہے؟ ایکسیڈنٹ کا واقعہ پیش نہیں آتا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوال ہیں جو ایک سلجھے ہوئے انسان کے ذہن میں گردش کررہا ہے۔ گردش ہی کرے گا اور اس سے زیادہ سلجھا ہوا آدمی کر بھی کیا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو شراب پی کر جو لوگ گناہ کرتے ہیں یا کسی جرم کے مرتكب ہوتے ہیں وہ اپنی لاشعوری کی وجہ سے کر گزرتے ہیں۔ایک آدمی جب ہوش میں ہی نہیں ہے پھر چاہے وہ گھر اجاڑے یا کسی کے مانگ کا سیندور مٹائے۔ کیا قصور ہے اس شخص کا؟ کچھ بھی تو نہیں۔اگر کوئی غلطی سے اس کی گاڑی کے نیچے آجائے تو وہ مدہوش شخص کیسے مجرم ہوسکتا ہے۔ بالکل نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس نے غیر ملکی شراب جو پی رکھی تھی ۔

خیر ہمیں خاطر خواہ کسی کی حمایت نہیں کرنا ہے۔نہ شہاب الدین سے ہمارا کوئی تعلق ہے اور نہ کبھی ہم نے اس بندہ خدا کو دیکھا ہے۔ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ شہاب الدین جیسے اور اس سے بھی بہت بڑے بڑے مجرم ضمانت پر دندناتے پھر رہے ہیں۔اگر شہاب الدین کی ضمانت رد ہوگئی ہے تو کیا دیگر ضمانت یافتہ مجرمين بھی پھر جیل کے اندر ہوں گے۔ مجھے دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر شہاب الدین پر اسلئے اتنا واویلا مچایا گیا کیونکہ اس سے دوسرے لوگ محفوظ نہیں تھے۔ اس کی موجودگی دوسروں کیلئے خطرہ کا سبب بن سکتی تھی۔ پھر یہی واویلا شراب کے خلاف کیوں نہیں؟ کیا شراب پینے والے دوسروں کیلئے نقصان کا باعث نہیں بنتے ہیں؟ کیا شراب ہنستا کھیلتا گھر نہیں اجاڑ دیتی ہے؟ شراب تو اس درجہ تک پہونچا دیتی ہے کہ آدمی اپنی بیوی اور بیٹی کا بھی سودا کر بیٹھتا ہے۔ شراب سے ہونے والے نقصان اس غریب ماں سے پوچھیں جس کا جوان بیٹا شراب کا عادي ہوجائے۔اس معصوم بچہ سے پوچھئے جس کا باپ شرابی ہے۔اس عورت سے دریافت کیجئے جس کا شوہر شراب کا رسیا ہے۔اس شخص سے معلوم کریں جس کا پڑوسی شراب کے بغیر نیند نہیں لیتا ہے۔شراب ایک ایسی بیماری جس میں کہیں بھی کسی بھی طرح فائدہ نہیں ہے ۔ پھر کیوں انسانیت کے علمبردار اور خود ساختہ ملکی وفادار نے شراب بندی کے خلاف اپیل کی تھی؟ کیوں شراب کے متعلق عدالت کے فیصلہ پر جشن ہورہا ہے،کیا شراب کا نقصان شہاب کے نقصان سے کم ہے؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ ایک جانب شراب ہے اور ایک طرف شہاب، شہاب کی جگہ اگر کوئی شیوم ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا اس شیوم کی ضمانت بھی رد کرائی جاتی جس طرح سے شہاب کی ضمانت رد کرائی گئی ہے۔ کیااسے پھر سے پابند سلاسل کیا جاتا جس طرح شہاب کو دوبارہ زنداں کے حوالے کیاگیا ہے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ عدالتیں بھی ہندو مسلم کے طور پر فیصلہ صادر کرنے لگی ہیں حالانکہ ملک کے سیکولر عوام کو عدالتوں سے بہت ساری اُمیدیں وابستہ تھیں اور وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ نہیں دیر سہی لیکن عدالتیں انصاف ضرور کرتی ہے۔ لیکن پے درپے حالیہ واقعات نے جہاں اس جانب توجہ مرکوز کردی ہے اس سے ایسا نہیں لگتا ہے۔ خبر یہ بھی آرہی ہے کہ مالیگائوں بلاسٹ کا اقراری مجرم اسیما نند رہائی کے قریب تر ہے اور شاید رہا بھی ہوچکا ہو کیوں کہ میڈیا اس رہائی کو قوم تک پہنچنے نہیں دے گی۔ اسی طرح حضور ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا کملیش بھی عدالت کے حکم سے ضمانت پاچکا ہے۔ کیا یہ انصاف کا دہریہ پیمانہ نہیں ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔