انسان اور زمین کی حکومت (قسط 102)

رستم علی خان

کعب الاخبار سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت عیسی کا گزر بیابان شام ہوا- راستے میں آپ کو سر راہ ایک بوسیدہ کھوپڑی کی ہڈیاں ملیں- جناب باری میں عرض کی یا الہی یہ کس شخص کا سر ہے جو اس طرح سے سر راہ پڑا ہوا ہے- تو اس کو زندہ کر کہ یہ مجھ سے بات کرے- تاکہ میں اس کے متعلق جان سکوں کہ یہ شخص کون تھا اور دنیا میں کیا کام کرتا تھا اور یہ کہ کس سبب سے اس کی کھوپڑی راہ میں پڑی ہوئی ہے- اور بھی جو بات میں اس سے پوچھوں سو اس کا جواب دیوے- ندا آئی اے عیسی تو اس سے جو پوچھے گا سو یہ تجھ کو اس کا جواب دیوے گا-

تب حضرت عیسی نے سر بوسیدہ سے فرمایا، اے کھوپڑی خدا کے حکم سے تم ہم سے بات کرو- تب کھوپڑی نے خدا کے حکم سے حضرت عیسی سے یوں کلام کیا، اے نبی اللہ آپ کیا پوچھتے ہیں مجھ سے پوچھئے میں جواب دوں گا- تب حضرت نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاو کہ تو مرد تھا یا عورت، تونگر تھا یا غریب، نیک تھا یا بد، دراز قد تھا یا کوتاہ قد، سخی تھا یا بخیل، اور تیرا نام کیا ہے-

تب کھوپڑی نے جواب دیا کہ اے حضرت میں ایک بادشاہ تھا اور میرا نام جمجاہ تھا- میں سخی اور دراز قد مرد تھا- اور کئی بادشاہ میرے زیر فرمان تھے- دولت اور دنیا سب مجھ کو حاصل تھا- کسی چیز کا غم مجھ کو نہ تھا ہمیشہ عیش و نشاط میں رہتا تھا- پانچ ہزار غلام عصا بردار جوان و خوبصورت سرخ قباپوش باشمشیر بندی میرے دائیں بائیں ہمیشہ کھڑے رہتے تھے- اور پانچ سو غلام باہر ترانہ ساز کھڑے رہتے اور پانچ سو غلام علاوہ ان کے جو محل کی پہریداری کرتے تھے- اور ہزار لونڈیاں میری خدمت میں خوش آواز گانے والی تھیں اور ہزار لونڈیاں ہمجنس ہم قدم رقص کرتی تھیں- اور ایسا رقص کہ جسے دیکھ کر مرغان ہوا اور چرند جانور کھڑے رہ جائیں اور آدمیوں پر سکتہ طاری ہو جائے-

مزید کہا کہ اے پیغمبر خدا اگر میں اپنے تمام اوصاف اور حشمت بیان کروں تو آپ تعجب کریں گے- اور جب میں شکار کے واسطے شکار گاہ کو جاتا تو چار ہزار گھوڑے بازین زرین میرے ساتھ رہتے- اور چار ہزار میر شکار سفید قبا زیب تن کیے تاج و مکلل سر اور بازوں پر پہنے بہری شاہین لیکر میرے ساتھ چلتے- اور ہزار غلام آگے اور ہزار پیچھے اور ایک ایک ہزار سوار دائیں بائیں ساتھ چلتے- اور تمام غلام آہنی ہتھیار لیکر گھوڑوں پر سوار چلتے- اور اے پیغمبر خدا اگر آپ سے صفت شکار گاہ کی بیان کروں تو آپ مزید تعجب کریں گے- مشرق تا مغرب میری بادشاہت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی- لشکر فوج بیشمار تھی کہ اس کی تعداد لکھنے سے وزیر و دبیر عاجز رہتے- اور ہزار بادشاہ اور ملک میرے زیر فرمان تھے جو جنگوں کے زریعے بزور شمشیر حاصل کیے تھے- اور اگر صفت اپنے لشکر اور فوج کی لڑائی اور زور کی بیان کروں تو عجب لگے گا مختصر یہ کہ کسی کو چارہ نہ تھا کہ مجھ سے مقابلہ کرے یا میری فوج کے آگے کھڑا ہی ہو سکے-

اور کہا کہ جتنے برس میں نے بادشاہت کی ایک دن بھی کسی طرح کا رنج و غم مجھ کو نہ ہوا- اور میں جواں مرد و  عالی جمال اور کمال و خوبی میں بےنظیر تھا- حسن و خوبی اور جمال و کمال میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور جو شخص میری طرف نگاہ کرتا متحیر رہتا- اور ہر روز میں فقیروں محتاجوں کو ہزار دینار دیتا- اور بھوکوں کو کھانا کھلاتا اور ننگوں کو کپڑا دیتا- اور تمام خلق مجھ سے خوش تھی- اس سب کے باوجود مجھ میں ایک برائی تھی کہ میں اللہ کو نہیں مانتا تھا اور میں اور میری قوم بت پرست تھی- گو اللہ نے ہماری طرف نبی بھیجے لیکن ہم نے ان کو جھٹلایا اور اپنے آباو اجداد کے دین یعنی بت پرستی کو ہی اپنا شیوہ بنائے رکھا-

چنانچہ حضرت عیسی سے جب یہ سب حال اس سر بودیدہ نے بیان کیا- تب حضرت عیسی نے اس سے پوچھا اے شخص یہ بتا کہ تجھے مرے ہوئے آج کتنا عرصہ ہوا- اور یہ کہ تو کس حال میں مرا یعنی اپنے مرنے کا حال بیان کر اور یہ بتا کہ ملک الموت کو تو نے کس شکل و صورت اور ہئیت میں دیکھا سو سب بیان کر- تب اس نے بیان کہ اے پیغمبر خدا آج میرے مرنے کو سو برس پورے ہوئے- اور اب میں اپنے مرنے کی وجہ بیان کیے دیتا ہوں بات یوں ہوئی کہ ایک دن میں موسم گرما میں اپنے تخت پر بیٹھا شاہی امور سر انجام دیتا تھا اور میرے غلام خدام سب دست بستہ حاضر خدمت میں کھڑے تھے- تبھی گرمی کی شدت میرے سر کو چڑھ گئی اور اس وجہ سے مجھے سر میں شدید درد کا احساس ہوا- پس میں سب کچھ چھوڑ کر اپنی آرام گاہ میں آ گیا- لیکن میرے تمام اعضاء میں اس قدر سستی چھا گئی تھی کہ طبیعت میری بےمزہ ہونے لگی- چنانچہ جب کسی طور آرام نہ آیا اور طبیعت مزید بگڑنے لگی حال میرا متغیر ہوا- تب اپنے وزیروں کو بستر کے پاس بلایا اور انہیں اپنی طبیعت کے متعلق بتایا اور حکم کیا کہ میرا علاج کرواو-

تب وزیروں نے طبیبوں کو میرا علاج کرنے کو کہا اور اے نبی اللہ ہزار طبیب میرے خاص طبیب تھے- سبھی طبیبوں کو بلوایا گیا اور ان سے میرا علاج کرنے کو کہا گیا- تب سب طبیبوں نے میری دارو دوا کرنا شروع کر دی اور ہر طبیب نے مقدور بھر کوشش کی کہ میں اس کے علاج سے بہتر ہو جاوں- لیکن کسی بھی علاج سے مجھے کوئی فائدہ نہ پنہچا نہ ہی کو دوا میری بیماری پر کارگر ٹھہری- اور اسی طرح پانچ روز گزر گئے اور حالت میری مزید سے مزید بدتر ہوتی گئی- اور میرا حال یوں تھا کہ زبان بند اور سیاہ ہو گئی تھی-کمزوری اور نقاہت سے بدن تمام کانپنے لگا- آنکھوں میں سیاہی بھر گئی اور روشنی اور نور آنکھوں کا جاتا رہا- کچھ سوجھتا نہ تھا اور زیادہ وقت حالت بیہوشی میں گزرتا- اور جب ہوش آتی تب بھی ہلنے جلنے اور دیکھنے سننے سے قاصر تھا-

پھر اسی طرح ایک دن اسی حالت بیہوشی میں میں نے آیک ہیبت ناک آواز سنی جو کہہ رہی تھی کہ روح جمجاہ کی قبض کر کے دوزخ میں ڈال دو- پھر بعد ایک لحظہ کے میں نے مالک الموت کو دیکھا- بہئیت و شکل سہمناک ایسی کہ سر ان کا آسمان پر اور پاوں تخت الثری میں میرے سامنے آ کے کھڑے ہوئے- اور کئی منہ ان کے تھے میں نے دیکھا- اور مارے ڈر کے میں نے ان سے بہت فریادیں اور آہ و زاری کی لیکن انہوں نے نہ سنی- تب حضرت عیسی نے فرمایا اے جمجاہ کیا تم نے مالک الموت سے اتنے منہ ہونے کے سبب دریافت نہ کیا تھا- تب جمجاہ نے کہا اے نبی اللہ میں نے اس کا سبب پوچھا تھا- مالک الموت نے یوں بیان کیا کہ سامنے کے منہ سے کہ جو شکل نیک بزرگ کی ہے اس سے جان مومنوں کی قبض کرتا ہوں- کہ جب مومنوں کی جان قبض کرتا ہوں تو ان کے سامنے نیک بزرگ کے آتا ہوں کہ میری شکل سے خوف نہ کھائیں- اور داہنی طرف کے منہ سے باشندگان عالم سماوات کی ارواح قبض کرتا ہوں- اور جو منہ پیچھے اور بائیں جانب ہیں کہ جن کی ہیبت اور صورت انتہائی خوفزدہ کر دینے والی ہے ان سے کافروں اور مشرکوں کی جان قبض کرتا ہوں کہ ان کے لیے موت بھی ایک عذاب کی صورت اترتی ہے-

تب حضرت عیسی نے فرمایا اے جمجاہ موت تجھ پر کیسے آئی اور کس طرح سے تیری جان قبض ہوئی وہ بیان کر اور یہ بھی کہ جان کنی کی حالت میں تجھ پر کیا حال گزرا- تب اس نے کہا اے نبی اللہ میں نے عزرائیل کو دیکھا اس حالت میں کہ ان کے ساتھ کئی ہزار فرشتے تھے- اور ان مں کئی کے ہاتھوں میں آگ کے گرز اور کسی کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی اور کسی کے پاس آگ کی تلواریں اور کچھ آگ کے شعلے لیے ہوئے تھے- اور سب سے پہلے وہ آگ کے شعلے میرے بدن میں ڈال دئیے- اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس سے تیزتر تپش اور بھڑکنے والی آگ دوسری کوئی نہ ہو گی- اور اگر اس آگ کی ایک چنگاری زمین پر ڈال دی جائے تو ساری زمین اور تمام عالم اس کی تپش سے جل کر راکھ ہو جائے-

تبصرے بند ہیں۔