انسان اور زمین کی حکومت (قسط 11)

رستم علی خان

اسکے علاوہ عرب کے قبائل طلسم اور عمیم لوز بن سام بن نوح میں سے تھے- ثمود اور جرمین قبائل جاثر بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد سے تھے- عاد اور عبیل وغیرہ عوز بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد سے تھے-

اس کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے دو بڑی اہم اور نمایاں قومیں یا قبیلے عاد اور ثمود تھے- عاد کو عاد ارم ہی کہتے تھے اور جب یہ حضرت ھود علیہ السلام کی فرمانبرداری نہ کرنے کی بنا پر تباہ ہو گئے تو ثمود کو ثمود ارم کہا جانے لگا- جب یہ قوم بھی تباہ ہو گئی (جس کا تذکرہ ان شآء اللہ آگے آئے گا) تو اولاد ارم کو ارماں کہنے لگے- کہ یہی ارماں ہی بعد میں قبطی کہلائے- ان سب کا دین اسلام تھا اور بابل ان سب کا مقام تھا، یہاں تک کہ نمرود کوش بن کنعان بن ہام بن نوح فرمانروا ہوا- انہیں بت پرستی کی دعوت دی اور سب نے نمرود کی بات مانتے ہوئے بت پرستی شروع کر دی- آخر یہ واقعہ پیش آیا کہ شام میں بسنے والے لوگ جو سریانی زبان بولتے تھے اللہ نے ان کی ایسی حالت کی، صبح آئی تو خدا نے ان کی زبانیں بدل دیں اور ایسی بدلیں کہ ایک دوسرے کی سمجھ نہ آتی-

مورخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت نوح کی نسل میں خدا نے زبانیں بدلیں تو اولاد سام کی اٹھارہ زبانیں ہو گئیں-اولاد یافث کی چھتیس اور اولاد ہام کی بھی اٹھارہ زبانیں ہو گئیں-

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابل سے نکل کر حضرت نوح کے بیٹے سام کی اولاد نے ارض مجدل میں قیام کیا اور یہی زمین کی ناف کہلاتی ہے- یہ وہ زمین ہے کہ ایک طرف تو سمندر ہے اور دوسری طرف یمن شام تک بیچوں بیچ واقع ہے- یہی وہ قوم ہے جسے اللہ تعالی نے پیغمبری، نبوت، شریعت، حسن و جمال، گندم گونی اور گورا رنگ عنایت فرمایا-

جہاں تک حضرت نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے ہام کی بات ہے تو بنی ہام اس علاقے میں فروکش ہوئے جہاں باد جنوب اور مغربی ہوائیں چلتی ہیں- اس گوشہ زمین کو داروم کہتے ہیں- اللہ تعالی نے ان میں کچھ گندم گونی اور بقدرے قلیل گورا رنگ رکھا- ان کے علاقے آباد موسم شاداب طاعون ان کی زمین میں اکثر ہوتا تھا-

نمرود جو حضرت نوح کے علاقے دجلہ اور فرات کے دوآبہ میں بعد کے دور میں حکمران رہا، وہ نمرود بن کوش بن کنعان بن ہام بن نوح کی نسل سے تھا- نمرود ہی فرمانروائے بابل تھا اور اسی کے ساتھ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا واقعہ پیش آیا جو آگے زکر ہو گا ان شآء اللہ-

جب کہ حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد نے صفون کی سرزمینوں میں اقامت اختیار کی جہاں شمالی اور مشرقی ہوائیں چلتی ہیں- ان میں سرخی مائل سیاہی کا رنگ غالب ہے- اللہ تعالی نے ان کے علاقے الگ کر دئیے یہی وجہ ہے وہاں سخت سردی پڑتی ہے- ان کی فضا بھی الگ تھلگ رکھی ہے- حضرت نوح کے بیٹے یافث کی نسل سے رومن وغیرہ فنی بن یونان یا یاوان بن یافث بن نوح کی نسل سے ہیں- اور بعض روایات کے مطابق یاجوج ماجوج بھی حضرت نوح کے اسی بیٹے کی نسل سے تھے جن کا تذکرہ بھی انشآء اللہ آگے کی قسطوں میں آئے گا-

یوں حضرت نوح کے بعد ان کے بیٹے اپنے اپنے قبیلوں کو لے کر مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے- اس طرح زمین کے وسیع خطے آباد ہونا شروع ہو گئے- گاوں بننے لگے- جہاں پانی میسر تھا یا دریاوں کے کنارے بڑے بڑے شہر آباد ہونے لگے- اس طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں کی وجہ سے زمین آباد ہونا شروع ہو گئی۔

ہم نے دیکھا کہ کس طرح اللہ تبارک وتعالی نے مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا پھر انہیں مقام عطا فرمایا کہ فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا- سب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا لیکن ابلیس لعین نے انکار کیا اور وہ اپنے مقام اور مرتبے کی بنا پر متکبر ہوا تو اسے ہمیشہ کے لئیے مردود کر دیا گیا- بیشک تکبر اور بڑائی اللہ ہی کے لئیے ہے-

تب شیطان ملعون نے اللہ سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی اس تخلیق کو بہکائے گا اور انہیں گمراہی و نافرمانی پر اکسائے گا- بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے-

اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے اماں حوا کو پیدا فرمایا- یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کے بارے میں اتنا پردہ رکھا کہ فرشتوں کو بھی لاعلم رکھا کہ اسے کون سی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے- بعد اس کے اللہ تعالی نے انہیں جنت میں داخل کیا اور فرمایا یہاں رہو جنت کی ساری نعمتیں تمہارے لئیے ہیں لیکن ایک شجر سے منع کر دیا کہ اس کے قریب نہ جانا ورنہ نافرمانوں میں سے ہو گے- کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ہر چیز عنایت فرما کر کسی بہت پیاری چیز کو ہم سے روک لیتا ہے کہ میرا بندہ اس میں کیا کرتا ہے کیا وہ میری دی ہوئی نعمتوں پر شکر کرتا ہے یا کہ نہ ملنے والی چیز کے لئیے میری ناشکری کرتا ہے- اور بیشک شکر کرنے والے بہتر ہیں- شیطان نے انہیں (آدم و حوا) کو بہکایا کہ اگر تم یہ پھل کھا لو گے تو تمہیں ہمیشگی کی زندگی اور نعمتیں اور طاقت و قوت سب ملے گا- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کی چالیں اور بہکاوے ہمیشہ انسان کو ظاہری فائدہ دکھاتے ہیں اور انسان دھوکے میں آ کر جب غلطی کر بیٹھتا ہے تو پھر اللہ کی نظروں میں بھی نافرمان ہو جاتا ہے- اسی طرح جب ادم و حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر وہ پھل کھایا تو اللہ نے انہیں جنت سے نکال دیا اور زمین پر پھینک دیا- بیشک اللہ نافرمانوں کو سخت سزا دینے والا ہے-

اللہ نے انہیں زمین پر پھینکا ان سے جنت کی مراعات چھین لی گئیں لیکن ساتھ ہی رحم بھی کیا کہ توبہ کا دروازہ کھول دیا- بیشک اللہ اپنے بندے سے ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے- حضرت آدم نے اللہ سے توبہ کی تو اللہ نے انہیں معاف فرما دیا…بیشک درگزر کرنا شان ربی ہے-

بعد اس کے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اب زمین پر رہو اور زمین سے کھاو پئیو اور فائدہ حاصل کرو اور خبردار شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے- ایک وقت مقررہ کے بعد ہم تمہیں اپنے پاس واپس بلائیں گے اور تمہارے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا معاملہ ہو گا-

اور پھر اللہ نے ان (آدم و حوا) کی نسل سے زمین کو آباد کیا-

بعد اس کے شیطان نے پھر نسل آدم میں خرابی کی اور دو بھائیوں میں سے ایک کے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی اور قابیل سے اسی حسد میں ہابیل کو قتل کروا دیا- بیشک حسد شیطان کی چالوں میں سے بہت بری چال ہے-

اللہ تبارک وتعالی نے بنی نوع آدم کی بھلائی اور بہتری کے لئیے اپنے برگزیدہ بندوں کو نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے انسانوں کی ہدایت اور بہتری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور بیشک وہی لوگ کامیاب ہیں جنہوں نے نبیوں کا کہا مانا اور اللہ کی طرف آئے اور شیطان مردود کو اس کی چالوں میں ناکام کیا-

بیشک شیطان ہمیشہ سے انسان کا دشمن رہا ہے اور وہ نیکی کے لبادے میں انسان سے شرک جیسے کبیرہ گناہ کروا دیتا ہے- اسی طرح شیطان نے ایک قوم کے پانچ نیک بزرگوں کی وفات کے بعد قوم کو ان کی قبرپرستی کی طرف مائل کیا کہ تم تو بس ان کی قبروں پر اس لئیے جاو کہ تم میں بھی عبادت کا شوق پیدا ہو اور یہ تمہارے لئیے وسیلہ بنیں گے کہ تمہاری عبادتیں اللہ کے ہاں جلد منظور ہو جایا کریں-

جب لوگ قبر پرستی کی طرف مائل ہو گئے تو شیطان نے دوسری چال چلی اور انہیں ان کے مجسمے بنا دئیے کہ انہیں دیکھ کر عبادت کا شوق اور رغبت اور بھی بڑھے- اور جب نسلیں بدلیں تو اس نے نئی نسلوں کے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ یہی تمہارے خدا ہیں اور یہی ہیں جن سے تمہارے آباو اجداد مانگا کرتے تھے- اس طرح ساری قوم بت پرستی کی طرف مائل ہو گئی- یہاں پر دو باتیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک تبلیغ کی اہمیت کہ اگر وہ لوگ اپنی نسلوں تک صحیح بات کی تبلیغ کر کے جاتے تو شائد وہ لوگ اس طرح بت پرستی کی طرف مائل نہ ہوتے- اور دوسری بات کہ بت پرستی کی ابتدا اولیاء اللہ اور نیک و برگزیدہ بندوں کی قبروں سے ہی شروع ہوئی- جس کا مطلب صاف ہے کہ نیک اور برگزیدہ بندوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لینا یا سمجھنا ناقص العقل لوگوں کا وطیرہ ہے- بیشک عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے- اور اس بات پر اولیاء اللہ ہی کو برا بھلا کہنا اور اول فول بولنا کہ یہ سب انہیں لوگوں کی وجہ سے ہے یا یہ کہ بزرگ اور اولیاء کو سرے سے ماننا ہی غلط ہے یہ بھی ناقص العقل بات ہے… اللہ تعالی ہمیں اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کا ادب و احترام کرنے والا اور اپنے پیارے حبیب صلعم کی تعالیمات کی پیروی کرنے والا اور حق سچ کی تلقین و ترغیب کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب۔

پھر اللہ جلاشانہ نے بنی نوع انسان پر رحم کیا اور حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجھا- انہوں نے 950 سال تبلیغ اور دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیا لیکن بمشکل 80 82 لوگ ایمان لائے- یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق اور سچ کے لیئے کبھی کبھی صدیوں محنت بھی کرنی پڑتی ہے- اس میں جلدی جلدی سب نہیں ہوتا مصائب آلام رنج سبھی جھیلنا پڑتا ہے- بیشک حق کا راستہ مشکل ہے لیکن اس کی منزل پر آسانیاں ہیں-

نبی اللہ کی اس قدر محنت پر بھی وہ لوگ نہ سمجھے تو اللہ نے ان پر قحط سالی جیسے عذاب بھیجے- تب حضرت نوح نے کہا اب بھی وقت ہے استغفار کر لو پر گمراہی میں ڈوبے لوگ نہ مانے- یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بعض اوقات پریشانیاں اور دکھ، آزمائش نہیں بلکہ اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں- اور ان کے لئے آسان سا حل ہے کثرت استغفار اور بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے-

جب وہ لوگ بلکل نہ مانے اور نہ ماننے والے تھے تو اللہ نے سرکشوں پر عذاب بھیجا اور ہر طرف سے پانی ابل پڑا آسمان کے علاوہ زمین میں سے بھی پانی نکلنے لگا اور ہر چیز غرق ہوئی- سوائے ان کے جو کشتی نوح کے سوار تھے- بیشک اللہ جسے بچانا چاہے اسے کائنات کی کوئی چیز نقصان نہیں پنہچا سکتی-

بعد اس کے جب زمین بلکل صاف ہو گئی تو اللہ تبارک وتعالی نے اولاد نوح سے زمین کو پھر آباد کیا- بیشک اللہ جب چاہے کائنات کو مٹا کر دوبارہ بنا دے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔