ریاست ہائے متحدہ امریکہ

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

          ریاست ہائے متحدہ امریکہ جسے مختصر طور پر امریکہ بھی کہاجاتاہے، کرہ ارضی کے براعظم شمالی امریکہ میں واقع ہے۔ یہ پچاس ریاستوں کا مجموعہ ملک ہے جن میں سے اڑتالیس ریاستیں باہم جڑی ہیں اور براعظم کے عین وسط میں قائم ہیں جبکہ ایک ریاست ”الاسکا“شمال مشرق کے انتہائی آخری کونے پر واقع ہے اور ”ہوائی“کی ریاست جزیرے کی شکل میں سمندر کے اندر واقع ہے۔ امریکہ کے شمال میں کینیڈاواقع ہے، مشرق میں بحراوقیانوس ہے، جنوب میں ”میکسیکو“اور خلیج ہے اور مغرب میں بھی بحرالکاہل کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریہ کا دارالحکومت”واشنگٹن“ہے۔ مملکت کا کل رقبہ سینتیس لاکھ مربع میل سے کچھ کم ہے، اس لحاظ سے امریکہ دنیاکا چوتھابڑاملک ہے۔ ایک زمانے تک یہاں پر انڈین ثقافت رائج رہی ہے، ابھی تک بھی اسکی باقیات کہیں کہیں موجود ہیں۔ تاریخ میں امریکہ کے اس خطہ کو کئی دفعہ دریافت کیاگیا تاہم کولمبس کی دریافت آخری ثابت ہوئی اور اس وقت ڈیڑھ لاکھ افراد یہاں پر آباد تھے، ایک اندازے کے مطابق کولمبس سے پہلے کم و بیش بیس ہزارسال قبل ایشیاسے آئے ہوئے قبائل نے اس جگہ کو آباد کیا تھا۔ مورخین قیاس کرتے ہیں کہ یہ لوگ سب سے پہلے سمندر کے راستے شمالی امریکہ میں وارد ہوئے تھے اور پھر پھیلتے پھیلتے پورے براعظم میں بسنے لگے۔ یورپی فاتحین کی آمد کے وقت کم و بیش پورا براعظم انڈینز کے زیر تسلط تھا۔

          دنیاکی قدیم تاریخ میں امریکہ ایک نوزائدہ مملکت ہے جس کی کل سیاسی عمر محض دوصدیوں سے کچھ زائد ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے بہت تیزی سے دنیاکے گلوب پر اپنی ترقی کے نقوش رقم کیے ہیں اور گزشتہ صدی کے آخر میں پوری دنیاپر امریکہ کا سکہ قائم ہوچکاتھا۔ تیرہ ریاستوں کے اتحاد سے امریکہ کی تاسیس ہوئی اور 1803تک براظم کی وسعت امریکی حکومت کی قلمروسے شرمارہی تھی۔ انیسویں صدی کے وسط تک دیگر دنیاؤں سے آئے ہوئے لوگ یہاں آباد ہونے لگے اور رفتہ رفتہ خوشحالی نے جیسے ہی امریکہ کا راستہ دیکھا تو دنیاکے بھر سے بے شمار لوگ جوق درجوق یہاں امڈنے لگے اور یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ دیگر اقوام کے برعکس یہاں کے لوگ ماضی قدیم سے سلسلہ جوڑنے کی بجائے اپنے آپ کو امریکن کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں کیونکہ یہاں دنیاکی تمام اقوام، تمام مذاہب اور تمام علاقوں کی نمائندگی موجود ہے اور باہمی شادیوں کے باعث قسم قسم کی مشترک نسلوں، رنگوں اور زبانوں کے لوگ یہاں نظر آتے ہیں گویا امریکی معاشرہ دنیا میں اپنی نوعیت کاواحد معاشرہ ہے۔ امریکی حکومت کسی خاص مذہب کی سرپرستی نہیں کرتی تاہم رومن کیتھولک مذہب کی اکثریت یہاں موجود ہے جبکہ مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد امریکہ میں بستی ہے اور دیگر بہت سے مذاہب کے ساتھ ساتھ یہودی اگرچہ تعدادمیں کم ہیں لیکن انہوں نے پورے امریکہ کو اپنی مٹھی میں بندکیاہواہے۔ امریکہ دنیاکادوسرا سب سے بڑا تیل پیداکرنے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ کاپر، میگنیشیم، قلعی، زنک اور سونے کے بھی قابل قدر ذخائر قدرت نے اس زمین میں پوشیدہ رکھے ہیں۔ مملکت کانصف سے کچھ کم علاقہ زراعت کے لیے استعمال کیاجاتا ہے، تمباکو، کپاس، مکئی اور گندم امریکہ میں بہت کثرت سے کاشت کی جانے والی فصلیں ہیں۔ پوری دنیاکی طرح یہاں بھی دیہی علاقوں میں جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے اور جدید طرز کے بڑے بڑے فارم ہاوسز موجود ہیں۔ امریکہ کا شمالی علاقہ بہت بڑے بڑے جنگلات سے بھرا ہے ان میں سے نصف کے قریب جنگلات نجی ملکیتوں میں ہیں اور بقیہ سرکاری تصرف میں ہیں امریکہ کی لکڑی کی ضروریات کافی حد تک انہیں جنگلات سے پوری کی جاتی ہیں۔

          ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دستوروہ قدیم ترین دستور ہے جو آج بھی رائج ہے۔ یہ دستور1788ء کو لکھا گیااور1789کومملکت کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اسے ملک میں نافذ کیا۔ دستورکی دفعہ پانچ میں ترمیم کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ دو صدیوں سے طویل تر سفر کی اس تاریخ میں کل ستائس مرتبہ اس دستور میں ترمیم کی گئی ہے۔ اسے اس طرح سے مرتب کیاگیا ہے کہ اس میں بہت سے اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہیں اور یہ دستورمملکت کی تمام ریاستوں کو متحد رکھنے کا ضامن ہے۔ قومی حکومت کا مرکزی ڈھانچہ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ پر مشتمل ہے، ان میں سے کوئی ادارہ بھی دوسرے کا ماتحت نہیں ہے اور کلی طور پر تینوں ادارے اپنے اپنے فرائض کی بجاآوری میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔

          انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیدائشی طور پر امریکہ کا شہری ہو اور اسکی عمرکم از کم پنتیس سال ہو اور وہ گزشتہ چودہ سال کی مدت سے امریکہ میں ہی مقیم ہو۔ امریکی صدر الیکٹوریل کالج کے نظام کے تحت چار سالوں کے لیے منتخب کیاجاتاہے۔ 1951میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب ایک صدر زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہی منتخب کیاجا سکتاہے۔ سرکاری طورپر صدر کی رہائش گاہ ”وائٹ ہاوس“ہوتی ہے جس میں رہنا امریکی صدرکا استحقاق منصبی ہے۔ صدر مملکت، امریکی دستورکے مطابق ملک کی افواج کاآئینی سربراہ ہوتاہے، اعلی عدلیہ کے ججوں، دوسرے ملکوں میں امریکی سفیروں اور صدارتی محکموں کے سربراہوں کا تقرر کرتا ہے۔ جملہ معاہدات اور بیرونی دنیاؤں سے تعلقاے کے ساتھ ساتھ قانون سازی کی نگرانی بھی صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ امریکی کابینہ کے ارکان کا تقرربھی صدر ہی کرتا ہے لیکن اس کے لیے وہ سینٹ سے مشورے کا پابند ہوتاہے اور اسی طرح وہ وزرا کوانکے عہدوں سے برخواست بھی کر سکتاہے۔ مرکزی انتظامیہ کے اندرکچھ ایسے محکمے اور ادارے بھی آتے ہیں جنکے سربراہان کا تقرر بھی صدر ہی کرتا ہے اور انکی تقرری کی توثیق سینٹ سے کرائی جاتی ہے لیکن انکی برخواستگی کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ ادارے زیادہ تر عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ امریکی ریاستیں اپنے گورنروں کے تحت کام کرتی ہیں انکے ہاں بھی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ہوتی ہے اور ہر ریاست کا اپنا آئین بھی موجود ہے۔ ہرریاست میں شہری حکومتوں کا نظام بھی کارفرماہے جس میں منتخب افراد حکوتی مشینری کے ساتھ مل کر کاروبار ریاست چلاتے ہیں۔

          امریکی کانگریس قانون سازی کاکام کرتی ہے، مقننہ کایہ ادارہ دوایوانوں پر مشتمل ہے، سینٹ اور ایوان نمائندگان۔ ایوان نماندگان میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نشستیں مل جاتی ہیں، آبادی میں کمی بیشی سے نشستوں کی تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ایوان نمائندگان کی رکنیت کے لیے امیدوارکم از کم پچیس سال کی عمرکا ہونا، اس ریاست کا رہائشی ہونا اور کم ازکم گزشتہ سات سالوں سے امریکہ میں ہونا ضروری ہے۔ ان ارکان کو دوسالوں کے لیے منتخب کیاجاتا ہے اور جتنی دفعہ چاہیں لوگ انہیں منتخب کرسکتے ہیں۔ امریکی سینٹ میں ہر ریاست سے دو شہری لیے جاتے ہیں، سینٹ کے امیدوار کے لیے متعلقہ ریاست کا شہری ہونا، کم ازکم تیس سال کی عمراور گزشتہ نوسالوں سے امریکہ میں ہونا ضروری ہے۔ سینٹ کے اراکین کا انتخاب چھ سالوں کے لیے ہوتا ہے اور ہر دوسالوں بعد ایک تہائی اراکین کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے اور ایک سینٹر جتنی دفعہ لوگ چاہیں منتخب ہوسکتاہے۔ جملہ قوانین کی منظوری کے لیے دونوں اداروں سے متعلقہ قانونی بل کا منظور ہونا ضروری ہے۔ یہ ایوان زیادہ تر مالیات اور سیاسی معاملات سے ہی بحث کرتے ہیں تاہم جنگ کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینابھی مقننہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ امریکی صدر کے مواخذہ کااختیار بھی انہیں دونوں اداروں کے پاس ہے۔ ایوان نمائندگان صدر کے خلاف مواخذہ کا بل پیش کرتاہے جبکہ سینٹ میں اس پر بحث کی جاتی ہے اور صدر سمیت کسی بھی بڑے سرکاری عہدیدارکودوتہائی کی اکثریت سے اسکے منصب سے علیحدہ کیاجاسکتاہے۔ امریکی عدلیہ میں سب سے اعلی ادارہ سپریم کورٹ ہے۔ اس عدالت کو اختیارحاصل ہے کہ یہ آئین کی تشریح کرتی ہے اور دیگروفاقی نوعیت کے قوانین کی توضیح بھی کرتی ہے۔ چیف جسٹس سمیت امریکی سپریم کورٹ میں نو ججزہوتے ہیں، صدر مملکت ان ججوں کی تقرری میں سینٹ کی منظوری کا پابندہوتاہے۔ اسی طرح ہر ریاست میں عدلیہ کاذیلی نظام موجود ہے۔

          محققین کے مطابق افریقی ممالک کے راستے اسلام کی کرنیں امریکہ میں پہنچیں، امریکہ کی بعض ریاستوں میں مسلمانوں کے خاندانوں نے ایک طویل عرصہ تک حکومتیں بھی کی ہیں۔ ان حکومتوں کی باقیات اور انکی عمارات کی نشانیاں آج بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن دنیاکے دیگر علاقوں کی طرح مغربی استعمار نے امریکہ میں مسلمانوں کانام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کی اور بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ یہ جامعات کے طالب علموں کا کام ہے کہ وہ تحقیق کرکے اس بات کاکھوج لگائیں کہ امریکہ میں اندلس جیسے حالات کب اور کیسے پیداہوئے۔ تاہم موجودہ امریکہ میں اسلام کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے یہاں پر آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعدادموجود ہے اور ان کی بہت بڑی بڑی تنظیمیں ہیں اور ان تنظیموں کے تحت چلنے والے متعدد ادارے بھی ہیں جن میں مسلمانون نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیاجاتاہے۔ گیارہ ستمبرکے طے شدہ واقعے کے بعد پہلے اسلامی تعلیمات کے بارے میں جن کتب فروشوں اور جن لائبریریوں میں محض ایک الماری ہوا کرتی تھی وہاں اب کمرے کے کمرے اسلام سے متعلقہ کتب سے بھرے پڑے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔

تبصرے بند ہیں۔