انسان اور زمین کی حکومت (قسط 121)

رستم علی خان

قریش کے ظلم و تعدی کا بادل جب پیہم برس کر نہ کھلا تو رحمت عالمﷺ نے جاں نثاران اسلام کو ہدایت کی کہ "حبش” کو ہجرت کر جائیں، حبش قریش کی قدیم تجارت گاہ تھا، وہاں کے حالات پہلے سے معلوم تھے، اہل حبش کے فرماں روا کو "نجاشی” کہتے تھے اور اس کے عدل و انصاف کی عام شہرت تھی-

گو جاں نثاران اسلام ہر قسم کی تکلیف جھیل سکتے تھے، اور ان کا پیمانہ صبر لبریز نہیں ہو سکتا تھا، لیکن مکہ میں رہ کر فرائض اسلام کا آزادی سے بجا لانا ممکن نہیں تھا، اس وقت تک حرم کعبہ میں کوئی شخص باآواز بلند قرآن نہیں پڑھ سکتا تھا۔ "عبداللہ بن مسعود رضی اللہ” جب ایمان لائے تو انہوں نے کہا میں اس فرض کو ضرور ادا کروں گا- لوگوں نے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے، حرم پاک میں گئے اور مقام ابراہیم والی جگہ پر کھڑے ہو کر سورہ رحمن پڑھنی شروع کی، کفار ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کیے، اگرچہ انہوں نے جہاں تک پڑھنا تھا پڑھ کر دم لیا، لیکن جب واپس گئے تو چہرے پر زخموں کے نشان لیکر گئے- (حضرت ابوبکر، جاہ و اقتدار میں دیگر روسائے قریش سے کم نہ تھے، لیکن آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے، اسی بنا پر ایک بار ہجرت کا ارادہ بھی فرمایا-)

اس کے علاوہ ہجرت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی تھا کہ جو شخص اپنے دل میں اسلام کا نور لیکر جاتا وہاں بھی نور اسلام کی شعائیں پھیلنا شروع ہو جاتیں۔ غرض آنحضرتﷺ کی ایما سے اول اول گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت فرمائی۔ جن کے نام یوں ہے؛ "حضرت عثمان بن عفان مع اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ کے جو آنحضرتﷺ کی بیٹی تھیں”، "حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ مع اپنی زوجہ کے جن کا نام حضرت سہلہ بنت سہیل تھا”، "حضرت زبیر بن العوام”، حضرت مصعب بن عمیر”، "حضرت عبدالرحمن بن عوف”، "حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی مع اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ کے”، "حضرت عثمان بن مظعون”، "حضرت عامر بن ربیع مع اپنی زوجہ کے جن کا نام حضرت لیلی تھا”، "حضرت ابوسبرہ بن ابی رہم”، "حضرت حاطب بن عمرو یا حضرت سہیل بن بیضاء” اور "حضرت عبداللہ بن مسعود” رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

ان لوگوں نے پانچ نبوی ماہ رجب میں سفر کیا۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ یہ جب بندرگاہ پر پہنچے تو تجارتی جہاز حبش کو جا رہے تھے- جہاز والوں نے سستے کرایہ پر ان کو بٹھا لیا، ہر شخص کو پانچ درہم ادا کرنے پڑے۔ قریش کو جب خبر ہوئی تو بندرگاہ تک تعاقب میں آئے لیکن تب تک جہاز نکل چکا تھا-

عام مورخین کا خیال ہے کہ ہجرت انہی لوگوں نے کی جن کا کوئی حامی اور مددگار نہیں تھا، لیکن فہرست مہاجرین میں ہر درجہ کے لوگ نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان، بنو امیہ سے تھے جو سب سے زیادہ صاحب اقتدار خاندان تھا۔ متعدد بزرگ مثلا حضرت زبیر اور حضرت مصعب بن عمیر خود آنحضرتﷺ کے خاندان سے ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف اور ابوسبرہ معمولی لوگ نہیں تھے۔ اس بنا پر زیادہ قریں قیاس یہ ہے کہ قریش کا ظلم و ستم بےکسوں پر محدود نہ تھا، بلکہ بڑے بڑے خاندانوں والے بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ مظلوم تھے اور جن کو انگاروں کے بستر پر سونا پڑتا تھا، یعنی "حضرت بلال، عمار، یاسر وغیرہ، ان لوگوں کا نام مہاجرین حبش کی فہرست میں نظر نہیں آتا۔ اس لیے یا تو ان کی بےسر و سامانی اس حد کو پہنچی تھی کہ سفر کرنا بھی ناممکن تھا، یا یہ کہ درد کے لذت آشنا تھے اور اس لطف کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے.

نجاشی کی بدولت مسلمان حبش میں امن و امان کی زندگی بسر کرنے لگے، لیکن کفار مکہ یہ خبریں سن سنکر پیچ و تاب کھاتے تھے، آخر یہ رائے ٹھہری کہ نجاشی کے پاس سفارت بھیجی جائے کہ ہمارے مجرموں کو اپنے ملک سے نکال دو- عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص اس کام کے لیے منتخب ہوئے- نجاشی اور اس کے درباریوں میں سے ایک ایک کے لیے گراں بہا تحفے مہیا کیے گئے اور نہایت سر و سامان سے یہ سفارت حبش کو روانہ ہوئی- یہ سفیر نجاشی سے پہلے درباری پادریوں سے ملے اور نذریں پیش کیں اور کہا کہ ہمارے شہر کے چند نادانوں نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے، ہم نے ان کو نکال دیا جو آپ کے ملک میں بھاگ آئے ہیں، ہم بادشاہ کے دربار میں ان کے متعلق جو درخواست پیش کریں’ آپ بھی ہماری تائید فرمائیں- دوسرے دن سفراء دربار میں حاضر ہوئے اور شاہ حبش کے واسطے لائے گئے قیمتی تحائف اس کی خدمت میں پیش کیے اور پھر گویا ہوئے کہ آپ کے ملک میں جو ہمارے چند مجرم آ کر پناہ گزیں ہوئے ہیں ان کو ہمارے حوالہ کیا جائے- درباری پادریوں نے بھی حسب وعدہ ان کی بات کی تائید کی اور بادشاہ کو قائل کرنے کی کوشش کہ ان کے مجرم ان کے حوالہ کر دئیے جائیں تاکہ قریش مکہ کیساتھ جو ہمارے تجارتی تعلقات ہیں ایسے ہی برقرار رہیں- نجاشی نے کہا یہ ہمارے عدل کے خلاف ہے کہ ہم بنا ان سے پوچھے ان کو ان کے حوالہ کر دیں، پس نجاشی نے مسلمانوں کو بلایا اور ان سے کہا، "یہ تم نے کونسا نیا دین ایجاد کیا ہے جو نصرانیت اور بت پرستی دونوں کے خلاف ہے-"

مسلمانوں نے اپنی گفتگو کرنے کے لیے حضرت جعفر رضی اللہ کو (جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے) کو منتخب کیا، انہوں نے اس طرح تقریر شروع کی؛ "الھم الملک! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، جو بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، قوی لوگ کمزوروں کو کھا جاتے تھے، اس اثناء میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے، اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خونریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، زکوت دیں، ہم اس پر ایمان لائے، شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے باز آئے، اور اس بنا پر ہی ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور اب ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں واپس آ جائیں۔”

نجاشی نے کہا جو کلام الہی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے کہیں سے پڑھ کر سناو- حضرت جعفر نے سورہ مریم کی چند آیتیں پڑھیں- نجاشی پر رقت طاری ہوئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے- اور اس نے کہا؛ "یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں-” یہ کہہ کر سفرائے قریش سے کہا؛ "تم واپس چلے جاو میں ان مظلوموں کو ہرگز تمہارے حوالے نہیں کروں گا-"

دوسرے دن عمرو بن العاص نے پھر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا، "حضور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے کیا اعتقاد رکھتے ہیں ؟” پس نجاشی نے مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ اس کا جواب دیں- ان لوگوں کو تردد ہوا کہ اگر ہم حضرت عیسی کے "ابن اللہ” ہونے کا انکار کرتے ہیں تو نجاشی عیسائی ہے اس بات سے ضرور ناراض ہو گا- حضرت جعفر نے فرمایا کچھ بھی ہو ہمیں سچ ہی بولنا چاہیئے-

غرض یہ لوگ دربار میں حاضر ہوئے، نجاشی نے کہا تم لوگ عیسی بن مریم کے بارے کیا اعتقاد رکھتے ہو ؟ حضرت جعفر نے فرمایا، ہمارے پیغمبر نے بتایا ہے کہ عیسی خدا کا بندہ، پیغمبر اور کلمتہ اللہ ہے- نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا لیا اور کہا، "واللہ جو تم نے کہا عیسی اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ یا کم نہیں ہیں- بطریق جو دربار میں تھے نہایت برہم ہوئے، نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی، لیکن نجاشی نے ان کے غصہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور مسلمانوں کو امان دینے کا اعلان کیا اور سفرائے قریش ناکام و نامراد واپس آئے-

تبصرے بند ہیں۔