نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو

 جمال ؔ کاکوی

نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو

جہاں میں اہل خرد کا بھی احترام نہ ہو

غلام چاند ستاروں کی روشنی محدود

چراغ ڈھونڈھ کے لائیں تو گھر میں شام نہ ہو

خوشی کے گیت پرندہ خوشی میں گاتا تھا

بہار آئی ہے بیچارا زیرِ دام نہ ہو

قفس کے در میرے صیاد نے تو کھول دئے

ملی رہائی ہے جینا مگر حرام نہ ہو

سنے گا سارا زمانہ وہ راہ بر ہوگا

زبان گر کسی انساں کی بے لگام نہ ہو

ترا کرم ہے بندے پہ خاص اے مالک

وگرنہ مجھ سے تودنیا کا کوئی کام نہ ہو

جناب ِشیخ کی مجلس میں تم نہیں جانا

ثواب پینا ہے تیرا کہیں حرام نہ ہو

عدو ہے میرا تو ہنس کر نہ مجھ سے ہاتھ ملا

بغل میں رکھ کے چھری منھ میں رام رام نہ ہو

وطن پہ جائے گی جاں اپنے وطن پہ جائے گی

میں سرخرو رہوں، رسوائی میرے نام نہ ہو

سفید خون ہے جس کا اور قلب سیاہ

ہمارے ہند میں ایسا سفید فام نہ ہو

ہر ایک جرم کی مجرم کو جو سزا مل جائے

یہ ظلم جور مٹے دنیا میں قتل عام نہ ہو

صدائے عام نہیں ہے یہ فکر خاص مری

کلام جب میں پڑھوں محفل میں اِزدہام نہ ہو

نظر چرائے وہ مجھ سے جمالؔ جاتے ہیں

کلام کیسے ہو ان سے اگر سلام نہ ہو

تبصرے بند ہیں۔