روشن ستارے

ناشر: اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ

مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

بچے کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کرنا والدین اور سماج کی ذمہ داری ہے۔ بچہ مادری زبان میں گھر سے تہذیب کے گھونٹ پی کر درس گاہ میں قدم رکھتا ہے۔ اگر اس کی مادری زبان میں ہی اس کی تربیت کا سامان فراہم کیا جائے تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے صدر نشین جناب رحیم الدین انصاری صاحب جب دوسری مرتبہ اردو اکیڈیمی کے صدرنشین نامزد کئے گئے تو اپنا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے اردو اکیڈیمی کی جانب سے فروغ اردو کے مزید نئے کاموں کا آغاز کیا۔ ماہرین اردو زبان‘اساتذہ اور دانشوروں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کئے۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہماری نئی نسل کو اردو زبان اور اس کی تہذیب سے وابستہ کرنے کے لیے بچوں کا ایک دلچسپ اور خوش نما رسالہ جاری کیا جائے۔ اردو اکیڈیمی کی جانب سے پہلے ہی ادبی رسالہ’’قومی زبان‘‘ شائع ہورہا ہے۔ جب بچوں کا رسالہ نکالنا طئے ہوا تو اس کے لیے حیدرآباد کے نامور شاعر جناب سردار سلیم صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں جو روزنامہ اعتماد میں بچوں کا صفحہ ترتیب دیتے ہوئے کافی مقبول ہوچکے ہیں۔ چونکہ بچوں کا رسالہ رنگین نکالنا تھا اس لیے اردو میں رسالے کی تزئین و گلکاری کی خاطر ماہر ڈی ٹی پی جناب محمد منہاج الدین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس طرح جناب رحیم الدین انصاری صاحب کی جستجو اور بچوں کے رسالے کے لیے دستیاب ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ماہ جون سے رسالے کا اجرا عمل میں آیا۔ اور اس کا نام ’’روشن ستارے‘‘ رکھا گیا۔ بچوں کے رسالے کی مناسبت سے یہ نام موزوں دکھائی دیتا ہے۔ اس رسالے کی مجلس مشاورت میں پروفیسر عقیل ہاشمی‘پروفیسر مجید بیدار اور پروفیسر فاطمہ پروین جیسے قابل اساتذہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے نام شامل ہیں۔

چونکہ یہ پہلا رسالہ ہے اس لیے اس میں موجودہ قلمکاروں کی کم تخلیقات دکھائی دیتی ہیں جب کہ اردو میں بچوں کا ادب لکھنے والوں کے انتخابات کو ترجیح دی گئی ہے۔ رسالے کے اندرونی کور پر ستاروں کا البم نام سے چار بچوں کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ اور انہیں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں جب لوگ اپنے بچوں کی تصاویر بھیجنے لگیں تو زیادہ بچوں کی تصاویر شائع ہوسکتی ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے پھول جیسے بچوں کی رنگین تصاویر اس خوبصورت رسالے کی زینت بنے۔ رسالے کا آغاز جناب محمد عبدالوحید صاحب مدیر رسالہ و سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کے اداریے سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اس رسالے کی اجرائی کے لیے جناب رحیم الدین انصاری صاحب کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے سبھی محبان اردو کو فروغ اردو کی اس مہم سے جڑجانے کی اپیل کی ہے۔ رسالے کی ابتداء بچوں کے مشہور ادیب و شاعر اسمعٰیل میرٹھی کی حمد سے ہوتی ہے۔ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا۔ یہ وہ حمد ہے جسے ماضی کے سبھی اردو دانوں نے اپنی ابتدائی درسی کتابوں میں پڑھا ہے۔ حمد کے بعد اقبال کی مشہور دعا’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ کو شامل کیا گیا ہے تاکہ بچوں پر اس دلنشین دعا کے اثرات مرتب ہوں اور وہ اسے پڑھ کر اس دعا کی عملی تصویر بن سکیں۔ حمد اور دعا کے بعد مسعود حسین رضوی ادیب کا تحریر کردہ معلوماتی مضمون پانی کا سفر شامل کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں آسان زبان میں ہمارے ماحول میں پانی کی مختلف حالتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ میں ماحول سے متعلق خوبصورت رنگین تصاویر بھی دی گئی ہیں۔

ایک دلچسپ نظم’’ آتے ہوں گے ابو‘‘ شامل رسالہ ہے۔ جسے سہیل عالم نے لکھا ہے۔ بچوں کو رسالے سے جوڑنے کی خاطر ننھے قلمکار کے نام سے اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں دلچسپ معلومات کو شامل کیا گیا ہے۔ کہانیاں بچے دلچسپی سے پڑھتے ہیں چنانچہ مناظر حسین کی لکھی کہانی تدبیرشامل رسالہ ہے۔ جس میں بچوں کو بری صحبت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس بات کو مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ فردوس بنگلور کی کہانی پیڑ کی فریاد شامل رسالہ ہے جس میں پودے اگانے کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ ہنسو اور ہنسائو سلسلے کے تحت لطائف شامل کئے گئے ہیں۔ اور ان کے بھیجنے والوں کے نام بھی ساتھ میں لکھے گئے ہیں۔ سفید شیر کے عنوان سے معلوماتی مضمون دیا گیا ہے۔ جھوٹی تعریف پر کان نہ دھرو مختصر کہانی کے علاوہ حضرت لقمان کی نصیحتیں از ارشد مبین زبیری‘چالاک درزی حکایت ‘اسمٰعیل میرٹھی کے بارے میں تعارفی مضمون‘ایڈیسن کے بارے میں تعارفی مضمون شامل رسالہ ہیں۔ پروفیسر مجید بیدار کی نظم نرانی غذا غب چپ اور برسات کے نام سے دلچسپ نظمیں شامل کی گئی ہیں رسالے میں بچوں کی دلچسپی کے لیے رنگ بھرو اور راستہ دکھائو جیسے دلچسپ سلسلے شروع کئے گئے ہیں۔ فاروق طاہر تعلیم سے متعلق سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ رسالے کے نام کے عنوان سے چراغ حسن حسرت کی نظم آئو ہم تارے بن جائیں شامل کی گئی ہے۔ عزیز عدنان ملے پلی کی جانب سے اردو کے بارے میں معلوماتی سوال جواب اچھی کوشش ہے۔

مجموعی طور پر رسالہ ننھے ستارے بچوں کے لیے اردو ادب کا بہترین گلدستہ ہے۔ امید ہے کہ جیسے جیسے رسالہ ترقی کرے گا اس میں مزید دلچسپ سلسلے شروع ہوں گے۔ عالمی سطح پر بچوں کے ادب کی مقبولیت پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہیری پوٹر اور کارٹون سیریز کی مقبولیت دکھائی دیتی ہے۔ اردو میں ہیری پوٹر کا سلسلہ وار آسان ترجمہ پیش کیا جائے یا کوئی دلچسپ قسط وار سلسلہ جیسے حاطم طائی کا قصہ‘سند باد جہازی کی داستان یا کوئی اور مشہور سلسلہ شروع کی جائے تاکہ بچوں کا تحیر اور دلچسپی برقرار رہے۔ بچوں کے لیے ذہنی ورزش‘کوئز وغیرہ شروع کیا جائے۔ کسی تجارتی ادارے کی مالی امداد سے انعامی سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ رسالے سے جڑنے لگیں۔ خطوں میں عوامی رائے کو شائع کیا جائے۔ والدین اور اساتذہ اس رسالے کے مطالعے کے لیے بچوں کو وقت فراہم کریں اور ان کی نگرانی کریں کہ وہ کیسے پڑھتے ہیں۔ جب اس رسالے کی تشہیر ہوئی تو مہاراشٹرا سے ایک خریدار نے پہلی اشاعت کی تین ہزار کاپیاں منگا کر اسکولی بچوں میں تقسیم کیں۔ تجویز رکھی گئی کہ اس رسالے کو جس کی قیمت صرف دس روپئے ماہانہ اور سالانہ120روپئے ہے اردو مادری زبان والے سبھی بچوں تک پہونچایا جائے۔ والدین اور اسکول انتظامیہ اس رسالے کو اپنے بچوں کے لیے تحفے کے طور پر خریدیں اور اپنی نگرانی میں اس کا مطالعہ کرائیں۔ اس رسالے میں بچوں کی طرف سے تخلیقات روانہ کریں جس کے لیے ای میل[email protected]دیا گیا ہے۔ اور ادارے کی جانب سے تخلیق کاروں سے اپیل کی گئی ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کیا جائے۔ ایک دور میں جب کہ ٹیلی ویژن اور اسمارٹ فون نہیں تھا ہمارے بچے رسالہ نور‘کھلونا‘ ہلال‘ہادی وغیرہ پڑھ کر اپنے مطالعے کے ذوق کی تکمیل کر تے تھے۔ آج والدین اور سماج کے لیے ایک چیلنج ہے کہ کس طرح ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں سے فون ہٹا کر ان کے ہاتھ میں اس طرح کے رسالے دیں جن کے مطالعے سے ان کی اردو دانی بڑھے گی اور ان کی اخلاق کی تربیت بھی ہوگی۔

مجموعی طور پر رسالہ ننھے ستارے اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کی ایک کامیاب کوشش ہے جس کی اردو حلقوں کی جانب سے پذیرائی ہونی چاہئے۔ رسالے کی خریداری کے لیے سکریٹری /ڈائرکٹر تلنگانہ اسٹیٹ کے نام ڈرافٹ یا منی آڈر بھیج سکتے ہیں۔ امید ہے یہ رسالہ آن لائن بھی رکھا جائے گا تاکہ دنیا بھر کے اردو دان اپنے بچوں کو اسے پڑھنے کے لیے دے سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔