اسلام دین رحمت ہے

عبدالباری شفیق

         دنیا میں جتنے بھی ادیان ومذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سب سے اچھا، اعلیٰ وارفع اور پاکیزہ دین دینِ اسلام ہے۔ یہ ایک آفاقی وہمہ گیر مذہب ہے، اس کی تعلیمات روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے کارآمداور مفیدہیں۔ اس کے تمام احکامات وفرمودات بنی نوع انسان کے لیے باعث رحمت اور خیر وبرکت نیز امن وسلامتی کا ضامن ہیں۔ یہ دین اپنے متبعین وپیروکاروں کو رب العالمین کی اس مقدس اور وسیع وعریض سرزمین پر امن وسلامتی اور خیر وبرکت کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتاہے، اورایسے افراد کی حوصلہ افزائی فرماتاہے جو صلح وآشتی اور اخوت وبھائی چارگی کے ساتھ اس دنیاکے اندر صاف وشفاف زندگی گذارتے ہیں، اپنوں اور غیروں ہر ایک کے ساتھ الفت ومحبت، عدل وانصاف کا غیرجانبدارانہ سلوک کرتے ہیں، والدین، اعزہ واقارب نیز اپنے ہمسایہ کے ساتھ بھائی چارگی کابرتائو کرتے ہیں۔ دنیا میں امن وسلامتی کا بول بالا کرتے اور اس کے پرچارک بن کر دین اسلام کی دعوت دیتے ہیں، عدوات ودشمنی اور آپسی منافرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھائی چارگی کو عام کرتے ہیں، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ اور قتل وخونریزی کو حرام ٹھہراتے ہوئے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ایسے انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ بھی پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہرکارِخیر میں ان کی مددکرتے ہیں۔

 یہ دین امن وسلامتی، صلح وآشتی، عدل وانصاف، عفوودرگذر اور عدم تشدد کا دین ہے، اس دین کو انتہاپسندی یا دہشت گردی سے جوڑناانتہادرجے کی حماقت ہےجو دشمنان اسلام کی ایک سوچی سمجھی سازش اور ان کےتعصب پر مبنی شر انگیز فکرکا نتیجہ ہے۔

 دراصل یہ اسلام جو ’’سلم‘‘ اور یہ ایمان جو’’ امن ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ ہی امن وسلامتی، صلح وآشتی اور بھائی چارگی کے ہوتے ہیں جس کی خمیر میں عدل وانصا ف اور بھائی چارگی رچی وبسی ہے جو اپنوں وغیروں ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کا حکم دیتاہے، جو عداوت ونفرت اور بغض وحسد کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتاہے۔ بھلاایسامذہب انتہاپسندی کی دعوت وترغیب کیسے دے سکتاہےاور دہشت گردوں کی پشت پناہی کیونکر کر سکتاہے ؟ جیساکہ بعض نافہم وتعصب پرست افرادنے یہ اصول بنارکھاہےکہ ’’یہ دین انتہاپسندی کا دین ہے، اور ہرمسلمان دہشت گرد نہیں، لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہے‘‘۔

 آپ ذرا غور کریں کہ جس مذہب کی تعلیم یہ ہو کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اعضاءوجوارح سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اورجس نے سب کی جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت کی تاکید ی حکم دیتے ہوئے انسان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبروکو شہر حرام اور خانہ کعبہ سے زیادہ معززومحترم قرار دیاہو۔ جس کے پیغامبر امن کے پیغامبر ہوں اور امن وشانتی جن کا مشن ِعظیم رہاہو، وہ لوگوں کی عزت وآبرو ار جان ومال کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی حمایت کیسے کرسکتاہے؟

دین اسلام یہ ایک ایسا آفاقی وہمہ گیر دین ہے جس نے جانوروں اور چرند وں وپرندوں کے ساتھ بھی الفت ومحبت کا درس دیاہےاور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے جنت کی بشارت اور ان کو ستانے وتکلیف دینے پر جہنم کی وعید سنائی ہے۔ ظالم سے ظلم کا بدلہ لینے کی بجائے معاف کردینے کو ترجیح دیاہے، بوڑھوں، بچوں، کمزوروں اور بے سہارالوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرنے کی بجائے ان کو سہارا دینےاور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ایسادین جواپنوں یا غیروں ہر ایک کے ساتھ الفت ومحبت اور بھائی چارگی کا درس دیتاہو، اور وہ دین جو سراپا رحمت اور امن وسلامتی کا ضامن ہو۔ اس میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خمیر کیسے پیدا ہوسکتاہے، وہ دین جو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہے جس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ :﴿ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾( آل عمران:۳؍ ۱۹) اللہ کے نزدیک سب سے پسندید ہ دین مذہب اسلام ہے۔

        وہ دین جس کا آفاقی پیغام کہ: ﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾(بقرۃ:۲؍۲۵۶)دین کے اختیار کرنے میں کوئی زبردستی نہ ہو۔ اور وہ دین جو ہر ایک کے ساتھ بھائی چارگی کا درس دیتاہو جس میں قتل کو جرم عظیم قراردیاگیاہواور فسادیوں کے لیے سخت سزامتعین ہو، وہ مذہب بھلا کیونکر دہشت گردی کی حمایت کرسکتاہے۔

        ہم اور آپ ذرا غور کریں کہ وہ دین جو سراپا امن وسلامتی کا ضامن اور دین رحمت ہے جس میں انتہاپسندی ودہشت گردی کاکھلے الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، وہ دین اپنے متبعین وپیروکاروں کو دہشت گردی کی تعلیم کیسے دے سکتاہے اور اس کے متبعین انتہاپسند کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ دراصل ہمارے خلاف ایک منظم پلان ہے اور ہماری شبیہ کو بدنام وداغدار کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے یا خطے میں کوئی بھی حادثہ پیش آئے فورا بغیر سوچے سمجھے شک کی سوئی ہماری طرف گھمادی جاتی ہے، پھرہمیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنایاجاتاہے۔ جب کہ تحقیقی ایجنسیاں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان ہمیشہ سے ملک عزیز کاوفاداررہاہے، کیونکہ حقیقی مسلمان کا ان تمام لوازمات وخرافات سے کوئی واسطہ ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن پھر بھی شک کی بنیاد پر ہمیں ٹارچر کیا جاتاہے ہمارے نوجوانوں کو شک کی بنیاد پر جیل کی سلاخوں میں بھیج کر ان کی زندگی کواجیرن و برباد کیاجاتاہے۔ اور ہماری بہن بیٹیوں کی عفت وعصمت کو تار تار کیاجاتاہے، لیکن ہم ہیں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ نہیں کرتے، اپنے کرتوتوں کا جائزہ نہیں لیتے، اپنی دنیا وعاقبت کی فکر نہیں کرتے، اپنے اولاد کی فکر نہیں کرتے، انہیں دینی تعلیم سے روشناس نہیں کرتے، کتاب وسنت کے پیغام کو ان تک نہیں پہنچاتے، ان کے لیے خطبات ودروس کا اہتمام نہیں کرتے، کہ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات سے بہرہ ور ہوکر ان تمام خرافات اور شیطانی مکر وفریب سے اپنے دامن کو مامون ومحفوظ رکھیں، ایسی مشکوک جگہوں پر نہ جائیں جہاں ان کی عزت وآبرو اور دین واسلام محفوظ نہ رہے۔ جب کہ یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ شاذ ونادر ایسے حادثات اور واقعات ہوتے بھی ہیں جن میں ہمارے اپنے بھی ملوث ہوتے ہیں چاہے خواستہ طور پر یا بادل نخواستہ طور پر۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ دین اسلام ایسے احمقوں اور ناہنجار قسم کے لوگوں کو ایسی تخریب کاری یا انتہاپسندی کرنے کا حکم دیتاہے ان کا یہ معاملہ بحیثیت انسان ہوتاہے، بحیثیت مسلمان نہیں۔ اس لیے کہ اسلام تووہ ہے جو جنگوں اور غزوات میں بھی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ ان کی جان کی حفاظت کا تاکیدی حکم دیتاہے، ان کے ساتھ الفت ومحبت اور خیرخواہی کا معاملہ کرنے کا درس دیتاہے اور ایسے ظالموں کے خلاف جو اس روئے زمین پر فتنہ وفسا کو جنم دیتے ہیں اور ایسے گھنائونے اعمال انجام دیتے ہیں جس سے انسانیت شرمسار ہوجائے، اورفتنہ پروروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی تلقین وتاکید کرتاہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (مائدۃ :۵؍۳۳)ترجمہ :’’ان کی سزاجو اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں یہی ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھادیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے جائیں، یاانھیں جلاوطن کردیاجائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑاعذاب ہے‘‘۔

         ان آفاقی تعلیمات کا مقصد جرم کا انسداد ہے اور ظالم کو ظلم سے روکنا ہے اور دہشت گردی جو پوری دنیا کو بھسم کئے جارہاہے ا س کا خاتمہ کرنا ہے اگر انسان ضابطہ الہٰی پر عمل کرے گا اورقانون الہٰی کی پاسداری کرے گا تو دنیا سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور مجرم جرم سے اور ظلم ظلم سے بچے گا، یہی اسلام کا ابدی پیغام ہے۔ اور اسی میں ہم سب کی کامیابی وکامرانی کا اورامن وسکو ن، صلح وآشتی اور بھائی چارگی کا راز مضمرہے۔

تبصرے بند ہیں۔