انسان اور زمین کی حکومت (قسط 121)

رستم علی خان

اسی اثناء میں کسی دشمن نے نجاشی کے ملک پر حملہ کیا، نجاشی اس کے مقابلہ کے لیے خود گیا، صحابہ نے مشورہ کیا کہ ہم میں سے ایک شخص جنگ گاہ میں جائے اور وہاں کی خبر بھیجتا رہے کہ اگر ضرورت ہو تو ہم بھی نجاشی کی مدد کے لیے جائیں۔ حضرت زبیر اگرچہ سب سے کمسن تھے، لیکن انہوں نے اس خدمت کے لیے خود کو پیش کیا- چنانچہ مشک کے سہارے دریائے نیل تیر کر پار کیا اور رزم گاہ میں پہنچے- ادھر صحابہ نجاشی کی فتح کے لیے اللہ سے دعا کرتے تھے- چند روز بعد حضرت زبیر واپس آئے اور خوشخبری سنائی کہ نجاشی کو خدا نے فتح دی-

حبش میں کم و بیش 83 مسلمان ہجرت کر کے گئے- چند روز گزرنے پائے تھے کہ یہ خبر مشہور ہوئی کہ کفار مکہ نے اسلام قبول کر لیا ہے، یہ سنکر اکثر صحابہ نے مکہ معظمہ کا رخ کیا، لیکن شہر کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے- اس لیے بعض لوگ واپس چلے گئے اور بعض چھپ چھپ کر مکہ میں آ گئے-

جو لوگ حبش سے واپس آ گئے تھے قریش نے انہیں اور بھی زیادہ ستانا شروع کر دیا اور اس قدر اذیت دی کہ وہ دوبارہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن اب کی ہجرت کرنا کچھ آسان نہ تھی- کفار نے سخت مزاحمت کی تاہم جس طرح ممکن ہو سکا بہت سے صحابہ جن کی تعداد سو تک پہنچتی ہے مکہ سے نکل گئے اور حبش میں قامت اختیار کی- جب آنحضرتﷺ نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو کچھ لوگ فورا واپس چلے آئے اور جو لوگ رہ گئے تھے آنحضرتﷺ نے 7ھ میں ان کو بھی بلا لیا-

کفار کی ایذا و تعدی اب کمزوروں اور بیکسوں پر محدود نہ رہی تھی- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کا قبیلہ معزز اور طاقتور قبیلہ تھا، ان کے یاور اور انصار بھی کم نہ تھے، تاہم وہ بھی کفار کے ظلم اور شر سے تنگ آ گئے اور حبش کیطرف ہجرت کا ارادہ فرمایا- "برک الغماد” جو مکہ معظمہ سے یمن کی سمت پانچ دن کا راستہ ہے، وہاں تک پہنچے تھےکہ "ابن الدغنہ” سے ملاقات ہو گئی جو قبیلہ "قارہ” کا رئیس تھا، اس نے حضرت ابوبکر سے پوچھا، کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت ابوبکر نے جواب دیا، "میری قوم مجھ کو رہنے نہیں دیتی، چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جا کر خدا کی عبادت کروں۔” ابن الدغنہ نے کہا، "یہ نہیں ہو سکتا کہ تم جیسا شخص مکہ سے نکل جائے، میں تم کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں-” تو حضرت ابوبکر اس کے ساتھ واپس آئے، ابن الدغنہ نے مکہ پہنچ کر تمام سرداران قریش سے ملا اور کہا کہ؛ "تمہیں کیا ہوا کہ ایک ایسے شخص کو نکالتے ہو جو مہمان نواز ہے، مفلسوں کا مددگار ہے، رشتہ داروں کو پالتا ہے، مصیبتوں میں کام آتا ہے-” قریش نے کہا، لیکن شرط یہ ہے کہ ابوبکر نمازوں میں چپکے سے جو چاہیں پڑھیں، آواز سے قرآن پڑھتے ہیں تو ہماری عورتوں اور بچوں پر اثر پڑتا ہے- حضرت ابوبکر نے چند روز یہ پابندی اختیار کی، لیکن آخر انہوں نے گھر کے پاس ایک مسجد بنا لی اور اس میں خضوع و خشوع کے ساتھ باآواز بلند قرآن پڑھا کرتے تھے، آپ نہایت رفیق القلب تھے جب قرآن پڑھتے تو رویا کرتے تھے، عورتیں اور بچے انہیں دیکھتے تو متاثر ہوتے- قریش نے ابن الدغنہ سے شکایت کی، اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ اب میں تمہاری حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا، حضرت ابوبکر نے فرمایا، "مجھ کو خدا کی حفاظت ہی بہت ہے، میں تمہاری جوار سے استغفی دیتا ہوں-"

قریش دیکھتے تھے کہ باوجود اس قدر روک ٹوک، سختیوں، اور اذیتیوں کے بھی اسلام کا دائرہ دن بدن وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے- حضرت عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہم جیسے جری اور بہادر لوگ ایمان لا چکے ہیں- نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی، قریش کے سفراء باوجود درباریوں کی پشت پناہی اور حمایت کے بےنیل و مرام واپس آئے- مسلمانوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جاتا ہے- اس لیے اب یہ تدبیر سوچی کہ آنحضرتﷺ اور آپﷺ کے خاندان کو (معاذ اللہ) محصور کر کے تباہ کر دیا جائے- چنانچہ تمام قبائل عرب نے ایک معاہدہ مرتب کیا کہ "کوئی شخص نہ خاندان بنی ہاشم کے ساتھ قرابت داری کرے گا اور نہ ہی خرید و فروخت (تجارت) ہی کرے گا، نہ ان سے ملے گا، نہ ان تک کھانے پینے کا سامان ہی جانے دے گا، جب تک کہ وہ محمدﷺ کو (معاذ اللہ) قتل کرنے کے لیے ہمارے حوالہ نہ کر دیں یا خود ہی اس کام کو انجام نہ دیں-” یہ معاہدہ "منصور بن عکرمہ” نے لکھا اور کعبہ پر آویزاں کر دیا.

چنانچہ ابوطالب مجبور ہو کر تمام خاندان کے ساتھ بنو ہاشم کے ساتھ شعب ابوطالب میں محصور ہوئے- یہ ایک پہاڑ کا درہ تھا جو خاندان بنی ہاشم کا موروثی تھا- تین سال تک بنو ہاشم نے اس حصار میں بسر کیے- یہ زمانہ اس قدر سخت گزرا کہ "طلح” کے پتے کھا کھا کر گزارا کرتے، حدیثوں میں جو صحابہ کی زبانی مذکور ہیں کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر گزر بسر کرتے تھے، اسی زمانہ کا واقعہ ہے- حضرت سعد کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سوکھا ہوا چمڑہ ہاتھ آ گیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھا لیا-

ابن سعد سے مروی ہے کہ بچے جب بھوک سے روتے اور بلبلاتے تو باہر آواز جاتی اور قریش سن سنکر خوش ہوتے تھے، لیکن باز رحمدلوں کو ترس بھی آتا تھا۔ ایک دن "حکیم بن حزام” نے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھتیجا تھا، تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرت خدیجہ کے پاس بھیجے۔ راہ میں ابوجہل نے دیکھ لیا اور چھین لینے چاہے، اتفاق سے "ابوالبختری” کہیں سے آ گیا، وہ بھی اگرچہ کافر تھا لیکن اس کو رحم آ گیا اور اس نے ابوجہل سے کہا کہ ایک شخص اگر اپنی پھوپھی کو کوئی چیز کھانے کے واسطے بھیجتا ہے تو تم کیوں روکتے ہو-

آنحضرتﷺ اور تمام آل ہاشم نے مسلسل تین برس تک یہ سب مصیبتیں جھیلیں- بالآخر جب دشمنوں نے دیکھا کہ آپ کے استقلال اور ثابت قدمی میں کچھ فرق نہیں آیا اور نہ ہی ان کی کوئی تدبیر کارگر ہو رہی ہے۔ تب دشمنوں میں سے ہی بعضوں کو بنو ہاشم کے ساتھ روا اس ناروا سلوک پر رحم آیا اور خود انہی کی طرف سے اس معاہدہ کو توڑنے کی تحریک پیدا ہوئی- "ہشام عامری” خاندان بنو ہاشم کا قریبی رشتہ دار اور اپنے قبیلے میں ممتاز تھا، وہ چوری چھپے بنو ہاشم کو غلہ اور اناج وغیرہ بھیجتا رہتا تھا، ایک دن وہ زبیر کے پاس جو عبدالمطلب کے نواسے تھے، گیا اور کہا: "کیوں زبیر تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاو پئیو اور ہر طرح سے لطف اٹھاو اور ادھر تمہارے ماموں کو ایک دانہ تک نصیب نہ ہو-” زبیر نے کہا؛ "مجھے بھی بنو ہاشم پر ہونے والے ظلم کا احساس ہے، لیکن میں کیا کروں کہ میں اکیلا ہوں، قسم خدا کی اگر قریش میں سے ایک شخص بھی میرا حامی اور ساتھ دینے والا ہو تو میں اس ظالمانہ معاہدہ کو پھاڑ کر پھینکنے میں دیر نہ لگاوں- ہشام نے کہا، "میں موجود ہوں۔” یعنی میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں- دونوں ملکر "مطعم بن عدی” کے پاس گئے، "ابوالبختری، ابن ہشام، زمعہ بن الاسود” نے بھی اس معاہدہ کے خلاف تحریک اٹھانے میں ساتھ دیا- دوسرے دن سب ملکر حرم میں گئے اور زبیر نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا، "اے اہل مکہ ! یہ کیا انصاف ہے ! ہم تو عیش و آرام سے زندگی بسر کریں اور بنو ہاشم کو آب و دانہ نصیب نہ ہو، نہ کوئی ان کے ساتھ کوئی قرابت داری بناتا ہے نہ وہ کسی سے کچھ خرید سکتے ہیں نہ کسی کو کچھ بیچ سکتے ہیں، خدا کی قسم جب تک یہ ظالمانہ معاہدہ چاک نہ کر دیا جائے گا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا-” ابوجہل برابر سے بولا، "ہرگز نہیں، اس معاہدہ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا- یہ سب کی اتفاق رائے سے قرار پایا ہے۔” زمعہ نے کہا تو جھوٹ کہتا ہے جب یہ معاہدہ لکھا گیا ہم تب بھی اس بات پر راضی نہیں تھے-” غرض مطعم نے ہاتھ بڑھا کر دستاویز چاک کر دی- غرض  مطعم بن عدی، عدی بن قیس، زمعہ بن الاسود، ابولبختری، زبیر، سب ہتھیار باندھ باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے اور ان کو درہ سے نکال لائے- بقول ابن سعد یہ دس نبوی کا واقعہ ہے-

اور ایک دوسری روایت کے مطابق جب یہ لوگ حرم میں اس بات پر بحث کر رہے تھے تو بحکم ربی دیمک اس معاہدے کو چاٹ گئی اور ظلم و ستم کی تمام تحریر مٹ گئی اور صرف اللہ کا نام باقی رہا- آنحضرتﷺ کو اللہ کیطرف سے وحی کی گئی اور آپﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کو اس کے متعلق بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس کی خبر تمہارے خدا نے دی ہے- آپﷺ نے فرمایا ہاں- سب کے مشورے کے بعد ابوطالب شعب ابی طالب سے باہر آئے اور حرم میں آ کر قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا؛ "اے قریش مکہ میرے بھتیجے محمدﷺ نے مجھے خبر دی جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کہ مقاطعے کی دستاویز میں جور و ستم اور قطع رحمی سے متعلق تمہاری تمام تحریر دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ۔ اب تم وہ صحیفہ منگوا کر دیکھ لو ۔ اگر میرے بھتیجے کا بیان غلط نکلا تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ پھر تمہیں اختیار ہے چاہے قتل کر دو اور چاہے زندہ رہنے دو لیکن اگر اس کی بات سچ نکلی تو ہمارے ساتھ اس بدسلوکی سے باز آجاؤ۔ ‘‘

ابو طالب کی یہ بات سنکر حاضرین مجلس نے کہا کہ آپ نے انصاف کی بات کہی ہے- دستاویز منگوا کر دیکھی گئی- وہی بات سچی نکلی جس کی خبر دی گئی تھی۔ اس پر قریش کو ندامت ہوئی اور شرم سے ان کی آنکھیں جھک گئیں۔ یہ کہہ کر ابو طالب تو گھاٹی کی طرف لوٹ آئے۔ مجلس میں ابو جہل اور اس جیسے ضدی آدمیوں پر ملامت کی بوچھاڑ شروع ہو گئی اور مقاطعے کے خاتمے کے حامی حضرات اسلحے سے لیس ہو کر شعب ابی طالب کی طرف گئے اور محصورین سے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو جائیں۔ اس طرح ظلم و ستم ار جورو تعدی کا یہ تین سالہ طویل دور ختم ہوا۔

آنحضرتﷺ ابھی شعب ابی طالب سے نکلے تھے اور چند روز کفار کے جور و ستم ملی تھی کہ اوپر تلے حضرت خدیجہ اور ابوطالب کا انتقال ہو گیا۔ ابوطالب کی وفات کے وقت آنحضرتﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ پہلے سے موجود تھے- آپﷺ نے فرمایا کہ مرتے وقت "لا الہ الا اللہ” کہہ لیجئے کہ میں خدا کے پاس آپ کے ایمان کی شہادت دینے والا بن سکوں- ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا؛ "ابوطالب ! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاو گے ؟” بالآخر ابوطالب نے کہا؛ "میں عبدالمطلب کے دین پر ہی مرتا ہوں-” اور پھر آنحضرتﷺ کی طرف خطاب کر کے کہا، "میں وہ کلمہ کہہ دیتا جو تم چاہتے ہو، لیکن قریش کہیں گے کہ ابوطالب موت سے ڈر گیا-” آپﷺ نے فرمایا، "میں آپ کے واسطے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک کہ خدا مجھے اس سے منع نہ کر دے۔”

یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ مرتے وقت ابوطالب کے ہونٹ ہل رہے تھے- حضرت عباس رضی اللہ نے (جو خود اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے) کان لگا کر سنا تو آنحضرتﷺ سے کہا، "تم نے جس کلمہ کے لیے کہا تھا ابوطالب وہی کلمہ کہہ رہے ہیں-” اسی بنا پر ابوطالب کے ایمان لانے کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔