انسان زمین سے نہیں تو کہاں سے آیا؟

رستم علی خان

شروع ہی سے کئی سائنسدانوں کو نظریہ ارتقاء کی صحت اور اسکی سچائی پر شک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کے پیش کیے جانے سے اب تک کئی سائنسدانوں نے اس نطریے کو ماننے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا اور ہے کہ زمین پر انسان اور زندگی ارتقا پذیر نہیں ہوئ بلکہ اپنی خاص حالت میں تخلیق کی گئ۔ حال ہی میں انسان کے بن مانس جیسے کسی جاندار سے ارتقا کے نظریے پر سائنسدانوں نے مزید سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ کسی اور سیارے یا خلا سے زمین پر بھیجا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے آدم و حوا علیہ السلام کو جنت سے زمین پر بھیجا۔

ایک امریکی ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کے نقائص،سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم یا Sun burns ظاہر کرتے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ اس امریکی ماہر ماحولیات کا نام ڈاکٹر ایلس سلور۔ ۔ ۔ ۔ Dr Ellis Silver….ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی خلائی مخلوق نے آج سے اندازہ ایک لاکھ سال پہلے انسان کو آسمان سے زمین پر اتارا۔ ۔ ۔ جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ایلس سلور خود ارتقا کے حامی ہیں لیکن وہ انسان کے بارے میں خود کہ رہے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ کائنات میں زمین کی حیثیت ایک قیدی سیارے کی ہے۔ چونکہ انسان ایک تندخو مخلوق ہے لہذا اسے اس کی اصلاح کے لیے یہاں رکھا گیا ہے۔

اس پر ایلس سلور نے ایک پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام Humans are not from earth ہے۔ اس کتاب کو ایمیزون نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر ایلس سلور ماہر ماحولیات ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کی کمزوری اور کمر کے نقائص ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کسی کم کشش ثقل یا گریویٹی والی جگہ پر پیدا ہوا لیکن زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم اور بچے کی پیدائش میں ہونے والی تکلیف، پرانی بیماریاں،قدرتی خوراک کی ناپسندیدگی اس بات کے مزید دلائل ہیں۔ اس بارے میں ان کی کتاب کا پورا نام HUMANS ARE NOT FROM EARTH: A SCIENTIFIC EVALUATION OF THE EVIDENCE ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے یہ نقائص انسان کے زمینی مخلوق ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ انسان کے بچے کا پیدائش کے وقت سر بڑا ہوتا ہے جس سے پیدائش کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ خاصیت ہے جو زمین پر اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ انسان کو زمین کے ماحول کے مطابق بنایا ہی نہیں گیا جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔ وہ دوسرے جانوروں جیسا کہ سوسمار یا لیزرڈ کے برعکس ایک سے دو دن سے زیادہ دھوپ برداشت نہیں کر سکتا۔

مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان اکثر بیمار رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی ساخت صرف پچیس گھنٹے کے حیاتیاتی دورانیے۔ ۔ ۔ بیالوجیکل کلاک۔ ۔ ۔ کے مطابق بنی ہے جیسا کہ نیند پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے۔

دوسرے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے زمین سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ کسی اور سیارے یا خلا سے آیا ہے جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انسان کسی کہکشاں پر پیدا ہوا اور آج سے چار ارب سال پہلے کسی دمدار ستارے کے ذریعے زمین پر اتارا گیا۔ جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔

سائنسی نظریہ جس کے مطابق انسانی وراثتی مادہ یا ڈی این اے خلا یا کسی اور سیارے سے تعلق رکھتا ہے،پین سپرمیا۔ ۔ ۔ ۔ Panspermia…..کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ 1871ء میں پیش کیا گیا اور جدید تحقیقات نے اس کو مزید پختگی دی ہے۔

ڈیلی میل کی رپوٹ کے مطابق ابھی تک اس کی براہ راست کوئ گواہی نہیں پای گئ لیکن یہ نظریہ اب حقیقی سائنس سے اتنا دور نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پیٹر وارڈ۔ ۔ ۔ ۔ Peter Ward….کے مطابق ہو سکتا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر ہونے کی بجائے مریخ پر پیدا ہوا۔

کافی سارے سائنسدانوں نے آج سے 8•3بلین سال پہلے زندگی کے زمین پر اچانک شروع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ پوری ملکی وے کہکشاں پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف بوکنگھم کے حیاتیاتی فلکیات دان۔ ۔ ۔ آسٹرو بیالوجسٹ۔ ۔ چندرا وکراما سنگھ۔ ۔ ۔ Chandra Wikramasinghe کے مطابق زمین لمبا عرصہ دوسرے سیاروں سے نامیاتی و حیاتیاتی مادے کا تبادلہ کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم کی تخلیق کے لیے زمین سے مٹی لی گئی۔ اس نے کئ ایسے سائنسی آرٹیکل پبلش کیے ہیں جس کے مطابق دمدار ستاروں میں خلائ جانداروں کے فوسل اور الجی کی طرح کے جاندار پائے گئے ہیں جو کہ خلا سے زمین پر ان کے ذریعے لائے گئے۔ پروفیسر وکرام سنگھ کا کہنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا بس لیکن اب ہمارے پاس اس کی سائنسی دلیل موجود ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ بات ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔

ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی اس بات پر تحقیق کا اردہ رکھتے ہیں کہ کس طرح زندگی خلا یا کسی اور سیارے سے زمین پر لائ گئی۔

آج کل کئ سائنسدان اس بات پر تحقیق میں مصروف ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ ماحول اور زمین سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس۔ حوالے سے انسان بن مانس اور گوریلا سے بھی بہت مختلف ہے جن کے بچے آٹھ سے دس سال کی عمر میں مکمل جوان ہوجاتے ہیں۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی کشش ثقل یا گریویٹی موجودہ حالت سے 6•0 جتنی ہوتی تو کرے اور بلی کی طرح انسان کو بھی گرنے سے چوٹ نہ لگتی۔ لیکن ایک انسان کا بچہ جو نیا نیا پیدا ہوتا ہے وہ اس کشش ثقل کی وجہ سے روتا چیختا چلاتا ہے جو اس کے جسم میں درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔

1972ء میں غاروں کے علوم کے ماہر ۔ ۔ ۔ ۔ Peleologist..ایک فرانسیسی مائیکل سیفر۔ ۔ ۔ Ciffre…نے زمین کے نیچے چھ ماہ گزارے اور اپنے آپ کو دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا۔ اس دوران اس نے اپنے تجربات کا سارا ریکارڈ رکھا۔ اسے غار میں اپنے قیام کا 179 واں دن 151 دن لگا۔ جس کا مطلب تھا کہ اس نے پورا ایک شمسی نہیں کھو دیا۔ اس پر یہ گمان کیا گیا کہ اس کا حیاتیاتی دورانیہ یا بیالوجیکل کلاک زمین کے دن رات کی بجائے کسی اور سیارے سے مطابقت رکھتا تھا۔

انسان واحد زمینی جاندار ہے جس کو سورج کی شعاعوں سے حفاظت نہیں دی گئی۔ نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کے جسم میں پای جانے والی چکنائ یا فیٹ کی تہہ موٹی ہے۔

1984ء میں سائنسدانوں نے انسانی ڈی این اے پر تحقیق سے دریافت کیا کہ دنیا کے سب انسانوں کی ایک مشترک ماں ہے جو آج سے تین لاکھ پچاس ہزار سال پہلے زندہ تھی لیکن زمین پر انسانی آثار ایک لاکھ سال پرانے ہیں۔ اس پر سائنسدان یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان کسی اور سیارے پر مقیم گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا علیہ السلام جنت میں رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان جس سیارے پر رہا اس کی گریویٹی یا کشش ثقل زمین کی کشش کا نصف ہے اور اس کی محوری گردش کا دورانیہ تیس گھنٹے ہے۔ اس سیارے کا محوری جھکاؤ زیرو تھا اس لیے اس سیارے پر موسم ہمیشہ ایک رہتا۔ وہاں کوئ برفانی یا گلیشیل دور نہیں آیا۔ اس کا موسم معتدل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اسی سیارے کی خاصیت رکھتے ہیں اور زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔

دنیا کے کچھ دیگر نامور سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کے لیے شروع میں دو عناصر نہیں تھے جو زندگی کے لیے لازمی ہیں۔ یہ بات ویستھیمر انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنولوجی فلوریڈا امریکا کے نامور سائنسدان سٹیون بینر نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کو زندگی کی تخلیق کی زمین پر ابتدا کا نظریہ نہیں مانا جا سکتا کیونکہ یہ پانی میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ خود زمین کے شروع میں گرم پانی و بالائے بنفشی شعاعوں سے زمین پر زندگی کے آغاز کے نظریے کی تردید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کی تخلیق کے لیے ایک عنصر بورون لازمی ہے اور یہ زمین پر شروع میں نہیں تھا جب کہ مریخ پر موجود تھا۔ یہ بعد میں شہابیوں کے ذریعے زمین پر اترا۔ بینر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک گرم شوربے میں زندگی کے آغاز کا نظریہ زندگی کی ابتدا کی وضاحت نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب حیاتیاتی عناصر گرمی یا شعاعوں سے متاثر ہوتے ہیں تو یہ آر این اے بنانے کی بجائے ٹار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سائنسدانوں نے زمین پر زندگی کی ابتدا کے نظریے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے۔ بینر کا کہنا ہے کہ زمین پر زندگی مریخ سے آئ۔ اب ارتقا کو زمین کی بجائے مریخ پر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اب تک کی ساری تحقییق یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ زندگی زمین پر خود بخود پیدا ہونے کی۔ جائے زندگی کے لیے موزوں خلا میں کسی اور مقام پر پیدا ہوئ اور بعد میں اسے زمین پر اتارا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔

یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے پروفیسر وینرائیٹ کا کہنا ہے کہ زمین پر پیدا نہ ہونے والی زندگی مسلسل خلا سے زمین پر اتر رہی ہے۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کے ساتھ ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے اور اب سائنسدان زندگی کی ابتدا کو زمین کی بجائے خلا یا کسی اور سیارے سے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایلس سلور کے نظریے پر اعتراضات ھو سکتے ہیں لیکن یہ بحث ظاہر کر رہی ہے کہ سائنس دان ارتقا کی بجائے زندگی کے دوسرے نظریات پر غور کرنے لگے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔