انور مسعود اور احمد علی برقی اعظمی

انور مسعود

پجیرو بھی کھڑی ھے اب تو ان کی کار کے پیچھے

عظیم الشان بنگلہ بھی ھے سبزہ زار کے پیچھے

کہاں جچتی ھے دیسی گھاس اب گھوڑوں کی نظروں میں

کہ سر پٹ‌ دوڑتے پھرتے ہیں وہ معیار کے پیچھے

عجب دیوار اک دیکھی ھے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار کے آگے ، نہ کچھ دیوار کے پیچھے

تعاقب یا پولِس کرتی ھے یا از راہِ مجبوری
کوئی گلزار پھرتا ھے کسی گلنار کے پیچھے

سرہانے سے یہ کیوں اٹھے ، وہ دنیا سے نہیں اٹھاک
مسیحا ہاتھ دھو کر پڑ‌گیا ھے بیمار کے پیچھے

ہوا خواہان سرکاری تو بس پھرتے ہی رہتے ہیں
کوئی سرکار کے اگے کوئی سرکار کے پیچھے

بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ھے ترے اشعار کے پیچھے

احمد علی برقی اعظمی

نہیں ہو جیسے کوئی مُفلس و نادار کے پیچھے
جسے دیکھو لگا ہے درہم و دینار کے پیچھے

نہیں شکوہ مجھے کوئی رقیبوں اور غیروں سے
مرے اپنے ہی درپردہ تھے میری ہار کے پیچھے

تھے مارِآستیں جو پَل رہے تھے میرے دامن میں
نہ جانے بھاگتا پھرتا تھا کیوں میں مار کے پیچھے

سمجھ لیں گے دلِ درد آشنا ہے جن کے سینے میں
نہاں سوزِ دروں ہے دیدۂ خونبار کے پیچھے

سبھی اک دوسرے کے حاشیہ بردار ہوں جیسے
کوئی ہے یار کے پیچھے کوئی اغیار کے پیچھے

صحافی کررہے ہیں خوں صحافت کے اُصولوں کا
پڑے ہیں اس لئے وہ میرے ہی کردار کے پیچھے

کرے کوئی بھرے کوئی کا ہے مجھ پر مَثَل صادق
مرا ہی ذکر رہتا ہے ہر اک اخبار کے پیچھے

ریا کاری سے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں
جو ایسا کررہے ہیں جبہ و دستار کے پیچھے

جسے نَم دیدہ ہو جاتے ہیں سن کر اہلِ دل برقی
‘’ کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے ‘‘

احمد علی برقی اعظمی

جو پھرتا ہے ہمیشہ کوچۂ دلدار کے پیچھے
نظر رہتی ہے اس کی شربتِ دیدار کے پیچھے
مجھے معلوم ہے کیا ہے مزاج یار کے پیچھے
رضامندی ہے شامل اس کی اس انکار کے پیچھے
کوئی کہہ دے یہ اُن سے چاردن کی چاندنی ہے یہ
لگے رہتے ہیں جو ہردم لب و رخسار کے پیچھے
جہاں ہر دور میں تھا دشمنِ جاں حق پرستوں کا
ملیں گے سرمد و منصور اب بھی دار کے پیچھے
حقیقی زندگی کیا ہے اگر یہ دیکھنا چاہیں
تو دیکھیں جا کے اس کو کوچہ و بازار کے پیچھے
ہیں نالاں غنچہ و گل باغباں کی باغبانی سے
پڑا ہے ہاتھ دھو کر جو گُل و گُلزارز کے پیچھے
نہ چھوڑے گا کہیں کا آپ کو وہ جان لیں اک دن
نہ جائیں اُس کی اِس شیرینیٔ گفتار کے پیچھے
مصاحب تھا امیرِ شہر کا جو مُفسدِ دوراں
نہیں ہے اب کوئی اُس حاشیہ بردار کے پیچھے
چمن میں جاکے دیکھو خود نظر آجائے گا تم کو
گُلِ اُمید برقی اعظمی ہے خار کے پیچھے

تبصرے بند ہیں۔