آخر کب تک کشمیر یونہی جلتا رہے گا؟

مولانا اسجد عقابی

(دیوبند) 

جب چند لوگوں کے نقصان سے بہت سارے لوگوں کا فائدہ ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ مسئلہ نہیں بزنس ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس کے سائے تلے پورا کشمیر اپنی زندگی جینے پر مجبور ہے۔ اندھیری رات کی تاریکی چھٹ جانے کے بعد جب صبح کی کرنیں سارے عالم کو اپنی روشنی سے منور کرتی ہے، اور دنیا کیلئے نوید سحر کا پیغام دیتی ہے تو اس وقت ہندوستان کا یہ خطہ اس خوف میں اپنے گھروں اور آشیانوں سے نکلتا ہے کہ معلوم نہیں شام ڈھلے گھر واپسی ہوگی یا نہیں، آگ برساتی بندوقوں کا نشانہ بنیں گے یا زنداں کی تاریکی قسمت کا ستارہ ہمیشہ کیلئے بجھا دے گی۔ معصوم بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے جہاں ماؤں کی یہ آرزوئیں اور تمنائیں ہوا کرتی ہے کہ میرا لال بڑا ہوکر ایک کامیاب انسان بنے گا، قوم کا ایک بے لوث خادم بنےگا، اپنوں کا ہمدرد اور غریبوں کا مسیحا بنے گا، وہیں کشمیر میں مائیں سورج کی کرنوں کے اتار چڑھاؤ اور اس کی تپش کی مانند بے چین ہوتی ہے کہ معلوم نہیں میرا سہارا، میری امیدوں کی دنیا، میرا لخت جگر، میرے گھر کے صحن میں پھر سے کھلے گا یا درمیان راستہ میں ہی مرجھا دیا جائے گا۔ مجھے اس کا مسکراتا چہرہ پھر سے دیکھنے کو ملے گا یا نہیں؟  میری گود کہیں پھر سے سونی نہ ہوجائے! بوڑھے ماں باپ کی لاٹھی کب اور کس کے گھات میں ٹوٹ جائے، خدا ہی بہتر جانے۔ کشمیر ہندوستان کا وہ سچ ہے جو سننے میں بہت خوبصورت، لیکن دیکھنے میں بہت ہی خوفناک ہے۔کشمیر کی فطری خوبصورتی تو اب بھی برقرار ہے جسے کبھی جنت نشاں کہا جاتا تھا،  موسم سرما میں برف باری ہوتی تو پورے علاقہ کو اپنی سفید چادر میں ڈھانپ لیا کرتی تھی جہاں جہلم اٹھکیلیاں کرتی ہے، جہاں مہاجر پرندے اپنا بسیرا کرتے ہیں، جہاں ڈل کی گہرائی اور کی خوبصورتی کو دو بالا کرتی ہے، قدرتی مناظر سے بھر پور یہ علاقہ اب خوف ناک سایہ بن چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آگ برساتی بندوقوں اور نفرت کے پچاری بھی اس کی خوبصورتی کو ماند نہیں کرسکے ہیں لیکن کشمیریوں کی بے آس اور غمگین آنکھیں ان خوبصورت وادیوں میں کہیں گم ہوگئی ہے ان کی آنکھوں سے جھلکتا خوف، اور بے قرار نگاہیں ان کے درماندگی کی غماز ہیں۔ آئے دن کبھی دہشت گردوں سے اور کبھی اپنے ہی رکھوالوں کے ذریعہ یہاں کی عوام برباد ہوتی ہے۔  کبھی ان کی ہنستی کھیلتی زندگی کو اور بسے بسائے خاندان کو پل بھر میں اجاڑ دیا جاتا ہے، اور ان کی میت پر کوئی آنسو بہانے والا بھی میسر نہیں ہوتا ہے۔ کبھی ان کی لاشوں کے چیتھڑے بھی میسر نہیں ہوتے کہ انہیں دیکھ کر اہل خانہ کو کچھ تسلی مل جائے۔

کشمیر کا مسئلہ کیوں اتنا پیچیدہ ہے؟ کیوں دہائیوں بعد بھی اہل کشمیر خوف و کرب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ؟ کیوں ان کے مسائل کے تئیں کوئی سنجیدہ نہیں ہے؟ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو اب بھی اہل کشمیر پر خوفناک سائے کی مانند پھیلا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں پلوامہ میں ہوئے حادثہ نے کشمیر سمیت پوری انسانیت کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ جنہیں مسیحا بنا کر بھیجا گیا تھا، جو بندوق ان کی حفاظت کیلئے فراہم کی گئی تھی، جن ہاتھوں کو سہارا بننا تھا۔جن بازوؤں کے سہارے دہشت گردوں کا صفایا کرنا تھا، انہیں ہاتھوں نے سات بے گناہ کشمیریوں کو ہمیشہ ہمیش کیلئے موت کی نیند سلادیا سات کے بجائے اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ سات گھروں کو ہمیشہ ہمیش کیلئے مجبور کردیا گیا ہے۔ ان کے جینے کا سہارا چھین لیا گیا ہے، یقینا ان میں کوئی کسی بہن کا سہارا ہوگا، کوئی اپنے بوڑھے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہوگا کوئی کسی سہاگن کا سہاگ ہوگا، لیکن اب سب ختم ہوچکا ہے، سب کی دنیا برباد ہوگئی ہے، سب کی تمناؤں کا خون کیا جاچکا ہے۔ اب نہ ان پر بہائے ہوئے آنسو انہیں واپس لاسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دلیل ان کے پسماندگان اور وارثین کی تسلی کا سامان مہیا کرسکتے ہیں۔

واقعہ کا پس منظر یقینا قابل غور ہے، جہاں ہندوستانی فوج نے مڈبھیڑ میں دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے بعد جس طرح تال میل میں کمی کی وجہ سے (ایسا بتایا جارہا ہے) سات افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے اسے کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اتنے بڑے حادثہ کے بعد کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ تال میل کی کمی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی کشمیر میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہے۔وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنا پر جن معصوم مسکراتے ہاتھوں میں کھلونا ہونا چاہئے تھا، ان ہاتھوں میں پتھر ہیں۔کیوں دہائیوں بعد بھی فوج وہاں عوام کا دل جیتنے سے محروم ہیں ؟ آخر کب تک کشمیر یونہی جلتا رہے گا، اور ہم دور کھڑے تماشائی بنے رہیں گے۔ اب تو ہمارے ملک کے قائدین کو کشمیر کے تئیں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کشمیر کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ان کیلئے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جو وہاں کی عوام کے بھروسہ کو جیت سکے۔ انہیں اپنایا جائے۔ان کے دکھ کو اپنا سمجھ کر ان کا مداوا کرنا چاہئے۔

پورے ملک میں ایک عجیب ماحول ہے، ملک کے بیشتر علاقوں میں کشمیریوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ان کو کسی اور دنیا کی مخلوق تصور کیا جاتا ہے۔جب اپنے ہی ملک میں کشمیریوں کو اجنبیت سے گزرنا پڑتا ہے تو تصور کیجئے ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی، انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟ کشمیر میں امن و امان کیلئے ان کے دلوں کو جیتنا ضروری ہے، ان کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اس جانب بھی خاطر خواہ توجہ دی جائے اور اپنانے کی ہر ممکن سعی کی جائے۔ کشمیر ہمارا ہے لیکن اب ضروری ہے کہ ہم اس نعرہ کے ساتھ آگے بڑھیں کہ کشمیری ہمارے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔