کب تک جنت ارضی، جہنم کا نظارہ پیش کرے گی؟

نازش ہما قاسمی

کشمیر میں آئے دن فوج اور دہشت گردوں کے مابین تصادم اور جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ دہشت گرد ہلاک ہوتے ہیں، کشمیری عوام سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور لاشیں اُٹھانے کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی تصادم ۱۵؍دسمبر کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پلوامہ میں ہوا جس میں حزب المجاہدین تنظیم کا ایک دہشت گرد ظہور سمیت تین مارے گئے اور فوج کا ایک جوان بھی موت کے منہ میں چلاگیا۔ تصادم کے بعد مقامی عوام نے فوج پر پتھراؤ شروع کردیا پھر فوج کی گولیوں کے دہانے کھل گئے جس میں ۷ افراد جاں بحق ہوگئے۔ پورے پلوامہ میں ماتم بچھ گیا۔ آہ و بکا کی دلدوز چیخیں ابھرنے لگیں، ملکی میڈیا سمیت غیر ملکی میڈیا نے بھی ہندوستانی فوج کی اس کارروائی پر انگلی اُٹھائی، پاکستانی وزیر اعظم نے تو دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اُٹھائیں گے؛ لیکن حقیقی معنوں میں وہ بھی کشمیر کے تعلق سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے تعلق سے کوئی بھی مخلص نہیں، سبھی یہاں سیاست کر رہے ہیں اور کشمیری اس سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

جنت ارضی کشمیر کسی زمانے میں واقعی جنت ارضی رہا ہوگا؛ لیکن اب یہاں تقریباً ستر سالوں سے جہنم کے شعلے اگلے جارہے ہیں۔ لاشیں ابل رہی ہیں۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں معصوم موت کی نیند سو رہے ہیں۔ دلدوز چیخیں آہ و بکا اور ماتم پسرا ہوا ہے۔ یہاں کوئی بھی دن ایسا نہیں جاتا ہوگا جس دن کوئی ماں اپنے معصوم بچےکو نہ کھوتی ہو، کوئی باپ بے سہارا نہ ہوتا ہو، کوئی سہاگن بیوہ نہ ہوتی ہو اور کوئی بہن اپنے بھائی کے مضبوط سہارے سے محروم نہ ہوتی ہو۔ ہندوستان پاکستان دونوں ہی کشمیر کے دعویدار ہیں ؛ لیکن کشمیریوں کی کسی کو بھی فکر نہیں اور دو پاٹوں کے بیچ پستا کشمیری لہو لہان ہے۔ کبھی پیلٹ گن کا شکار ہوکر بینائی کھو رہا ہے، تو کبھی گولیوں کی زد میں آکر زندگی کی جنگ ہار رہا ہے، کبھی تفتیش کے نام پر غائب ہورہا ہے تو کبھی فوج گاڑیوں کے انجن پر بٹھا کر انہیں ذلیل کررہی ہے۔ آخر اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی مسئلۂ کشمیر کیوں نہیں حل کیا گیا۔ کیا کشمیریوں کے مقدر میں لاشیں اُٹھانا ہی لکھ دیاگیا ہے۔ کشمیریوں کی فلاح و بہبودگی اور لاشوں سے انہیں نجات دلانے کے لیے مثبت حل کی جانب کیوں نہیں اقوام عالم غور کر رہی ہیں۔ کیا وہ مسلمان ہیں اس لیے ان پر گولی چلانا جائز ہے، انہیں طاقت کے بل پر جھکانا درست ہے؟

اگر ایسا ہےتو یہ دوغلی پالیسی ہے۔ پھر انسانیت کا رونا ڈھکوسلہ ہے اور درپردہ مسلم دشمنی کار فرما ہے۔ ۲۰۱۶ میں اندور میں منعقدہ ’ذرا یاد کرو قربانی‘ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’کشمیر ہندوستان کی طاقت ہے۔ کشمیر امن چاہتا ہے۔ میرے کشمیر کے بھائی بہنوں آپ کا سیب ہندوستان کے ہر کونے میں پہنچنا چاہیے۔ کبھی کبھی تکلیف ہوتی ہے کہ جن نوجوان بچوں کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ، والی بال اور بیٹ ہونا چاہیے، کتاب ہونی چاہیے، آنکھوں میں خواب ہونا چاہیے، آج ان معصوم فرزندوں کے ہاتھ میں پتھر پکڑا دیے جاتے ہیں ‘‘۔ واقعی کشمیر ہندوستان کی طاقت ہے، کشمیر امن چاہتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو امن سے کیوں نہیں رہنے دیاجاتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ کشمیری کیوں آج پتھر لیے ہوئے ہیں ؟ ان کے خواب کیوں خون میں لت پت ہیں ؟  ان کی زندگی موت سے بھی بدتر کیوں بنائی جارہی ہے؟ کیوں مائیں روز اپنے لخت جگر کی لاش اُٹھانے پر مجبور ہیں ؟ کیوں سہاگنیں بیوہ ہورہی ہیں ؟ وہ اس لیے کہ کبھی بھی کشمیر کے ساتھ کشمیریوں کو اپنا نہیں سمجھا گیا، ہمیشہ ان کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اپنایا گیا۔ ہمیشہ ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔ اگر واقعی آپ کشمیریوں کے ہاتھ میں پتھر کے بجائے لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان ہاتھوں کی قدر کریں، کشمیریوں کا دل جیتیں، پھر دیکھیں کس طرح محبت پروان چڑھتی ہے۔

مسئلۂ کشمیر صرف اور صرف محبت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ نفرت کی بنیاد پر کبھی بھی کوئی چیز حل نہیں کی جاسکتی، طاقت کے بل بوتے پر آپ ضرور انہیں زیر کرلیں گے؛ لیکن اس سے نفرت پیدا ہوگی اور اس نفرت کی چنگاری نسلوں سفر کرے گی۔ کشمیر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ برسوں سے باپ کے سہارے سے محروم نسل جب آگے بڑھی تو ان کے اندر نفرت جگہ لے چکی تھی، معصوم ہاتھ پتھر لیے ہوئے آزادی کے نعرے اس لیے لگا رہے ہیں کہ فوج کے ہاتھوں ان کے باپ بھائی کی درگت بنائی جاچکی ہے، ان کی بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوئی ہیں۔ اگر منصفانہ تحقیق کی جائے تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ فوج وہاں کے باسیوں پر کیا کیا مظالم ڈھاتی ہیں  اور کس طرح سے ان کشمیریوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہے۔

ہمارا یقین ہے کہ ہماری بہادر فوج کی مکمل تعداد ایسی نہیں ہے جو وہاں ظلم روا رکھے ہوئے ہے؛ لیکن ان میں کرنل پروہت جیسے افراد ضرور ہیں جو نفرت کے سودا گر ہیں جو ملک میں امن نہیں دیکھ سکتے، ان میں دھیان سنگھ جیسے فوجی بھی شامل ہیں جو عصمت دری کے ملزم ہیں جن کے ناپاک وجود سے کشمیری پناہ مانگتے ہیں۔ کشمیری کی حالت اس کہاوت کی سی ہوگئی ہے (جب چند لوگوں کی پریشانی سے بہت سوں کو فائدہ ہونے لگے تو اسے پریشانی نہیں، بلکہ بزنس کہا جاتا ہے) آج کشمیر کے نام پر سیاست تو ہوتی ہے، لیکن کشمیر کے لیے کشمیر کے مفاد کی خاطر، کشمیر میں امن و امان کی خاطر، عوام کی سلامتی کی خاطر، بچوں کے حفظ و امان کی خاطر، بہنوں کی عصمت کی خاطر، سہاگنوں کے سہاگ کی خاطر، ماؤں کی ممتا کی خاطر، والد کے پیار کی خاطر کوئی سیاست نہیں کرتا۔

کوئی تو ایسا ہو جو اس درد کو سمجھے، جو ان بلکتے بچوں کی آہوں کو سنے، مگر افسوس کشمیر دہائیوں سے دہک رہا ہے، جل رہا ہے اور اس آگ میں سیاست داں اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مزید کب تک ہندوستان کی یہ جنت ارضی جہنم کا نظارہ پیش کرتی ہے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔