دل کی دنیا کا ’زخم دل‘

 صالحہ صدیقی  

 شاعری ایک خدادا صلاحیت ہے، شاعر ہر لفظ کو اپنے خون جگر سے سینچتا ہے، اپنی زندگی کے تجربات کو اس میں سموتا ہے، شاعری کی دُنیا لامحدود ہے؛ حیات و کائنات کے سارے خارجی و باطنی، محسوس و غیر محسوس، اجتماعی و انفرادی مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ شاعری میں افراد کی نفسیات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اجتماعیت کے تمام مسائل کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مذہب، تمدن، تہذیب و ثقافت، اخلاق، معاشرت اور سیاست موضوع ِ فن بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کی شریعت میں کوئی ایک موضوع خاص اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ہر موضوع اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے، شاعر سماج کا ایک حساس فرد ہوتا ہے جسے اپنے گردو نواح میں معمولی سی معمولی تبدیلی کا بھی پتا چلتا ہے جو اُس کے احساسات، جذبات اور خیالات کو متحرک کرتی ہیں، جس کا اظہار وہ پھر اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو برائے کار لاکر اپنی تحریر سے کرتا ہے۔ تب کہیں شاعری وجود میں آتی ہیں۔ دل ؔ تاج محلی صاحب نے اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات کے مدوجزر کو شاعری کے پیرائے میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیاہیں۔ اُن کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اُن کی نظمیں، غزلیں، گیت، سلام، قطعات اُن کے جذبات، احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہیں۔ اُن کی شاعری کے مطالعے سے عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنھوں نے جدیدیت کے بعد اردو شعر وادب کے اظہار، اسلوب اور فکریاتی سطح پر ہونے والے تجربات کو نہایت ہی ہنر مندی اور خوش سلیقگی کے ساتھ قبول کر کے اپنے شعری وجدان کو لا محدود کر دیا۔ جس سے اُنھیں یہ فائدہ ہوا کہ اُنھوں نے جدید شاعری میں نئے اور عصری تلازموں اور تقاضوں کا چیلنج قبول کر کے دُنیائے شعر و ادب میں اپنے لیے ایک اہم مقام بنا لیا۔ جس کی عمدہ مثال ان کا مجموعہ ٔ کلام’’زخم دل ‘‘ ہیں اس مجموعہ ٔ کلام کا کمال یہ ہے کہ قاری بنا رکے ان کی شاعری کی دنیا کی سیر کرتا چلاجاتاہے اور خود کو ان کے اشعار سے ہم آہنگ کرتا چلا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ میں خود کو اس مجموعۂ کلام پراپنے تاثرات لکھنے سے نہ روک سکی۔ ’’زخم دل ــ‘‘  میں دی گئی معلومات کے مطابق یہ ۲۰۰۰ء تا ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ اس مجموعے میں غزلوں کے علاوہ نظمیں، گیت، سلام اور قطعات بھی شامل ہیں۔

شاعری ایک ایسا سحر ہے جو ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ شاعری کے سلسلے میں ہمارے مفکرین ادب کے منفرد خیالات رہے جن میں افلاطون کا کہنا ہے کہ’’ شاعری نقل کی نقل ہے۔ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہے اور یہ غیر اخلاقی چیز ہے‘‘ تو کلیم الدین احمد نے شاعری کی ہردل عزیز صنف غزل کو نیم وحشی صنف شاعری قرار دیا ہے جبکہ نواب امداد امام اثرؔ فرماتے ہیں کہ:

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاعری حسب خیال راقم رضائے الٰہی کی ایسی نقل صحیح ہے جو الفاظ بامعنی کے ذریعہ سے ظہور میں آتی ہے۔ رضائے الٰہی سے مراد فطرت اللہ کے اور فطرت اللہ سے مراد وہ قوانین قدرت ہیں جنھوں نے حسبِ مرضی الٰہی نفاذ پایا ہے اور جن کے مطابق عالم درونی و بیرونی نشوونما پائے گیے ہیں۔ پس جاننا چاہیے کہ اسی عالم دردونی و بیرونی کی نقل صحیح جو الفاظ بامعنی کے ذریعہ عمل میں آتی ہے شاعری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(کاشف الحقائق۔ صفحہ ۵۱)

 صنف شاعری کے بارے میں ہوشؔ جونپوری فرماتے ہیں :

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیوگو جیسا ماہرِ نفسیات بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ کوئی شخص ایسا جملہ، لفظ یا آواز منھ سے نکال ہی نہیں سکتا جس کا کوئی معنی نہ ہو۔ میں کہتا ہوں انسان کا کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کا کوئی معنی نہ ہو اور جس کا اس کی اپنی ذات سے کوئی تعلق نہ ہو اور جس فعل و عمل سے کسی بات کی اطلاع ہو رہی ہو اور جو کسی ذات کا اظہار کر رہا ہو وہ بے معنی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کوئی بھی شاعری بے معنی نہیں ہو سکتی۔ ہاں کسی شاعری کے ذریعہ دی ہوئی اطلاع یا پیغام غلط ہو سکتا ہے یا غیر ضروری ہو سکتا ہے یا ناقص ہو سکتا ہے۔ انھیں بنیادوں پر شاعری اچھی یا خراب ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘( ’ناگزیر‘۔ ۱۹۹۴ء صفحہ ۹)

  شاعری کی تعریف کے سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی کا نظریہ دوسروں مفکرین کے مقابلے واضح، بامعنی اور بہتر معلوم ہوتی ہے۔ موازنہ انیس و دبیر میں شاعری کے تعلق سے علامہ فرماتے ہیں :

’’شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز، کسی واقعہ، کسی حالت، کسی کیفیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصوریر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈک، صبح کی شگفتگی، شام کی دلآویزی یا رنج و غم، غیظ و غضب، خوشی و محبت، افسوس و حسرت، عیش و طرب، استعجاب و حیرت، ان سب چیزورں کا اس طرح بیان کرنا کہ وہی کیفیت دلوں پر چھا جائے، اسی کا نام شاعری ہے۔ ‘‘(موازنہ انیس و دبیر۔ علامہ شبلی نعمانی۔ صفحہ ۱۹۱۔ )

شاعری کے سلسلے میں علامہ کی درج بالا تعریف کافی حد تک کامل ہے۔ گویا علامہ نے شاعری کے ہر پہلو کو نظر میں رکھ کر ہی شاعری کی یہ تعریف پیش کی ہے۔

دل ؔ تاج محلی صاحب ایک ایسے شاعر ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اپنی علمیت اور اپنی ادبی خدمات، اپنی کاوشوں سے اردو ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام پیدا کیا۔ اس بات کا اعتراف اہل علم بھی کرتے ہیں، دل تاج محلی صاحب کی شاعری کے سلسلے میں قیس رام پوری رقم طراز ہیں کہ :

’’ دلؔ تاج محلی ایک بیدار مغز فنکار ہیں۔ وہ بات نہایت سلیقے سے کرتے ہیں۔ اور ہر محاذ پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ غزل میں لطافت و دلکشی کے ساتھ ساتھ پیغام بھی ہے۔ دل کو چھو لینے والے اشعار کی بھر مار ہے۔ با مقصد اور بے ساختہ مصرعے ان کے اشعار میں جان دال دیتے ہیں۔ ‘‘( بحوالہ : زخم دل، ص۔ ۱۲)

دل تاج محلی صاحب کی شخصیت اور ان کی شاعری کے سلسلے میں مجروح سلطان پوری لکھتے ہیں کہ :

’’ الحاج دل ؔ تاج محلی دکھی دلوں کا ساتھی، مجروح جذبات کا مونس و غمخوار ہی نہیں بلکہ قوم کے درد دسے آشنا بھی اور مداوا بھی ہے۔

  بھر پور زندگی جینے والا یہ شاعر یہ مصنف یہ باوقار انسان بہت بڑا سرکاری افسر۔ بین الاقوامی شہرت کا حامل صنعت کار، مشیر بھی ہے اور مشورہ بھی جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک کوزے میں دریا سمو دیا ہو۔ ‘‘ (بحوالہ : زخم دل، ص، ۱۳)

’’زخم دل ‘‘کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غزل کے لیے جس شعری وجدان اور داخلی کرب کی ضرورت ہے وہ دل ؔ تاج محلی صاحب کے کلام میں سچائی اور صداقت سے نظر آتی ہے۔ ان کی غزلیں نیم رومانی، نیم اشتراکی ہیں۔ سماجی شعور اور رومانی احساس، دو الگ الگ حقیقتیں ہیں مگر ان کی فطری ہم آہنگی شاعر اور شاعری کو زندگی کی صداقتوں سے روشناس ہی نہیں بلکہ ہم آغوش بھی کرتی ہیں، دلؔ تاج محلی صاحب کے یہاں یہ امتزاج جگہ جگہ محسوس ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کی غزلوں میں وہ صلابت، وہ گداز اور وہ سپردگی جگہ جگہ موجود ہیں جو اچھی غزل کی جان کہی جاتی ہیں۔ ان کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہمارا غم نہ رہا غم خوشی خوشی نہ رہی

وہ کیا گئے کہ محبت کی زندگی نہ رہی

الٹ سکے نہ کسی مہہ جبیں کے رخ سے نقاب

ہمارے ذوق نظر میں یہ بات بھی نہ رہی

مین ان سے آج سکون حیات مانگ نہ لوں

پھر اس روش پہ توجہ رہی رہی نہ رہی

دل ؔ تاج محلی صاحب کی شاعری میں ان کا اندازعموما قدر انفرادی ہوتا ہے اوران کے تخلیقی وجدان میں جمالیات اور حقیقت پسندی کی جو فکری سر شاری ہوتی ہے وہ ان کی شاعری میں بالکل نئی اور عجیب و غریب اہمیت کی حامل بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور حرکی توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب اور قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و تخیل، تجربات و مشاہدات اور احساسات جذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار کا نام شاعری ہے اور ہر اچھی اور قابل قدر شاعری میں ان خصوصیات کا ہونا ناگریز بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فکری ریاضت اور فنی مزاولت بھی شاعر کے لیے درکار ہوتی ہے، کیونکہ شاعری لفظوں میں زندگی کی حرارت اور اندرونی سوز کی آنچ لفظی پیکروں میں ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو فکری اور فنی زرخیز ی کے ساتھ تہذیب اور تمدنی روایات و اقدار اور کلاسیکیت کے رشتے اور عرفان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کے عرفان، حال کے گیان اور مستقبل کے امکان سے شاعری میں حیرت انگیزی، کشش، جاذبیت، اور تاثیر در آتی ہے اور شاعری کے ان تمام اسرار و رموز سے دل ؔتاج محلی صاحب پورے طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ ان کے لفظوں میں خیالوں کے ارتقا میں جو ربط و تسلسل ہوتا وہ دراصل زندگی کے اسی ماضی حال اور مستقبل کے ربط و تسلسل سے عبارت ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی غزلوں کی معنویت میں بھی ایک مخصوص قسم ضابطہ پسندی پائی جاتی ہے۔ ایک سنجیدہ شاعر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے دور حاضر کے مسائل و میلانات اور تغیر زمانی کو بھی اپنی شاعری کا جزو بنایا ان کی شاعری دور حاضر کا ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں بدلتے زمانے کے بدلتے تقاضوں کی تصویر بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں ان کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

سلیقے سے ذرا پھر آدمی کا امتحاں ہوتا

مزہ جب  تھا کوئی ممنزل نہ ہوتی کارواں ہوتا

یہ دل میں جذبہ ٔ بیدار پھر پیدا کہاں ہوتا

اگر پردہ ہی پردہ میرے ان کے درمیاں ہوتا

بڑی خوش قسمتی ہے آشیاں ہونا بھی گلشن میں

نہ ہوتا آشیاں تو پھر سوال آشیاں ہوتا

مسلسل گردش دوراں سے ٹکراتا اگر میں بھی

تو میرا ذکر الفت داستاں در داستاں ہوتا

دل ؔتاج محلی صاحب کی شعری جہات میں تنوع بھی ہے اور کشادگی بھی ہے جس میں انفس و آفاق کے سبھی پہلو روشن نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ بصیرت اور ہنرمندی سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اسلوب بے حد سلیس اور سادہ ہے۔ پیچیدہ تیراکیب‘ثقیل الفاظ‘نادر تشبیہات اور استعارات سے وہ اپنی غزلوں کو بوجھل نہیں کرتے ہیں۔ سیدھے سادے لفظوں میں اپنی بات اس طرح کہہ جاتے ہیں کہ ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

یہ بہانا ترا قیامت ہے

مسکرانا ترا قیامت ہے

بے ضرورت بغیر ترک کرم

بھول جانا ترا قیامت  ہے

اپنے بہکے ہوئے قدم تو سنبھال

جھوم جانا ترا قیامت ہے

دلؔ تاج محلی صاحب نے اپنے ذوقِ جمال کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بہت سارے اشعار ایسے بھی کہے ہیں جن میں جمالیاتی کیف وکم کی چاشنی ایک انوکھے ذائقے سے روشناس کراتی ہے۔ ان کا یہ ذوقِ جمال خصوصاً نظموں کے مقابلے غزلوں میں زیادہ نمایاں نظر آتا ہے مثالاً چند اشعار پیش ہیں۔

غنچہ و شبنم موج و تلاطم

ایسے ساتھی جیسے ہم تم

دل سے ہوا جب دل کا تصادم

بن گئے جیون ساتھ ہم تم

اٹھ گئیں جتنی بار وہ نظریں

ہو گیا اتنی بار تصادم

ایک اچھا شاعر اور ادیب وہی ہو سکتا ہے جس میں حق گوئی اور بے باکی کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا جذبہ بھی ہو اور معاشرے کی نا ہمواریوں کو نشان زد کر کے لوگوں کی سوچ کو تعمیری جہت عطا کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہو۔ اس نقطۂ نظر سے جب ہم دلؔ تاج محلی صاحب کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے منصب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے اور اظہار حقیقت میں صداقت پسندی سے کام لیا ہے۔ دلؔ تاج محلی صاحب کی شاعری فطری ہے اور اسے کسی ازم کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں، سیدھے سچے جذبوں کی شاعری، نہ کوئی پیچیدہ علامت نگاری اور نہ ہی لفظوں کا الجھاؤ۔ ان کی غزلوں میں زندگی کے مسائل کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے جس سے ان کے حساس اور انسانی ہمدرد ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی  غزلوں میں موضوعات کی سطح پر ایک طرح کا تنوع ہے، جس سے ان کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ محبتوں کے شاعر ہیں، انسانی ہمدردیوں کے شاعر ہیں، زندگی کے مثبت رویوں کے شاعر ہیں، اپنے اسلاف کی تہذیبی قدروں کی شناخت اور اس کی حفاظت کرنے والے شاعر ہیں اور اس سے بڑھ کر امن و امان اور مساوات کو معاشرے کے لئے ناگزیرسمجھنے والے شاعر ہیں، وہ اپنی غزلوں میں زندگی کی امید پیدا کرتے ہے، مشکلات کا ہنر سکھاتے ہے چنداشعارملاحظہ فرمائیں :

جو راہ ہوتی ہے مشکل تلاش کرتا ہوں

تجھے نہیں تری منزل تلاش کرتا ہوں

جواب جذبہ ٔ  کامل تلاش کرتا ہوں

مین اپنے دل کے لئے دل تلاش کرتا ہوں

جو گم ہوئی ہے وہ منزل رتلاش کرتا ہوں

مجھے نہ ڈھونڈھ کہ میں دل تلاش کرتا ہوں

دلؔ تاج محلی صاحب نے الفاظ کی جادوگری دکھاتے ہوئے ایسی منظر کشی کی ہیں کہ انھوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے تمام مناظرجیتے جاگتے پیش کردیے ہیں ان کے اشعارمیں صداقت کا جذبخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سچے دل سے جذبوں کی قدر کرتے ہیں۔ غزل انسانی جذبات کی ترجمانی بھی ہے جسے دلؔ تاج محلی صاحب نے بڑی چابک دستی سے پیش کیا، ان کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :۔

بہار آئی ہے زنداں سجائے جاتے ہیں

ہمارے خون کے چھالے لگائے جاتے ہیں

خزاں میں روباں گلستاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

بہار میں تو سبھی مسکرائے جاتے ہیں

سنبھل سنبھل کے رتی لغزش مسلسل سے

پھر آج دونوں جہان ڈگمگائے جاتے ہیں

دل ؔتاج محلی صاحب کا فنکارانہ کمال بھی یہ ہے کہ وہ ردائف کو بغاوت کو موقع نہ دے کر ان سے خاطر خواہ کام لے کر اپنے اشعار میں معنی کا ترفع و تنوع اور ان میں گہرائی و گیرائی نیز تہہ داری بیدار کرکے اپنے فن کے معیار کو بلند یوں پر پہنچا دیتے ہیں۔ وہ کم لفظوں میں بھی بڑی سے بڑی بات کہہ دینے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے مجموعہ ٔ کلام کے مطالعہ سے یہ بھی بات عیاں ہوتی ہے کہ دلؔ تاج محلی صاحب کی غزلوں میں ایک نغمگی اور جھنکار ہے جس میں بلا کا تسلسل ہے۔ ان کی غزلوں میں جما لیات، زلف ورُخسار کی وادیاں، عاشق ومعشوق کی نفسیات کا خوبصورت مرقع اور عمدہ تشبیہات و استعارات سے عبارت ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی بڑی باتیں کہہ دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ ان کے کلام میں ہجر وفراق، اور جدائی کا درد جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید اسلوبِ بیان بھی ہے۔ فنی تنوع کے ساتھ ساتھ مضامین اور موضوعات کی رنگا رنگی بھی قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

وہ شب غم کی بات کیا جانیں

کیسے ڈھلتی ہے رات کیا جانیں

حادثات حیات کیا جانیں

وہ یہ نازک سی بات کیا جانیں

جو محبت کے نام سے چوکیں

وہ محبت کی بات کیا جانیں

بیخودی میں گزارنے والے

ہوشمندی کی بات کیا جانیں

دلؔ تاج محلی صاحب کی غزلوں کا دوسرا رنگ بھی ہے جہاں زلف ورخسار کے حصار سے نکل کر عصر ی تقاضے، تخیل کی رفعت، تجربات کی وسعت، ادب کی مقصدیت، بصیرت اور طرب وکرب کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری رنگِ تغزل سے آراستہ ہے۔ ان کے یہاں روایت کے ساتھ عصر سے بھر پور استفادہ ملتا ہے۔ حسن و عشق، الفتیں، محبتیں، دل کے راز اور حسین جذبے ان کی غزلوں کا خاصہ ہیں۔ دل تاج محلی صاحب کو شعری اظہار پر قدرت حاصل ہے۔ انہیں اپنی باتیں کہنے کا وہ سلیقہ میسر ہے جو دلوں پرحکمرانی کا قائل ہے۔ کسی موضوع کو شعری قلب میں ڈھالنے کے لئے جس نزاکت الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے اس کا وہ پورا خیال رکھتے ہیں۔ اور یہی عناصر ان کی نظموں، گیت، قطعات میں بھی موجود ہیں۔

دلؔ تاج محلی صاحب ایک حساس اور دردمند دل شاعر ہیں، ایک بڑے کینوس کے شاعر۔ ان کے یہاں جہاں ایک طرف گھر آنگن اور رومانی جذبوں کی فراوانی ہے وہیں دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے تغیرات کا منظر نامہ بھی ان کی شاعری کا اہم حصہ ہے۔ انھوں نے عہد حاضرکے تغیرات کو اپنی شاعری میں سمیٹا۔ انکی شاعری فطری ہے اور اسے کسی ازم کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں، سیدھے سچے جذبوں کی شاعری، نہ کوئی پیچیدہ علامت نگاری اور نہ ہی لفظوں کی شعبدہ بازی  دلؔ تاج محلی صاحب کی غزلیں انکے جذبات، احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہیں، عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی انکی تخلیقات میں جا بہ جا محسوس کئے جا سکتے ہیں، اور شاید اسی لئے وہ اپنے عہد کے بعض تخلیق کاروں کے مقابلے نمایاں نظر آتے ہیں اور ایوان ادب میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ شاعری کا فن بڑی نزاکت و لطافت کا فن ہے اور شاعری کابنیادی تعلق شاعر کی شخصیت اس کے فکر و خیال اور طبیعت و مزاج کی افتاد سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ خلیل الرحمن اعظمی نے ایک مقام پر لکھا ہے۔

       ’’ شعر و ادب کا تعلق بنیادی طور پر شاعر و ادیب کی شخصیت، اس کے مزاج، اس کی افتاد طبع اور اس کے تجربات و محسوسات کی نوعیت سے ہے۔ یہ تجر بات و محسوسات جس قدر حقیقی ہوں گے ـ، ان کی جڑیں زندگی میں جتنی گہری ہوں گی اور اس کا رشتہ شاعر و ادیب کی اصل شخصیت اور اس کی افتاد طبع سے جتنا فطری اور حقیقی ہوگا۔ اسی اعتبار سے وہ فن پارے کی تخلیقی صلاحیت کو پورا کرنے کے قابل ہوگا اور اس کی تحریر وں میں وہ آب و رنگ پیدا ہوسکے گا جن کی بدولت ان کی تاثیر دیر پا اور مستقل حیثیت کی حامل ہوگی۔ ‘‘

 مذکورہ اقتباس کے تناظر میں دلؔ تاج محلی صاحب کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت میں بڑی ہم آہنگی ہے۔ ان کے محسوسات و تجر بات میں بھی حقیقت پسندی اور ان کی شاعری کا رشتہ زندگی کی افتاد طبع سے بھی مستحکم اور مضبوط ہے۔ اس مختصر مضمون میں ان کی شاعری کی دنیا کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالنا یقینا ممکن نہیں لہٰذا میں اپنی باتوں کا اختتام ان کی غزل کے ان اشعار پر کرنا چاہونگی ملاحظہ فرمائیں :

بھولوں میں تلے ساتھی یہ حسن کی قسمت ہے

کانتوں میں الجھنے کو دامان محبت ہے

دل ؔ تیری جفاوں کا مفہوم نہیں سمجھا

کچھ اور تغافل کی اے دوست ضرورت ہے

تبصرے بند ہیں۔