محسن انسانیتؐ اور عدل و انصاف

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالیٰ نے بگڑے ہوئے معاشرے کی طرف مبعوث فرمایا ایک وقت تھا کہ عرب کے معاشرے کے اندر قتل وغارت، ڈاکہ زنی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کئی سال تک لڑائی او ر دنگہ فساد جاری رہتا تھا۔ جانوروں کو پانی پلانے پہ اگرلڑائی شروع ہوجاتی تو خاندان کے خاندان بستیوں کی بستیاں اجڑ جایا کرتی تھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے دشمنیاں دوستی میں بدل گئیں۔ وہ جو آپس میں دست وگریباں تھے باہم شیروشکرہوگئے۔ اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کیلئے اپنا بہت بڑا انعام قرار دیا۔ آپ بلا شبہ محسن انسانیت ہیں۔ آپ نے ہر انسان کو اس کے حقوق ادا کئے اور دنیا میں وہ نظام قائم کیا جس کے نتیجے میں حاکم و محکوم اور امیر و فقیر، سب قانون کی نظروں میں برابر قرار پائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول یہ تھا کہ آپ کے کسی عمل سے نادانستہ طور پر بھی کبھی کسی انسان کو کوئی اذیت پہنچتی تو آپ بڑی خندہ پیشانی سے خود کو پیش فرما دیتے اور متاثرہ شخص سے کہتے کہ وہ اپنا بدلہ لے لے۔

بدلہ لے لو!

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص آپ کے بہت قریب ہوگیا، جس کی وجہ سے آپ کے نیزے کی انی سے اس کے چہرے پر زخم آگیا۔ آپ نے اس شخص سے کہا کہ وہ اپنا بدلہ لے لے مگر اس نے خوش دلی سے کہاکہ میں نے آپ کو معاف کر دیا۔ (مجمع الزوائد)

غزوہ بدر کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صف بند ہونے کا حکم دیا۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ آپ نے دیکھا کہ سواد بن غزیہ صف سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ آپ نے انھیں صف میں سیدھے کھڑے ہونے کا حکم بھی دیا اور لکڑی سے ان کے پیٹ پر ٹھونکا بھی لگایا۔ حضرت سواد بن غزیہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خدا تعالی نے آپ کو حق و عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، مجھے اس کا بدلہ(قصاص)دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لکڑی سواد کی طرف بڑھائی اور فرمایا : لو! بدلہ لے لو۔ انھوں نے عرض کیا : میرا پیٹ تو ننگا تھا، آپ کے پیٹ پر کرتہ ہے۔ اس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ مبارک بطن سے اٹھا دیا۔ حضرت سواد آگے بڑھے، لکڑی ایک جانب پھینکی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن مبارک کو بوسہ دیا، پھر آپ سے لپٹ گئے اور اپنے جسم کو آپ کے جسم مبارک سے خوب مس کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے سواد !تم نے یہ کیا کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، کوچ کا وقت آیا چاہتا ہے۔ میں نے چاہا کہ جانے سے پہلے آخری عمل آپ کو بوسہ دینا اور آخری لمس جسدِ مطہر سے چھونا نصیب ہوجائے۔ سو میں نے یہ تمنا پوری کرلی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جذبہ صادقہ اور خلوصِ عمل کو دیکھ کر ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ (سیر بن ہشام مجموعہ، ج 1-2، ص626۔ مغازی للواقدی، ج1، ص:56-57)

مجھ سے راضی ہوجائو!

مئورخین نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ آپ نے دو موٹے جوتے پہن رکھے تھے۔ حضرت ابو رہم غفاری کی اونٹنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے قریب ہوئی۔ وہ اونٹنی بڑی تیز طرار تھی، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے ٹکرا گئی اور صحابیِ رسول کی جوتی کا کنارہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی پر لگا۔ وہ کہتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنا پائوں پیچھے کر۔ پھر آپ نے میرے پائوں پر کوڑا مارا۔ میں بہت ڈرا کہ اس گناہِ عظیم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ میرے بارے میں نہ جانے کیا حکم نازل فرمائے گا۔ خوف سے میرا برا حال تھا۔ الجعرانہ پہنچ کر میں صحابہ کے اونٹ کو چرانے کیلئے جنگل لے گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میری تلاش میں بھیجا۔ جب مجھے تلاش کرتا کرتا وہ شخص وہاں پہنچا تو مجھے خیال ہوا کہ وہی بات ہوئی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اللہ کی طرف سے آنے والے عتاب کے بارے میں خبر دینا چاہتے ہیں۔ میں ڈرتا ڈرتا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ آپ نے مجھے طلب فرمایا ہے تو آپ نے فرمایا: ہاں، تو نے مجھے پائوں سے تکلیف پہنچائی تھی اور میں نے تجھے کوڑا مارا تھا۔

لو یہ بکریوں کا ریوڑ لے لو اور مجھ سے راضی ہوجائو۔ کہتے ہیں کہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ!آپ مجھ سے راضی ہیں تو آپ کی رضا مجھے دنیا وما فیہا کی ہر چیز اور مال سے زیادہ عزیز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو بکریاں دی تھیں، ان کی تعداد اسی تھی اور وہ اون والی بکریاں تھیں۔ حضرت ابورہم کا نام کلثوم بن الحصین تھا۔ وہ سابقون میں سے تھے اور تمام غزوات کے علاوہ بیعت رضوان میں بھی شرکت کا اعزاز ان کو حاصل تھا۔ (مغازی للواقدی، ج 3، ص:1001-1002)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کئی مرتبہ مجمع عام میں اعلان فرمایا کرتے کہ کسی شخص کو آپ کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہو یا کسی کا قرض آپ کے ذمے ہو، جو یاد نہ رہنے کی وجہ سے آپ ادا نہ کرپائے ہوں تو وہ آپ سے وصول کرلے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل کا اثر تھا کہ خلفائے راشدین خود کو اپنی رعایا کے سامنے ہمیشہ احتساب کیلئے پیش فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمر کے بارے میں کئی واقعات مئورخین نے مستند حوالوں سے نقل کئے ہیں کہ آپ جب اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش فرماتے تو لوگ بغیر کسی جھجک کے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے۔

ہرگزتمہاری اطاعت نہیں کرینگے

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے اور لوگوں سے دریافت کیا کہ میں جو حکم تمہیں دوں گا کیا تم اس کی اطاعت کروگے؟ تو لوگوں میں سے ایک اعرابی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا: اے عمر!ہم ہرگز تمہاری اطاعت نہیں کریں گے۔ جب وجہ دریافت کی گئی تو اس نے بتایا کہ مالِ غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں، سب لوگوں کو ایک چادر ملی تھی۔ آپ کے حصے میں بھی ایک ہی چادر آئی تھی لیکن لگتا ہے کہ آپ نے اپنے حق سے زائد وصول کیا ہے، کیونکہ ایک چادر سے آپ جتنے لمبے آدمی کا لباس نہیں بن سکتا تھا جبکہ آپ نے اسی چادر کا لباس پہنا ہوا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ جواب دیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک چادر سے اباجان کا لباس نہ بن سکا تو میں نے اپنے حصے والی چادر بھی انہیں دے دی تاکہ ان کا لباس بن سکے۔ اعرابی نے یہ سن کہاکہ ہاں !اب آپ جو بھی حکم دیں گے، ہم اس کی اطاعت کریں گے۔

ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا ہے

 حضرت عمر ؓحج کے موسم میں ایک عوامی عدالت لگایا کرتے تھے۔ پوری اسلامی ریاست سے آئے ہوئے حجاج کیلئے یہ موقع ہوتا تھا کہ ان کو مرکزی یا اپنے صوبے کی حکومت سے کوئی شکایت ہے تو وہ پیش کرسکیں۔ ایک موقع پر اس عدالت میں جب حضرت عمرؓ نے خود کو پیش کیا تو کسی نے احتساب نہ کیا۔ پھر آپ نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور گورنروں کے بارے میں پوچھا تو مصر کے ایک نوجوان نے کھڑے ہوکر کہا کہ حاکم مصر عمرو بن العاص ؓکے بیٹے کے خلاف میری شکایت ہے۔ دریافت کیا کہ کیا شکایت ہے تو ا س نے عرض کیا: میں نے بھی گھوڑا دوڑایا تھا اور اس نے بھی۔ میرا گھوڑا جیت گیا اور اس کا گھوڑا پیچھے رہ گیا تو گورنر کے بیٹے نے مجھے چابک مارے۔

جب کیس ثابت ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاکم مصر کے بیٹے کو قصاص کیلئے پیش ہونے کا حکم دیا۔ پھر اس شکایت کنندہ کو حکم دیا کہ جتنے چابک اس نے مارے تھے، اتنے ہی چابک وہ بھی اس کو مار لے اور اتنے ہی زور سے مارے جتنے زور سے گورنر کے بیٹے نے اسے مارے تھے۔ اگر زیادتی کرے گا تو اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا کیونکہ یہ تو ہی جانتا ہے کہ تیرے ساتھ کتنی زیادتی ہوئی تھی، میں تو وہاں موجود نہ تھا۔ جب یہ فیصلہ نافذ ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع عام کے سامنے وہ تاریخی الفاظ کہے جو سنہری حروف میں ہماری تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں ’’ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا ہے، تم نے ان کو کیوں غلام بنالیا ہے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص66، از شبلی نعمانی، ص:270-271)

ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا: اے عمر! خدا سے ڈر۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکا اور کہاکہ بس بہت ہوا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم لوگ نہ مانیں تو ہم۔ ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ خلافت اور حکومت کے اختیارات اور حدود تمام لوگوں پر ظاہر ہوگئے تھے اور شخصی شوکت اور اقتدار کا تصور دلوں سے جاتا رہا۔ (کتاب الخراج، ص:66بحوالہ ایضا)

عدل و انصاف 

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پسند کی شرط پر ایک گھوڑا خریدا اور امتحان کیلئے ایک سوار کو دیا۔ گھوڑا سواری میں چوٹ کھاکر داغی ہوگیا۔ حضرت عمر ؓنے اس کو واپس کرنا چاہا، گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ اس پر نزاع ہوئی اور شریح ثالث مقرر کئے گئے۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس کیا جاسکتا ہے، ورنہ نہیں۔ حضرت عمر ؓنے کہا: حق یہی ہے اور اسی وقت شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ (کتاب الاوائل الباب السابع ذکر القضا، 12 بحوالہ ایضا)

آج عالم اسلام کی عجیب کیفیت ہے۔ لوگ انصاف کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ حکمران اور با اثر طبقات قانون سے بالا تر ہیں۔ غریب آدمی اپنا حق حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ جب حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگیں تو پھر جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ یہ صورت حال مسلمانوں کیلئے مصیبت کا باعث بھی ہے اور پوری امت مسلمہ کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی ہے۔ کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو جب احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں خلفائے راشدین اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تو آج کے اس دور کے اندر ان کے نام لیوا بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر  نہ سمجھیں اسی میں مسلمانوں کی اور ان کے امراء وحکماء کی کامیابی ہے اللہ پاک ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسول کی سیرت وکردار کو اپنا نے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)

تبصرے بند ہیں۔