عبدالعزیز
اتر پردیش کے انتخاب کا نتیجہ ملک کی سیاست اور ملک کے سیاستدانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ اس کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں ۔ اگر چہ چار مزید ریاستوں کے انتخابات ہوئے ہیں مگر اتر پردیش کا الیکشن ہندستانی سیاست کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اتر پردیش میں مودی شاہ کی یک طرفہ کامیابی جو 2014ء سے شروع ہوئی تھی اس کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں ۔ مودی شاہ کی پارٹی کی کامیابی غیر متوقع نہیں ہے مگر جس پیمانے پر کامیابی ملی ہے وہ حیرت میں ڈال دینے والی ہے۔ 2014ء میں بی جے پی کو 43.3 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ اسمبلی الیکشن میں لگ بھگ 40فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ اگر چہ تین چار فیصد بی جے پی کو کم ملے ہیں پھر بھی اسے بڑی کامیابی ملی ہے۔ ووٹ کی شرح فیصد بڑھانے میں بی جے پی کامیاب نہیں ہوئی مگر سیٹوں کی تعداد بتاتی ہے کہ اس کی غیر معمولی جیت اور اپوزیشن کی غیر معمولی شکست میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ اتر پردیش کے پرانے حصہ اترا کھنڈ میں بھی بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی ہے۔ حالانکہ پنجاب میں کانگریس کی جیت اور منی پور اور گوا میں کانگریس کی برتری سے حالات میں کچھ سدھار ضرور ہوا ہے اور کانگریس کی پرنسپل اپوزیشن کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے ہیں ۔
بی جے پی کانگریس مکت بھارت چاہتی ہے مگر اس الیکشن سے بی جے پی کی تمنائیں بر نہیں آئی ہیں مگر اتر پردیش میں ایس پی اور بی ایس پی کے غلط کاموں کی وجہ سے بی جے پی کا حوصلہ بڑھا ہے، اتر پردیش میں کانگریس کمزور ترین پارٹی ہے، وہاں کانگریس کے پاس علاقائی کوئی لیڈر پنپنے نہیں پایا۔ کانگریس کی ریموٹ کنٹرول کی پالیسی نے اتر پردیش میں کانگریس کو کھالیا۔ پنجاب میں ریموٹ کنٹرول کی پالیسی کامیاب نہیں ہوئی جس کی وجہ سے علاقائی لیڈر شپ کو تقویت حاصل ہوئی او ر امریندر سنگھ نے اپنی لیڈر شپ کو مستحکم کیا اور وہ اپنی مہم کو حوصلہ کے ساتھ آغاز کیا اور اختتام کیا۔ راہل گاندھی جیسے لیڈر کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر امریندر سنگھ کو اعلان کرنے میں دیر ہوئی تھی پھر بھی امریندرنے پنجاب کے عوام سے اپنی قیادت کو تسلیم کرالیا تھا۔ امریندر نے صحیح کہا ہے کہ کانگریس کو ریموٹ کنٹرول کی پالیسی سے باز آنا پڑے گا اور ریاست کی لیڈر شپ کو آزادی دینی ہوگی اور مقامی و علاقائی لیڈر شپ کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی حتی الامکان کوشش کرنی ہوگی جب ہی ریاستوں میں کانگریس متبادل ہوسکتی ہے۔ کانگریس کیلئے یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ جہاں ریاستی پارٹیاں مضبوط ہیں وہاں اتحاد کی سیاست پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ لوک سبھا کا الیکشن ایک ڈیڑھ سال کے اندر ہی ہوگا۔ ایک ڈیڑھ سال میں کانگریس جیسی پارٹی کیلئے علاقائی لیڈر شپ کو تیار کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اتر پردیش میں اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ملائم سنگھ اور شیو پال سنگھ جو کانگریس دشمنی کی سیاست کرتے تھے وہ حاشیہ پر آگئے ہیں اور اکھلیش یادو جو کانگریس سے اتحاد کے حامی ہیں ، سماج وادی پارٹی کی کمان ان کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مایا وتی کو اب اکھلیش کے انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں ، خود تو ڈوبیں گی اپوزیشن کو بھی لے ڈوبیں گی۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں اگر اکھلیش اور راہل کے اتحاد میں مایا وتی بھی شامل ہوگئی ہوتیں تو آج مایا وتی یا اپوزیشن کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے بلکہ بہار جیسا رزلٹ اتر پردیش میں بھی ہوتا۔
ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کو لگ بھگ 60فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ بی جے پی کو 40 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل ہوئے ہیں ۔ اگر تینوں پارٹیوں کا اتحاد ہوتا تو بی جے پی کو 40 سیٹوں سے زیادہ نہیں ملتی۔ بہر حال جو ہوا ہوا مگر اب 2019ء کی تیاری ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ تینوں پارٹیوں کا اتحاد ابھی سے اسمبلی کے اندر اور باہر ہوجانا چاہئے۔ بہار کے لالو پرساد کو قومی سطح پر رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام وہ اتر پردیش سے شروع کر سکتے ہیں ۔ تینوں پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر ابھی سے اکٹھا کریں اور 2019ء کی تیاری کیلئے ابھی سے تینوں پارٹیوں کو آمادہ کریں ۔ جب ہی اپوزیشن بی جے پی کی متبادل ہوسکتی ہے اور مودی شاہ کو شکست فاش دے سکتی ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔