تعلیم: انسان کا بنیادی حق

محمد شاد 

تقریبًا 8 برس پہلے 2009 میں ایک اہم قانون پاس ہوا تھا جسے تعلیم کا بنیادی حق کہہ سکتے ہیں۔ یہ قانون بہت اہم ہے، لیکن اسکے مسودہ میں بعض خامیاں ہیں اور اسکے نفاذ میں بہت سی کمزوریاں پائی گئی ہیں۔ اس لیے اسکو مکمل قانون کا درجہ نہیں دیا سکتا۔اس قانون کے مطابق تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور 6-14 برس تک تمام بچّوں کو بنیادی حق کے طور پر تعلیم ملنی چاہیے۔ اس قانون کی نیت نیک ہے، لیکن نہ ملک کے تمام بچّے تعلیم پا رہے ہیں ، نہ انکی تعلیم کے لیے مناسب حالات ہیں۔

بعض اسکول صرف ایک کمرے میں چل رہے ہیں۔ عام تعلیم کے لیے جیسے استادوں کی ضرورت ہے ، نہ وہ تعداد موجود ہے، نہ استادوں کی تربیت کا معقول انتظام ہے۔ تعلیم کو بنیادی حق ماننے کے باوجود اس حکومت کی طرف سے مناسب توجہ نہ ملنے کی وجہ سے عدالتوں کو اس میدان میں قدم رکھنا پڑا ہے، جو حکومت کی ذمِّہ داری ہے۔ معاملات صاف نہ ہونے کی وجہ سے بھی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے لیے قانون کے مطابق بچّوں کا اسکول پڑوس میں ہونا چاہیے۔ لیکن، یہ واضح نہیں ہے کہ پڑوس کا مطلب گھر سے کتنی دوری ہے؟ عام طور پر والدین کو اس وقت شکایت ہوتی ہے جب انکو اپنی پسند کا اسکول قریب میں نہیں ملتا۔ کچھ والدین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔عدالت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ماں باپ کی پسند کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکتی۔

تعلیم کو بنیادی حق بنانے کے لیے سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ عام تعلیم کے لیے جتنے اور جیسے اسکولوں کی ضرورت ہے، وہ موجود نہیں ہیں۔ اس کے لیے بچّوں کو اور والدین کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت تعلیم کے حق کو حقیقت بنانے کے لیے اپنی ذمِّہ داری نہیں محسوس کرتی ۔ نہ اسکولوں کے لیے اچھّی عمارتیں ہیں، نہ انکے لیے صاف پانی پینے کا بندوبست ۔ دن کے کھانے کا جو انتظام ہے، وہ ہر جگہ معیاری نہیں ہے۔ ملک کے لاکھوں غریب بچّوں کو گھر پر وہ کھانا نہیں ملتا جو انکے جسم اور دماغ کی ترقی کے لیے موزوں ہو۔ ایسی صورت میں اسکول سے جو دن کا کھانا ملتا ہے، وہ اس کمی کو پورا کر سکتا ہے، جو گھر میں حاصل نہیں ہوتی۔

تعلیم کا مقصد محض کتابوں کو رٹانا نہیں ہے۔ اصل تعلیم بچّے کی پوری شخصیت کو ابھار کر سامنے لاتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسکول میں ایک اچھّا کتب خانہ ہو اور ایسا کھیل کا میدان ہو جہاں وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھ سکیں۔ بچّوں کی شخصیت کلاس روم کے باہر کھیل کے میدان میں بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ تعلیم کے بنیادی حق میں جسمانی سزا یا مار پیٹ کی ممانعت ہے۔ لیکن، اکثر جب استاد تعلیم یافتہ نہیں ہوں تو وہ زبان سے زیادہ چھڑی سے کام لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچّے پڑھائی سے دل لگانے کے بجائے پڑھائی کو غیر ضروری بوجھ سمجھتے ہیں۔

اسکول ایسا نہیں ہونا چاہیے جہاں جانے کو بچّے کا دل نہ چاہے۔ اسکول کا ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ بچّہ خود بخود اسکول جانے کے لیے تیّار ہو جائے۔ اس میں کئی باتیں کشش رکھتی ہیں۔ سب سے بڑی کشش استاد کی ذات ہوتی ہے۔ اچھّے استاد پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچّے کی تربیت اور مزاج کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بچّا ساری زندگی اپنے استادوں کو یاد رکھتا ہے۔ بچّے کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں استاد کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اکثر بچّے کو وہ ماحول اور پیار گھر پر نہیں ملتا جو اسے اسکول کی طرف لے جاتا ہے۔

2009 میں جب یہ قانون بنا تھا تو یہ امّید پیدا ہوئی تھی کہ اب شاید تعلیم عام ہو جائے گی۔ کوئی بچّہ اسکول جانے سے محروم نہیں رہے گا۔ ملک کو آزاد ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں، لیکن آج بھی ملک کے لاکھوں بچّے اسکول نہیں جاتے۔ اور جو جاتے بھی ہیں وہ پڑھائی پوری کیے بغیر اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیےایک کمیشن قائم ہوا تھا جو کوٹھاری کمیشن کے نام سے مشہور ہے۔ اس کمیشن نے مشورہ دیا تھا کہ کل قومی آمدنی کا چھہ فیصد حصّہ تعلیم پر صرف کیا جائے۔ لیکن، یہ شرم کی بات ہے کہ آج بھی یہ رقم قومی آمدنی کا صرف 3.8 فیصد حصّہ ہے۔

بجٹ میں تعلیم کے لیے مناسب رقم نہ ملنے کی وجہ سے اسکول اچھّی عمارتوں میں نہیں ہیں۔ نہ تربیت یافتہ استاد پڑھاتے ہیں، نہ کھیل اور کتب خانوں کا بندوبست ہے۔ سرکاری اسکولوں کو معیاری بنانے کی بات اکژر سننے میں آتی ہے۔ لیکن، کوئی خاص نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا۔ رفتہ، رفتہ تعلیم تجارت کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ تعلیم کے مختلف مرحلے الگ، الگ توجہ کے محتاج ہیں۔بنیادی تعلیم پرائمری اسکول میں دی جاتی ہے۔ لیکن، وہاں حالات اچھّے نہیں ہے۔ نہ اچھّی عمارتیں اور نہ کھیل کے میدان ہیں، نہ کتب خانے ہیں۔ یہاں سے آگے بڑھ کر ثانویں (سکنڈری) تعلیم کے دور میں بچّے داخل ہوتے ہیں۔ تعلیم کے اس اہم دور میں کچھ بچّوں کوکسی کام یا پیشے کے لائق ہو جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے خاندان کی ذمِّہ داری اپنے کندھوں پر لے سکے۔

سکنڈری تعلیم کے مرحلے سے آگے بڑھ کر وہ اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب زندگی کی بہت سی راہیں اسکے لیے کھل جاتی ہیں۔ وہ وکیل، ڈاکٹر، انجنیر یا کچھ اور بن کر زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ پرائمری، سکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے تینوں مرحلے ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں، لیکن انکو ایک دوسرے الگ نہیں کیا جاتا۔ یہ ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ہر میدان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ استاد پیداکرنے والے ٹریننگ اسکول، انجنیر پیدا کرنے والے پولیٹکنک اور معیاری مڈیکل کالج جیسے کئی ادارے موجود ہیں۔ ان سب سے ہر سال ہزاروں نوجوان تعلیم اور تربیت حاصل کر کے اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عام اسکولوں میں پڑھنے والے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ خوش حال ہیں، وہ مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں بچّوں کو بھیجتے ہیں۔ وہاں بھیجنے کا خیال بھی غریب ماں باپ کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ تعلیم کو بنیادی حق بنانے کا مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب ملک کے غریب ماں باپ بھی اپنے بچّوں کو اعلیٰ مقام کے لائق بنا سکیں گے۔ یہ مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب حکومت تعلیم پر اپنے بجٹ کو بڑھائے گی اور اسکولوں میں اچھّی عمارتوں اور تربیت یافتہ استاوں کا بندوبست ہوگا۔ معیار کے مطابق سرکاری اسکولوں کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کو تجارت کا ذریعہ بننے کے بجائے سماجی خدمت کا وسیلہ بنایا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔