بی جے پی کی فتح اور مسلمانوں میں پھیلی مایوسی کا سبب

آفتاب عالم فلاحی 

 یوپی اور اتراکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شاندار فتح سے بسپا، سپا اور کانگریس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں بسنے والے مسلمانوں کے بھی ہوش اڑ گئے ہیں . ہر طرف قدرے مایوسی کا عالم ہے. آخر بی جے پی کی فتح کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر بھی سیاسی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں .  مسلمان ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے جو سب سے بڑی وجہ مان رہے ہیں وہ آپسی نااتفاقی اور مسلمانوں کے اندر عدم اتحاد ہے. یعنی ان کا خیال ہے کہ اگر مسلمان کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیتے تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا. آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ بی جے پی کی کامیابی کے اہم اسباب کیا ہیں ؟  ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا کیا رویہ ہوناچاہیے؟

(1) سب سے پہلے ہمیں اس ملک کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے. ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتا ہے. جس سیاسی جماعت کو اکثریت ووٹ دیتی ہے وہ اقتدار میں آجاتی ہے. ہندوستان میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً 80 فیصد ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمان صرف 14.2 فیصد ہیں . لہذا جمہوری( جس کے پاس زیادہ ووٹ) فلسفے کے مطابق یہاں کبھی مسلم جماعت حکومت نہیں کرسکتی کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اگر سارے کے سارے مسلمان کسی ایک پارٹی کے سایہ تلے متحد بھی ہو جائیں اور ہندو ووٹر پانچ جگہ تقسیم بھی ہو جائیں تب بھی ہندو پارٹی ہی اقتدار پر براجمان ہو گی . لہذا اس ملک میں کسی سخت گیر ہندو جماعت (بھاجپا) کا اقتدار میں آنے کا قوی امکان ہوتا ہے اور جو عملاً یوپی انتخابات میں ہوا بھی.

(2)  اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان اگر متحد ہوں تو حکومت کو مجبور کیا جا سکتا ہے … یہ نہایت ہی بھونڈی دلیل اور نظام سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے. فرض کریں 14.2 فیصد مسلمان اگر متحد بھی ہو جائیں تو ان کے صرف 14 اراکین پارلیمنٹ  ہوں گے باقی 86 اراکین غیر مسلم ہوں گے. لہذا مسلم اراکین کی جانب سے پیش کردہ کسی بھی بل کو ہندو اکثریت سے نامنظور کردیں گےاور مسلمانوں کا یہ اتحاد دھرا کا دھرا رہ جائے گا. جمہوریت ایسا نظام ہے جو اکثریتی طبقہ کو ہمیشہ  حکمران اور اقلیتی طبقہ کو بھکاری بنا دیتا ہے . اس نقطہ نظر سے اس ملک میں مسلمان ہمیشہ ہندو جماعتوں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرتا رہے گا. اسی لئے علامہ اقبال نے جمہوریت کے سلسلے میں کیا خوب کہا تھا کہ :

"جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے”

(3) مسلمان بھلے ہی حکومت نہیں کرسکتا مگر پارلیمنٹ میں اپنی بات تو منوا سکتا ہے……… یہ بھی خام خیالی ہے. تمام طبقے کے لوگ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ دلت خصوصاً ہرجن طبقہ صرف ہاتھی کا نشان دیکھتا ہے اور بٹن دبا دیتا ہے. اس لیے مایاوتی کی شکل میں ان کے پاس ایک وزیر اعلی ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد میں طاقت ہے مگر جمہوری فلسفہ ایسا ہے کہ اس میں اقلیتی اتحاد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی چاہے یہ اقلیتی اتحاد بڑے بڑے دانشوروں کے مابین ہی کیوں نہ ہو اور سارے لوگ اصحاب الرائے ہی کیوں نہ ہوں . اس کی مثال ہم 2014 کے  گذشتہ عام انتخابات میں دیکھ سکتے ہیں کہ دلتوں کے نام نہاد اتفاق کے باوجود یوپی کی 80 سیٹوں میں سے بسپا کھاتہ بھی نہ کھول سکی اور مایاوتی پارلیمنٹ میں اپنی جماعت کی قیادت تو دور کی بات خود پارلیمنٹ سے ہاتھ دھو بیٹھی. یہی صورت حال اس مرتبہ اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملی. دلت اپنی آبادی (20%) کے تناسب سے زیادہ (22%) ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بی جے پی کو 312 نشستوں پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکے.  اب صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ یوپی سے مایاوتی کا خاتمہ اور بی جے پی کی دوبارہ آمد یقینی لگ رہی ہے.

(4) بی جے پی کی فتح کے اسباب….. ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اگر کوئی جماعت 35 فیصد ووٹ حاصل کر لیتی ہے تو وہ اکثریت سے حکومت میں آجاتی ہے. گذشتہ عام انتخابات میں بی جے پی (34%) ووٹ حاصل کرکے مرکز میں واضح اکثریت سے حکومت کررہی ہے اور یوپی اسمبلی انتخابات میں اس مرتبہ بھی 39.7 فیصد ووٹ لے کر انتہائی واضح اکثریت سے یوپی کا قلعہ فتح کرچکی ہے. بی جے پی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ محض 35 فیصد ہندو بھی اگر اس کے ساتھ آ گئے تو وہ اکثریت سے حکومت پر قابض ہو جائے گی. اس لئے وہ کبھی فساد کے ذریعہ تو کبھی رام مندر تو کبھی مسلمانوں کے خلاف  نفرت انگیز بیانات کے ذریعے اس 35 فیصد ہندوؤں کو ٹارگٹ کرکے متحد کرلیتی ہے. اسے 14.2 فیصد مسلمانوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی. یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ اس نے ایک ٹکٹ بھی کسی مسلم امیدوار کو نہیں دیا. اسی طرح اسے ان سیکولر ہندوؤں کی بھی پروا نہیں ہوتی جو اس کے سخت گیر نظریات یا فرقہ واریت پر مبنی انتہا پسندانہ سیاست کی وجہ سے اس کے مخالف بن جاتے ہیں . لہذا یہ کہنا کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے باعث بی جے پی کامیاب ہوئی غلط سوچ ہے بلکہ بی جے پی ان 35 فیصد ہندوؤں کو متحد کرنے میں کامیاب رہی جس سے واضح اکثریت حاصل ہوجاتی ہے

(5) ہم مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے نظام کو سمجھے بغیر ہم سیاست میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں نیز بی جے پی کی فتح پر اس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے اسلام کے خلاف کفر کی جیت ہوگئی ہو. بی جے پی سے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے مگر گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے. جمہوری نظام ایسا ہے ہی جس میں کوئی ایک جماعت ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہ سکتی چنانچہ اس مرتبہ بسپا اور سپا سے عاجز آ کر یوپی کی عوام نے بی جے پی کو موقع دیا . کچھ سالوں بعد کوئی دوسری پارٹی اقتدار سنبھال لے گی اس لئے یہ معمول کی بات ہے .

ہاں اتنا ضرور ہے کہ جمہوری سیاست سے مسلمانوں اور اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہونے والا کیونکہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک جہاں جمہوری نظام ہے وہاں بھی مسلمانوں کی بالکل ایسی ہی حالت ہے جیسی ہندوستانی مسلمانوں کی ہے. اگر باعزت اور سرخرو ہوکر جینا ہے تو اسلام کی طرف واپس آنا ہوگا اور فکری جدوجہد کے ذریعے اسلامی سیاست کرنی ہوگی. وہ سیاست جو جمہوری سیاست سے بالکل مختلف ہوتی ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔