اگرچہ قد میں وہ اونچا بہت ہے

مقصود عالم رفعتؔ

اگرچہ قد میں وہ اونچا بہت ہے

مگر گردار کا چھوٹا بہت ہے

لہو انسان کا سستا بہت ہے

مگر پانی یہاں مہنگا بہت ہے

زمانے میں میاں رسوا بہت ہے

وہی جو آدمی سچا بہت ہے

اسی کو سروری ملتی ہے صاحب

یہاں جو آدمی جھوٹا بہت ہے

ٹھکانہ مل ہی جائیگا مجھے بھی

بڑی اے دوست یہ دنیا بہت ہے

تو جاؤ چند سانسیں تم خریدو

تمہارے پاس تو پیسہ بہت ہے

ہرا رہنے دو میرے زخم دل کو

مجھے یہ درد دل پیارا بہت ہے

سکون قلب ہے راہ وفا میں

مگر دشوار یہ رستہ بہت ہے

لگا ہے غم بھلانے میں یقینا

بظاہر یوں تو وہ ہنستا بہت ہے

ہے جاں سے پیارا استقلال رفعت

ہمارے واسطے تھوڑا بہت ہے

تبصرے بند ہیں۔