اہل باطل کی دہشت زدگی

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

  اللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ خود کو اہل باطل کے مقابلے میں ہر وقت تیار رکھیں۔ان کی تیاری اتنی زبردست ہو کہ اہل باطل پر ان کا رعب، دبدبہ اور ہیبت قائم ہوجائے، وہ انھیں نرم چارہ نہ سمجھیں، بلکہ ان کے مقابلے میں خود کو کم زور آور عاجز و درماندہ محسوس کرلیں۔قرآن مجید میں ہے :

      "اورجہاں تک تمھارا بس چلے، تم لوگ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے تیار رکھو، تاکہ اس کے ذریعے سے خوف زدہ کردو اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ، جنہیں تم نہیں جانتے، مگر اللہ جانتا ہے۔”(الانفال:60)

       ‘طاقت’ کی تشریح اس آیت میں ‘گھوڑوں’ سے اور حدیث میں ‘تیر اندازی’ سے کی گئی ہے۔گویا اس میں مسلمانوں کو’عسکری طاقت’ سے لیس رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دشمن اپنی شرانگیزی سے باز رہیں ، ان پر مسلمانوں کی ہیبت و دہشت قائم رہے اور وہ ان کے ساتھ آمادہ جنگ رہنے کے بجائے صلح و امن کے معاہدے سے بندھے رہیں  لیکن ظاہر ہے کہ اس میں ‘طاقت’ کے دیگر مظاہر بھی شامل ہیں، جن میں موجودہ دور میں دلیل و حجت کی طاقت نمایاں ہے

       ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ربع صدی قبل اپنے کام کا آغاز کیا تو دلیل و حجت کی طاقت کا سہارا لیا۔وہ ایک ایسے مبلغ اسلام کے روپ میں ابھرے جو اسلامی تعلیمات و اقدار پیش کرتے ہوئے ان کی حقانیت کو عقلی دلائل سے ثابت کرسکتا ہے۔ان کا مطالعہ مذاہب بڑا وسیع تھا۔انھوں نے تقابل و موازنہ کا طریقہ اختیار کیا، چنانچہ مختلف موضوعات پر دیگر مذاہب کے نقطہ ہائے نظر کو غیر منطقی اور غیر معقول اور اسلامی نقطہ نظر کو قرین حق و صواب ثابت کیا۔اس کے نتیجے میں بہت سی سعید روحوں کو قبول حق کی توفیق ہوئی، لیکن باطل پرستوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے اور وہ اس مبلغ اسلام کے خلاف نت نئی سازشیں کرنے لگے۔

     ان دنوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف ایک طوفان برپا ہے۔انھیں دہشت گردی کا حمایتی ثابت کیا جا رہا ہےاور اس جرم میں انھیں قید و بند کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، ان کے چینل پر پابندی لگانے، ان کے ادارے کو بند کرنے اور ان کے ذرائع آمدنی کو زیر تفتیش لانے کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ اس معاملے میں سرگرم باطل پرستوں کا ٹولہ ہے، جسے اوپر کی آیت میں اللہ کا دشمن اور مسلمانوں کا دشمن کہا گیا ہے۔

        آیت میں دشمنوں کی ایک اور قسم کا تذکرہ ہے۔ مخصوص لبادہ اوڑھے رہنے کی وجہ سے اسلام دشمنی کا ان کا چہرہ چھپا رہتا ہے اور بہ ظاہر وہ پہچان میں نہیں آتے، لیکن ان کی حرکتیں اللہ کی نظر میں رہتی ہیں اور وہ انہیں خوب جانتا ہے۔

     موجودہ منظر نامہ میں میدان کے ایک طرف ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں، جو اہل حق کے ترجمان ہیں۔ ان کا جرم اگر کچھ ہے تو بس یہ کہ وہ اللہ کا کلمہ بلند کرتے ہیں اور بہ بانگ دہل اس کا اعلان کرتے ہیں۔میدان کے دوسرے کنارے پر اہل باطل کا ٹولہ ہے، جو انھیں زیر کرنے، ان پر شکنجہ کسنے، انھیں پھانسنے اور ان کے پَر کترنے کے لیے بے تاب ہے۔

    اس موقع پر کچھ اور لوگ بھی سرگرم ہیں، جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اور جو مسلمانوں جیسا حلیہ اور وضع قطع رکھتے ہیں، لیکن وہ اہل باطل کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔وہ وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو علم برادرانِ باطل چاہتے ہیں۔وہ حق کی آواز کو خاموش کردینا اور اس کے چراغ کو گل کردینا چاہتے ہیں۔

    اللہ تعالی کا اعلان ہے کہ وہ ان لوگوں کی نیتوں سے خوب واقف ہے اور وہ ان کے ظاہر پر نہیں، بلکہ ان کی نیتوں کے مطابق ہی فیصلہ فرمائے گا۔

      جب جنگ برپا ہو تو ہر ایک کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے گا؟

     اہل حق کا؟

     باطل پرستوں کا؟

      یا وہ ان لوگوں کے گروہ میں شامل رہے گا جن کی زبان پر تو کلمہ جاری رہتا ہو، لیکن ان کی تائید و حمایت اہل باطل کو حاصل ہوتی ہو۔

    لیکن بہر حال اس تیسرے گروہ پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوجانی چاہیے کہ اللہ تعالی کی نظر میں ان لوگوں کا شمار بھی اہل باطل کے گروہ میں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔