منزل اور مقصد کا شعور- (آخری قسط)

تحریر: پروفیسر خورشید احمد ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(پروفیسر خورشید احمد اسلامی معاشیات کے ماہرین میں سے ایک بڑا نام ہے۔ پروفیسر صاحب بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں رہ چکے ہیں۔ انھوں نے مغربی دنیا کو قریب سے دیکھا ہے۔ موصوف اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مقدر تابناک مستقبل ہے مگر یہ تابناک مقدر اسی وقت چمک سکتا ہے جب مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو پوری کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذریعہ ان پر عائد کی گئی ہیں۔ اس کے بغیر تابناک مستقبل خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے)۔
دو روشن مثالیں: جب ملایشیا آزاد ہوا تو اس وقت کی حکومت نے یہ طے کیا کہ انگریزوں کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اسکول کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کیلئے بیرونِ ملک بھیجیں۔ اس کیلئے برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکہ ان تین ملکوں کا انتخاب کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان، بالغوں اور اسکول کی عمر کے بچوں بچیوں کو بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح مغرب کے رنگ میں رنگ کرکے آئیں گے کہ پھر زندگی کی انہی رنگینیوں کو ملک میں عام کریں گے اور ہم اس طریقے سے ان کو آزادی دینے کے بعد بھی اپنا غلام رکھ سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ABIM اور اسلامی تحریک وہاں پر انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے رونما ہوئی اور بالکل فضا بدل گئی۔
اس سے بھی زیادہ آنکھیں کھولنے والی مثال الجزائر کی ہے۔ ہم نے تو برطانوی استعمار کو دیکھا ہے، جس میں فرانسیسیوں کے مقابلے میں پھر بھی کچھ معقولیت تھی۔ کچھ قانون کا احترام تھا۔ کچھ مذہبی رواداری تھی۔ فرانس کا حال تو یہ تھا کہ انھوں نے پنے مقبوضہ علاقوں کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے ہی تباہ نہیں کیا بلکہ اخلاق، تعلیم، حتیٰ کہ زبان، کسی کو نہیں چھوڑا۔ الجزائر میں استعمار کے جارحانہ رویے کے نتیجے میں یہ قوم عربی زبان سے محروم ہوگئی تھی۔
اگر آپ فرانس کی میڈیا پالیسی کو دیکھیں تو سر پکڑلیں گے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں جو فلمیں فرانس میں نہیں دکھائی جاسکتی ہیں، وہ فحش پروگرام الجزائر میں پوری بے باکی سے ٹیلی کاسٹ کئے جاتے تھے۔مقصد تھا پورے معاشرے کو بگاڑنا اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کرنا۔ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی تحریک نے دل و دماغ میں طوفان برپا کردیا۔ عربی زبان کا احیا ہوا، اسلامی نظام کی پیاس اتنی بڑھی کہ 1992ء کے انتخابات میں اسلامی فرنٹ کو تقریباً 90 فیصد ووٹ ملے۔
مزاحمت، اصل طاقت: استعمار کی منصوبہ بندی ہمیشہ سے یہی رہی ہے جس کی تلقین آج بش صاحب اور ان کی ٹیم کر رہی ہے کہ تعلیم کو تبدیل کرو، مدرسوں کو سیکولر رنگ میں رنگو۔ جہاد کا لفظ تو آج نہیں، پہلے دن سے دشمنوں کا ہدف رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اسلام پر غالباً دوسری صدی ہجری کے اندر پہلی تنقیدی کتاب جو ایک عیسائی عالم کی طرف سے آئی ہے، اس میں اصل ہدف جہاد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، یعنی نبی پاکؐ کی ذات مبارک اورجہاد کا تصور ہمیشہ سے اصل ہدف رہے ہیں۔ فرانسیسی، برطانوی، اطالوی استعماری دورکا مطالعہ کرلیجئے ، سب کے سامنے اصل ہدف جہاد تھا۔ خواہ وہ السنوسی کی تحریک ہو، خواہ وہ الجیریا کے عبدالقادر کی تحریک ہو، خواہ وہ صومالیہ کی تحریک ہو، خواہ برعظیم کے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ہو۔ ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ جہاد ہی نے استعمار کا راستہ روکا اور جہاد ہی کو استعمار نے ہدف بنایا۔ یہ نئی نہیں، بڑی پرانی حکمت عملی ہے۔ اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پتا نہیں یہ کیا کرلیں گے لیکن جہاد کا تصور ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت کی مرکزی حیثیت، دشمن کی ساری یلغار کے باوجود ان پر کوئی دھبا نہیں آسکا اور نہیں آسکتا۔ جھوٹی نبوتیں تک برپا کی گئیں لیکن دین حق پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اسلام کو دبانے کی جتنی کوششیں ہوئیں، وہ اتنا ہی مستحکم ہوا ؂
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے ۔۔۔ اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے
تاریخ میں ہم پر بڑے سخت دور گزرے ہیں۔ شاید سب سے سخت دور وہ تھا جب چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مورخین لکھتے ہیں کہ اگر کوئی تاتار مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم لیٹ جاؤ اور انتظار کرو کہ میں اپنے گھر سے اپنی تلوار لے آؤں اور اس سے میں تم کو ذبح کروں تو وہ لیٹے رہتے تھے، حتیٰ کہ وہ اپنا خنجر لاتے اور ان کو زبح کر دیتے۔ یہ کیفیت تھی مسلمانوں کی، لیکن اس کے بعد دیکھئے کہ دو سو سال کے اندر اندر پھر حالات بدل گئے اور انہی تاتاریوں کے دل و دماغ کو اسلام نے مسخر کرلیا، جنھوں نے مسلمانوں کو فتح کیا تھا۔ اسلام نے ان کو فتح کرلیا اور بقول اقبالؒ ؂
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے ۔۔۔ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
وہی تاتار جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور شہدا کے سروں سے مینار بناتے تھے، انہی کے ذریعے سے پھر 400 سال تک مسلمانوں کی حکمرانی کا نظارہ چشم تاریخ نے دیکھا، لہٰذا تاریخ کے نشیب و فراز سے پریشان نہ ہوں، لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میرا اور آپ کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ غلامی یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں پڑجائیں اور ہمارے پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہوں بلکہ غلامی یہ ہے کہ ہم ظلم کی بالادستی کو قبول کرلیں اور مزاحمت کرنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ جہاد نام ہی مزاحمت کا ہے۔ جہاد نام ہے ظلم اور کفر کے غلبے کے خلاف جدوجہد کرنے کا۔ خواہ وہ قلم سے ہو، زبان سے ہو، ذہن سے ہو، مال سے ہو یا جان سے ہو۔ یہ سب اس کی مختلف شکلیں ہیں اور اس وقت دشمنوں کا یہی ہدف ہے کہ مسلمانوں میں روحِ جہاد باقی نہ رہے۔ ان کا ہدف ہماری ہماری قوت مزاحمت ہے، شر سے سمجھوتا نہ کرنے کا جذبہ ہے۔ حالات کے آگے سپر نہ ڈالنے کا داعیہ ہے، مقابلے کا جذبہ اور امنگ ہے۔ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی اس پریشانی کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں کر دیا ہے ؂
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے ۔۔۔ جس کے خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
یہ جو شرارِ آرزو ہے، یہ جو ظلم کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے اور حق کیلئے جدوجہد کرنے کا جذبہ ہے، یہ ہماری اصل طاقت ہے۔ اگر یہ جذبہ آپ میں موجود ہے تو کوئی آپ کو غلام نہیں بنا سکتا، کوئی ہمیں مغلوب نہیں کرسکتا۔ اور اگر یہاں ہم نے شکست کھالی تو ہمارے پاس اگر سونے کے انبار ہوں، بینکوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو، حتیٰ کہ اسلحے کی فراوانی ہو، تب بھی ہم غلامی سے نجات نہیں پاسکتے۔ اس لئے اگر آپ مجھ سے ایک لفظ میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ تابناک مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ تو وہ ہے یہ آرزو، وہ ہے یہ ایمان، وہ ہے یہ جذبہ، وہ ہے یہ مزاحمت، وہ ہے یہ احساس کہ ہمیں اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو قبول کرنا ہے، اس کے داعی بننے کیلئے جدوجہد کرنی ہے۔ اسی سے دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔
اتحادکی ضرورت: میں بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو فتنے اور مشکلات آج ہمیں درپیش ہیں، ان میں ایک ہمارا آپس کی تفرقہ بازی، کفر سازی اور جزوی امور کو اہمیت دے دینا ہے کہ اصول پامال ہوجائیں اور باہم رواداری پارہ پارہ ہوجائے۔ اصول، بنیاد اور متفق علیہ معاملات کو نظر انداز کرکے فروعی، جزوی، غیر متعلق باتوں میں الجھ جانے اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا مرض ہمارے مخالف بڑی کامیابی سے ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے ہمارے مخالف ہمیں نان ایشوز میں الجھا کر اصل ایشوز سے جن کو ہمیں مل جل کر کرنا ہے، غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آپ کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ عراق میں امریکی قوتوں کے غلبے کے بعد جو سب سے زیادہ اہم ایشو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ عراق میں اتنے شیعہ ہیں، اتنے سنی اور یہ کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اور بد دیانتی کی انتہا ہے کہ کرد جو آبادی کا پانچواں حصہ ہیں، وہ 100فیصد سنی ہیں مگر انھیں کوئی سنی نہیں کہتا،لیکن جو 22، 23 فیصد عرب سنی ہیں انھیں سنی قرار دیتے ہیں اور باقیوں کو شیعہ قرار دیتے ہیں۔ یہی چیز افغانستان میں آپ نے دیکھی۔ پشتون اور فارسی بولنے والے، سنی اور شیعہ یعنی سارے تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔ یہی حال ان ممالک کا بھی ہے جہاں مسلمان بڑی اقلیت میں رہتے ہیں۔
میں نے آغاز میں کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کا صحیح وژن ضروری ہے۔ اور اس وژن کے اندر ایک بڑی چیز ہے الاقدم فالاقدم کہ جو اہم ہے، اسی کو اہم ہونا چاہئے۔جو مرکزی ہے، اسی کو مرکزی ہونا چاہئے۔جو اصول ہے، اسی پر ہماری اصل نظر ہونی چاہئے۔ اور جو اختلاف ہے، جو فروعی ہے اس کے بارے میں ہمیں توسع اور رواداری کو اپنانا چاہئے۔ مکالمہ ضرور کیجئے لیکن اس میں الجھ کر اصل کو بھول جانا اور ترجیحات کو بگاڑ لینا یہ بہت بڑی تباہی ہے۔ میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے ، میں آپ سے ایمان داری سے کہتا ہوں کہ اہل سنت کے درمیان جو مکاتب فکر ہیں ان میں 95فیصد ایشوز وہ ہیں کہ جن میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ سارے اختلافات صرف 5 یا 6 فیصد معاملات کے اوپر ہیں۔ اور اگر آپ اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین اختلافی امور کا جائزہ لیں تو یہ زیادہ سے زیادہ بڑھ کرکے 8 سے10 فیصد امور کے بارے میں ہیں جبکہ 90 فیصد امور میں ہم سب مشترک ہیں۔
کیا ظلم ہے کہ 90 فیصد اور 95 فیصد قدر مشترک کو تو ہم بھول جاتے ہیں اور اس پانچ سات فیصد جس کے بارے میں اختلاف ہے، اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اختلاف سے انکار نہیں کرتے لیکن اگر ہم اس اختلاف کو اس کی حدود میں رکھیں، اختلافی امور میں رواداری برتیں اور جو ہمارے مشترکات ہیں اس پر ڈٹ جائیں تو ہماری کتنی بڑی قوت ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ فقہ نظامِ زندگی ہے، قانون ہے، ہمارا راہنما ہے۔۔۔ لیکن ہماری ترجیحات میں سب سے پہلی چیز قرآن ہونی چاہئے، پھر سنت رسولؐ، پھر فقہ اور پھر تاریخ۔ اگر یہ ترتیب آپ رکھیں گے تو کبھی بگاڑ نہیں آئے گا۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہم قرآن مجید کو بھول جائیں، سنت کی ہم فکر نہ کریں، فقہ میں بھی مشترکات کو ہم نظر انداز کر دیں اور صرف فروعات میں ہی الجھ جائیں تو پھر حالات خراب نہ ہوں تو کیا ہو؟
عزم نو: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی صحیح بات کہی تھی کہ لن یصلح آخر ہٰذہ الامۃ الا بما یصلح بہ اولہا ۔ ’’اس امت کے آخری دور دور کی اصلاح بھی اسی سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے دور کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔ تو آئیے! اس کتاب ہدایت کو تھام لیں اور غلبۂ اسلام کی اس امنگ کو جو ساری قوت کا سرچشمہ ہے، اس جذبے کو بیدار اور اجاگر کریں کہ ہمیں ظلم کے آگے کبھی بھی سپر نہیں ڈالنا بلکہ مزاحمت کرنا ہے۔ اگر آپ تاریخ پر غور کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خیر اور شر کی کشمکش سے ہی قوموں میں ساری تخلیقی قوت (Creativity) پیدا ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرف فزیکس میں رگڑ (Friction) سے انرجی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اسی کشمکش سے تخلیقی قوت پیدا ہوتی ہے اور طاقت کے نئے سرچشمے پھوٹتے ہیں۔
آئیے! ہم ایمان اور امید کا دامن تھام لیں۔ اللہ کو اپنی قوت کا ذریعہ بنائیں۔ اور اپنے عوام کو بیدار اور منظم کریں کہ اللہ کی نصرت کیلئے یہ ضروری ہے۔ ہُوَالَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال:62)۔ ’’وہی ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید فرمائی‘‘۔ اپنے رب سے مدد طلب کریں۔ تاریکی سے مایوس نہ ہوں۔ بچپن میں میں نے ایک قطعہ سنا تھا جسے حرزِ جان بنالیا، اسی پر بات ختم کرتا ہوں:
یوں اہل توکل کی بسر ہوتی ہے ۔۔۔ ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے ۔۔۔آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

تبصرے بند ہیں۔