میں آج زد پہ ہوں تم خوش گمان مت ہونا

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

مرزا انوارالحق بیگ
ڈاکٹر ذاکر نائک پر بے بنیاد الزامات لگانے والو کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ۔ اسے جو دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے کیا اس میں زرہ برابر بھی حقیقت ہے؟ خود اب بنگلادیش کے جس اخبار نے الزام لگایا تھا وہ بھی اب انکار کرکے وضاحت دے چکا ۔ ذاکر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن دورے جدید میں وہ اسلام کامعروف و مقبول داعی و مبلغ ہے اس بات سے آپ کو اختلاف ہے؟ آپسی اختلافات ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔ آج ذاکر کو نشانہ بنایا جارہا ہے کل ہمیں اور آپ کو بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ فسادی یا کوئی بھی اسلام دشمن چاہے چنگیز خاں ، ہلاکو خاں ہو یا کوئی اورتاریخ شاہد ہےکہ شعیہ ہو یا سنی ، ملحد ہو یا مذہبی مسلم، سب کا بے دریغ خون بہایا گیا۔ عراق کی ندیاں فرات و دجلہ اس کی گواہ ہیں ۔ تو کیوں ہم ملت کے ایک فرد جو فی الوقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے ، سے اختلاف کو عصبیت کی شکل دے کر اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کوشش کریں؟
معروف صحافی شکیل شمسی اور دیگر حضرات ذاکر نائک کو دہشت گردی سے لنک کرنے کی جی توڑ کوشش کررہے ۔ اس کے پس پردہ کیا عزائم ہیں؟ شمسی صاحب انقلاب روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں جسے ایک بڑےمیڈیا گروپ نے خرید لیا جو یر قانی صحافت کے لئے مشہور ہے۔ کیا موسوف اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں یا سن ۲۰۰۷ میں عزیز برنی ،جن پر ملت نے خوب ہنگاما کیا تھا تو انھوں نے اپنی جگہ شکیل شمسی صاحب کو اسرائیل کی زیارت کا موقع دیا تھا۔ تو کیااسرائیل کو خوش کرنا مقصود ہے؟ ذاکر نائک پر تنقید کرنے والوں سے سوال ہے کہ موجودہ دور میں وہ بھی جدید ذرائع ابلا غ کا استعمال کرکے دلائل کی روشنی میں دین کی دعوت کا جو کام انھوں نے کیا ، کیا آپ نے اسکا عشر عشیر تو بہت دور ،کسی بھی نسبت میں انجام دیا ہے؟
ہمارے ایک صحافی دوست نے کیا خوب لکھا ہے کہ ‘آر ایس ایس کے نظریات کی تبلیغ کرنےوالا روزنامہ انقلاب نے اپنے سنگھی نظریات کی قلعی خود ہی کھول دی ہے۔ انقلاب کے ایڈیٹر شکیل شمسی نے ذاکر نائک کے خلاف اپنے غلیظ الفاظ کا استعمال کرکےاپنا تقیہ بھی توڑ دیا ہے۔شکیل شمسی صاحب جنہیں آجکل سنگھی حکومت میں خوب خوب نوازا جارہا ہے اپنے شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کی آڑ میں جو روٹیاں سینک رہے تھے اب اس میں گھی لگانے کاکام نا گپور کو خوش کرکے کررہے ہیں۔ہمیں انقلاب کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ اس کی کاپیاں نذر آتش کرنے کے بجائے آپ سے گذارش ہے کہ آپ اخبار نہ خریدیں اخبار کو اشتہار نہ دیں ۔آپ کے پیسے سے ہی یہ اخبار آپ کے قلعے کو مسمار کر رہا ہے۔’ ملت کے افراد یا دیگر انصاف پسند حضرات جو اخبارات نکال رہے ہیں انھیں خریدیں ، انھیں پڑھے اور انکو اشتہارات دیں۔ تا کہ زعفرانی میڈیا اور اخبارات کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے ۔ ورنہ صرف فیس بک یا شوشل میڈیا پر بائیکاٹ بائیکاٹ اور چیخ و پکار سعی لا حاصل ۔۔

موجودہ دور میں جدیدہمارا تعلیم یافتہ مسلم نوجوان طبقہ جب مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کسی غیر مسلم سے واسطہ پڑتا تھا ، تو اسلام و مذہب پر تبادلہ خیال تو بہت دور کی بات وہ ان موضوعات پر نا صرف بات کرنے سے ججہکتا تھا، بلکہ اسلام سے غلط فہمی کے نتیجہ میں غیر مسلم جب اسلام کو نشانہ بناتے تو وہ انکی ہاں میں ہاں ملایاکرتا تھا۔یہ ایک عام مشاہد ہ ہم اور آپ نے محسوس کیا ہوگا۔ لیکن ذاکر نائک کے دعوتی چینل اور لٹریچر کے مقبولیت کے نتیجہ میں ہمارے مسلم نوجون میں واضح فرق محسوس ہوتا نظر آتا ہے ۔ اب وہی مسلم نوجوان اسلام و مذہب پر تبادلہ خیال کرنے سے نہیں کتراتا بلکہ غیر مسلم افراد کے ذہنوں سے اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کودور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شرافت اور ‘تنقید برائے اصلاح ‘کا یہی اسلامی طریقہ ہے یا اسے سنہری موقع کہیے ؟کہ جب کوئی فرد ملت مصیبت میں ہو یا باطل قوتیں اسے غلط طریقے سے پھانسنا چاہتی ہو تو ہم انھیں بتادیں کہ ہم تو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں جسے چاہو نشانہ بناسکتے ہو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک تیر سے دونشانے لگاکر ملت کے بچے کھچے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ اس کے ذریعہ سے جہاں اسلام کے مبلغین کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہیں اس کے ذریعہ تمام دینی وملی تنظیموں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام قرآن وسنت کے مطابق جاری وساری رہااتو اسی طرح کی ان کے خلاف بھی فرضی مقدمات اور زر خرید میڈیا کے ذریعہ سے نشانا بناکر یا تو ایک دم غیر موثر یا نکو بنا دیا جائے گا یا ان پر پابندیاں لگا دی جائے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔