این ڈی ٹی وی کی آواز بند کرنے کی کوشش!

عبدالعزیز

 بہت دنوں سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ ہندستان میں ان آفیشیل (Unofficial) ان ڈِکلیئر (Undeclearded) یعنی بغیر کسی سرکاری اعلان کے ایمرجنسی نافذ ہے۔ اس کے سب سے بڑے شکار کمزور طبقہ اور خاص طور سے مسلمان ہیں ۔ ان پر ملک کے ہر حصہ میں ہر طرح کا ظلم روا ہے۔ دوسرا طبقہ جو اس غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا شکار ہے۔ وہ میڈیا کا طبقہ ہے۔ مشہور اَینکر رویش کمار کے الفاظ میں اس وقت میڈیا میں ایک قسم ان کا ہے جو ڈر چکے ہیں ۔ دوسری قسم ان کی ہے جو ڈرائے جارہے ہیں اور تیسری قسم جو انتہائی قلیل تعداد میں ہیں جن کو ڈرنا نہیں آتا ، سارا نشانہ انہی پر سادھا جارہا ہے اور ہر طرح کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ بھی سرکار کی لائن میں آجائیں ۔ حضور کہیں یا جی حضور کہہ کر اپنے آپ کو بچائیں ۔

چند دنوں پہلے بی جے پی کے ایک ترجمان سمبت پاترا کو این ڈی ٹی وی کے انتظامی امور کی ایڈیٹر اور مشہور اینکر نیدھی رازدان سے یہ کہہ کر اپنے پینل ڈِسکشن سے چلے جانے کی گزارش کی تھی کیونکہ وہ سوالوں کا جواب دینے کے بجائے این ڈی ٹی وی پر الزام عائد کر رہے تھے کہ گائے اور گائے ذبیحہ کے معاملے میں این ڈی ٹی وی (NDTV) کا خاص ایجنڈا ہے ۔ رازدان نے کہاکہ وہ معذرت کرلیں یا ان کے پروگرام سے چلے جائیں ۔ اس پر سمبت پاترا نے کہا کہ یہ کیسے آپ کا پروگرام ہے۔ آپ نے ہمیں دعوت دی ہے۔ اینکر نے کہاکہ جی ہاں ؛ یہ میرا پروگرام ہے۔ میں نے آپ کو بلایا ہے اور اب چلے جانے کو کہہ رہی ہوں ۔ پھر بی جے پی ترجمان نے کہاکہ آپ کے نیوز چینل کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس پر اینکر نے کہاکہ آپ انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ سمبت پاترا اس دھمکی کے ساتھ اٹھے اور چلے گئے۔

این ڈی ٹی وی کے آزادی اظہار پر جو حملہ ہوا ہے یا اس کے پروموٹر اور بانی پرنب رائے اور اس کی اہلیہ ادھیکار رائے کے گھر اور آفس پر جو سی بی آئی کے ذریعہ اچانک چھاپہ پڑا ہے وہ اسی واقعہ کا شاخسانہ ہوسکتا ہے مگر این ڈی ٹی وی کے ایک سینئر اسٹاف کا کہنا ہے کہ سمبت پاترا کی حیثیت اتنی بڑی نہیں ہے کہ وہ واقعہ جو ان سے متعلق ہے چھاپہ کی بنیاد بن سکتا ہے بلکہ حکومت بہت دنوں سے این ڈی ٹی وی کو دوسرے نیوز چینلوں کی طرح اپنی لائن میں لانے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ این ڈی ٹی وی کے منہ کو بند نہیں کرسکتی تو اس کے منہ پر تالا لگانے کی ہر ممکن کوشش ناکام ہے جب یہ آخری قدم اٹھایا گیا۔ این ڈی ٹی وی کی طرف سے جو بیان جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ٹی وی کے پروموٹر پرنب رائے یا ان کی بیوی رادھیکا رائے کسی بھی بینک کے قرض چکانے میں کسی قسم کی کوتاہی یا عدم ادائیگی (Default) نہیں کی ہے۔ این ڈی ٹی وی کے اسکرین پر سی بی آئی کے الزام کے جواب میں ICICI (آئی سی آئی سی آئی) بینک سے ادائیگی کا جو سرٹیفیکٹ ایشو ہوا ہے اسے اسکرین پر دکھایا گیا ہے۔ یہ معاملہ بھی سات سال پہلے کا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ این ڈی ٹی وی کے ایک پرانے برہم اور آزردہ مشیر کار سنجے دت کی شکایت پر سی بی آئی نے پروموٹر کے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارے بغیر کسی ابتدائی انکوائری کے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی بی آئی کے لوگ کاانداز معذرت خواہانہ تھا ۔ وہ اوپر کے حکم کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ ان کے انداز اور گفتگو سے ایسا ہی معلوم ہورہا تھا۔

سوچنے کی بات ہے کہ ایک معمولی شکایت پر کسی کے گھر اور آفس پر سی بی آئی جیسی ایجنسی کا چھاپہ چہ معنی دارد؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ تم اگر حکومت کی بات نہیں سنوگے تو تمہیں ہر طرح سے ستایا اور پریشان کیا جائے گا۔ این ڈی ٹی وی والوں کی ہمت اور حوصلہ کو داد دینا چاہئے کہ اس نے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ حکومت کی ان کارروائیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔ وہ پریس کی آزادی اور جمہوریت کی لڑائی آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔ ایل کے اڈوانی نے نریندر مودی کے اقتدار میں آتے ہی ملک کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت کا جو اسٹائل ہے اسے ایمرجنسی کا خطرہ لاحق ہے۔

  اب جو صورت حال ہے کہ نیوز چینلوں میں ایک دو کے سوا کوئی حکومت کی چمچہ گیری سے بچا نہیں ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اینکر رویش کمار نے آج سے تیس چالیس سال پہلے پولینڈ کی فوجی حکومت کے خلاف اسی قسم کی حرکتوں کا جواب ٹی وی کے سامعین اور ناظرین نے یہ دیا تھا کہ ٹی وی کو اپنی کھڑکی کی طرف منہ کرکے چھوڑ دیا تھا اور سب کے سب شام کو سڑکوں پر ٹہلنے نکل جاتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ ٹی وی میں جو کچھ حکومت کی طرف سے دکھایا یا کہلوایا جارہا ہے۔ اسے کوئی سننے والا یا دیکھنے والانہیں ہے۔ اخبارات اسٹال پر تھوک کے تھوک پڑے رہتے تھے ، کوئی پڑھنے والا تھانہ ان اخباروں کو خریدنے والا تھا۔ اس سے قارئین یہ باور کرنا چاہتے تھے کہ حکومت جو کچھ لکھوا رہی ہے اسے کوئی پڑھنے والا نہیں ہے، پھر ایک دن ایسا آیا کہ فوجی حکومت کے محل کو عوام نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بالآخر حکومت کو عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑا۔ رویش کمار کا اشارہ تھا کہ اب عوام ہی موجودہ حکومت کے طرز حکمرانی کا جواب دے سکتے ہیں ۔

 حقیقت یہ ہے کہ مودی جی کو شاید معلوم نہیں ہے کہ ہندستان کے پریس کی آزادی پر جو قدغن حکومت کی جانب سے لگایا جارہا ہے وہ دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس سے دنیا کو معلوم ہورہا ہے کہ ہندستان کا حکمراں کیسا ہے؟ جمہوریت پسند ہے یا آمریت پسند؟ جب کوئی حکمراں یا حکومت آزادی رائے، اختلاف رائے، تنقید اور احتجاج برداشت نہیں کرسکتی تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانا چاہتی ہے، اسے طشت ازبام ہونے نہیں دینا چاہتی ہے۔ حکومت آج کے حالات میں پریس کی آزادی کے حملے کرکے کیا پریس کا منہ یا عوام کا منہ بند کر سکے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر مودی یا ان پارٹی جو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی برائی کرتے نہیں تھکتی تھی۔

آج خود مودی جی اور ان کی پارٹی اندرا اور اندرا کانگریس کے راستہ پر گامزن ہے۔ ہندستان میں جمہوری قدریں یا جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں ۔ اسے کسی حکومت، فرد یا جماعت کیلئے جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہے، خواہ اس کی سیٹیں پارلیمنٹ یا اسمبلیوں چاہے جتنی بھی ہوجائیں ۔ پریس میں چاہے چند ہی نیوز چینل ہوں یا چند ہی اخبارات ہوں اگر چٹان کی طرح کھڑے ہوگئے تو عوام کو بیدار کرنے کیلئے کافی ہوسکتے ہیں ۔ ہم اس حقیقت کو بار بار لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ  ؎

  اک کرن تنہا بحر ظلمات پہ بھاری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔