رمضان: ماہ نزول قرآن!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

قرآن پاک کو رمضان المبارک کے مہینے سے خاص نسبت اور گہراتعلق ہے ،اسی لئے اللہ رب العزت نے رمضان کو ماہ نزول قرآن بتلایا۔

روایات سے پتہ چلتاہے کہ اس ماہ مقدس میں نہ صرف قرآن پاک نازل ہوا؛بل کی دیگر آسمانی کتابوں کا نزول بھی اللہ تعالی نے اسی مہینے میں فرمایا؛جیساکہ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے معارف القرآن میں لکھاہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اس مہینہ کواپنی وحی اورآسمانی کتابیں نازل کرنے کے لیے منتخب کررکھاہے ،چنانچہ قرآن بھی اسی ماہ میں نازل ہوا، مسنداحمد میں حضرت واثلہ بن نافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی تاریخ میں نازل ہوئے ،اورتورات چھ رمضان میں ،انجیل تیرہ رمضان اور قرآن چوبیس رمضان میں نازل ہوا،اورحضرت جابرؓ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ زبوربارہ رمضان میں ، انجیل اٹھارہ رمضان میں نازل ہوئی۔ (ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن)

حدیث مذکورمیں پچھلی کتابوں کانزول جس تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے اسی تاریخ میں وہ کتابیں پوری کی پوری انبیاء پرنازل کردی گئی تھیں ،قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ رمضان کی ایک رات میں پوراکاپورالوح محفوظ سے سماء دنیا پرناز ل کیاگیا،مگرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پراس کانزول تئیس سال میں رفتہ رفتہ ہوا۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام کے قرآن کریم کادور فرمایا کرتے تھے ،بعد میں جب تراویح باجماعت کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تعلق اور گہر ااور پائیدار ہوگیا ،اور الحمدللہ اب صرف رمضان المبارک کے مہینے میں جتنا قرآن پاک پڑھا جاتا ہے شایدسال بھر میں بھی اتنا نہ پڑھا جاتا ہو،اہل اللہ اور شائقین عبادت کے لئے یہ بابرکت مہینہ فصل بہار بن کرآتا ہے  ۔

تمام اہل اللہ کا تجربہ ہے کہ دل کی صفائی ،ایمانی کیفیات میں زیادتی،روحانیت میں جلا اورتازگی اور انسان میں استقامت کی صفات پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر’’قرآن کریم کی تلاوت‘‘ہے ،اس لئے باتوفیق حضرات کی زندگی میں تلاوت کی کثرت اوراس پر استقامت نمایاں نظرآتی ہے ۔

 تلاوتِ قرآن کی اہمیت:

 تلاوتِ کلام پاک کی اہمیت کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا کہ اللہ رب العزت نے نبی آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مبعوث فرمایا، تو آپ کے فرائض منصبی کو بیان کرتے ہوئے ”تلاوت“ کو سب سے مقدم رکھا؛ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امتِ مسلمہ کے ظہور اور ان میں ایک رسول کی بعثت کی درخواست کی تو فرائضِ رسالت کی نشاندہی کرتے ہوئے سب سے پہلے تلاوت کو ذکر کیا۔

علاوہ ازیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جابجا تلاوت قرآن کی اہمیت وفضیلت کو مختلف انداز میں واشگاف فرمایا ۔

اس سلسلہ کی چند روایات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں !

حضر ت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :” قرآن کثرت سے پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت والے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔“ (مسلم)

 حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اللہ تعالی اس کتاب (قرآن مجید ) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اوراسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا ۔“ (مسلم )

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ( یاد) نہ ہو ، وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔“(ترمذی)

صحابہ کرامؓ کا قرآن مجید سے گہراتعلق:

نزول قرآن کے بعد سب سے پہلے قرآن کی آیات صحابہ کرام ہی کو سنائی جاتی تھیں وہ اس سے متاثر ہوتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے ، وہ قرآن کی بار بار تلاوت کرتے ، اسے حفظ کرتے ان کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کریں ۔

حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں قرآن مجید کتنے دنوں میں ختم کروں ؟ آپؐ نے فرمایا: ایک مہینے میں ۔ انہوں نے کہا میں اس سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا : بیس دنوں میں ختم کرو، انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں ، آپؐ نے پندرہ دنوں میں ، پھر سات دنوں میں ختم کرنے کی اجازت دی۔(ابوداؤ)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے بار بار اصرار کرنے پر تین دنوں میں ختم قرآن کی اجازت مرحمت فرمادی۔ (ابوداؤ)

حضرت ابوموسیٰ اشعری قرآن مجید کی انتہائی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے ؛ اس وجہ سے حضورؐ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’انہیں نغمۂ داؤدی عطا کیا گیا ہے ۔‘‘ (ابن ماجہ)حضرت ابوموسی اشعری کا پورا قبیلہ خوش الحان تھا ایک جنگ کے موقع پر سفر کے دوران پڑاؤ ڈالا گیا، اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے نصب کیے ہیں ؛ لیکن رات میں ان کی تلاوت قرآن سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیا تھا۔ (بخاری)

صحابہ کرام پورے انہماک سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے روایات میں ہے کہ حضرت ابن عباس کے چہرے پردوران تلاوت مسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگے تھے ۔

حضرت عباد بن حمزہ سے مروی ہے انہوں نے بتایاکہ حضرت اسماءکی خدمت میں حاضر ہوا وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں ، جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں : فَمَنَّ اللہُ عَلَیْنَا وَوَقٰنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ (الطور) تو اس پر ٹھہرکرباربار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دُعا کرنے لگیں ، میں نے دیکھا کہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا، وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا وہ اسی آیت کو بار بار پڑھ رہی ہیں ۔

حضرت تمیم داری ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے آیت ’’الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمَْالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ (جاثیہ)پر پہنچے تو مسلسل اس کو دہراتے رہے ، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کو جب بلوائیوں نے گھیر لیا ، اس وقت وہ قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے ؛حتی کہ جب آپ کو شہید کیاگیا تو خون مبارک کے کچھ قطرات بھی مصحف شریف پر گرے ۔

غرضیکہ صحابہ کرامؓ کا دن رات قرآن مجید سے خصوصی تعلق تھا وہ نہ صرف قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے ؛بلکہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتے تھے ۔ حضرت عثمان بن عفان اور ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ہم قرآن مجید کی دس دس آیات سیکھا کرتے تھے اور جب ان پر عمل کرلیتے تو آگے کی آیات سیکھتے تھے ۔ (مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ)

تابعین وائمہ مجتہدین کاقرآن سے شغف :

صحابہ کرام کے علاوہ تابعین وتبع تابعین کے بھی رمضان میں تلاوت قرآن کے متعدد معمولات کتب تاریخ وسیرمیں نقل کئے گئے ہیں ۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ رمضان المبارک میں ایک دن رات میں دو قرآن کریم ختم فرماتے تھے ۔(المتطرف:32)

یہی معمول حضرت امام شافیؒ کا بھی نقل کیا گیا ہے ۔(الفتاویٰ الحدیثیہ:28)

حضرت امام مالک ؒ اور حضرت سفیان ثوریؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان میں اپنی دیگر دینی مصروفیات کو ترک کرکے سارا وقت تلاوت قرآن میں گزارتے تھے ۔(المتطرف:32)

امام ابوبکر بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے 30 سال سے ہرروز ایک قران کریم پڑھنے کا معمول بنا رکھا ہے ۔(نووی علی مسلم)

امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب ( التبیان فی آداب حملۃ القرآن ) میں لکھتے ہیں کہ : واما الذی یختم القرآن فی رکعۃ فلا یحصون لکثرتھم … یعنی وہ حضرات جو ایک رکعت میں قرآن ختم کرتے تےہیں ان کی تعداد بے شمار ہے ۔

بزرگان دین  کا شوقِ تلاوت:

حجتہ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی ؒ نے رمضان المبارک 1277ھ میں سفر حجاز کے دوران روزانہ ایک ایک پارہ یاد کر کے حفظ قرآن مکمل فرمایا تھا،پھر بکثرت قرآن پاک کا ورد رکھتے تھے اور تراویح میں بڑی مقدار میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے ۔

قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا رمضان المبارک میں مجاہدہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا،70 سال کی عمرمیں بھی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کے روزہ کے بعد اوابین کی رکعتوں میں کم از کم دوپارے تلاوت فرماتے ،تراویح بھی نہایت اہتمام اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادافرماتے ،بچے ہوئے وقت میں زبانی تلاوت جاری رہتی،تہجد میں بھی دوڈھائی گھنٹے صرف ہوتے ،نماز فجر کے بعد اشراق تک وظائف ودرود میں مشغول رہتے ،دن کے اکثر اوقات بھی تلاوت واذکار اور مراقبہ میں گزرتے ،اس میں بھی یومیہ کم از کم ۱۵ پارے قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کو تلاوت سے اس قدر شغف تھا کہ رمضان کے علاوہ بھی ایک ایک دن میں دسیوں پارے پڑھنے کا معمول تھا،ایک تبلیغی اجتماع میں (جو صرف ایک رات اور ایک دن کا تھا)3 قرآن کریم ختم کئے ،علاوہ ازیں آپ بیتی میں مذکور ہے کہ 38ھ میں ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جو تقریبا 80ھ؛ بلکہ اس کے بعد تک بھی جاری رہا۔

خادم القرآن حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ کو بھی تلاوت قرآن کابے حدشوق تھا،اسفار میں مسلسل تلاوت جاری رہتی اور دسیوں پارے تلاوت فرما لیتے ،رمضان المبارک کے مہینے میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتا،آپ کے بعض سوانح نگاروں نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اہل بدعت کے کسی علاقہ میں تراویح سنانے تشریف لے گئے ،تو ایک ہی رات میں 12 پاروں کی تلاوت فرمادی۔

(تذکرۃ الصدیق)۔

نوٹ : قرآن کریم کا ایک پارہ ترتیل کے ساتھ 20 منٹ میں اور قدرے تیزی کے ساتھ اوسطاََ 15منٹ میں پڑھا جاسکتا ہے ،تو اگر ایک گھنٹہ میں فرض کیجئے کہ 4 پارے بھی پڑھے گئے تو سارے سات گھنٹہ میں قرآن کریم مکمل ختم کیا جاسکتا ہے اور زیادہ تیز پڑھنے والا ہوتو مسلسل پڑھنے پر چھ گھنٹے میں ختم کرسکتا ہے ،عقلاََ یہ کسی طرح مستبعد نہیں ہے اور رہ گئی یہ بات کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے سے منع کیا ہے ،تو جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت مطلق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ طبیعت میں نشاط نہ ہو یاقرآن کے پڑھنے میں حروف و مخارج کی رعایت نہ رکھی جائے ،اگر یہ ممانعت مطلق ہوتی تو جلیل القدر حضرات صحابہ سے تین دن سے کم میں ختم قرآن منقول نہ ہوتا جیسا کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت تمیم داریؓ سے منقول ہے (دیکھئے امداد الفتاویٰ)۔

تبصرے بند ہیں۔