بوسیدہ سپنا

محمد شمشاد

    ’’یہ لو بھائی تم فیڈرل بی ایریا  کے بلاک نمبر 18میں آچکے ہو اب بتائو تمہیں کہاں جانا ہے ‘‘ ڈرائیور کی آواز سن کر اسکی آنکھیں کھل گئیں اور ہڑ بڑاتا ہوا وہ سڑک کی دونوں جانب اپنی نظریں گھمانے لگاساتھ ہی اپنا سامان سمیٹ کر آٹو سے اترنے کی تیاری کرنے لگااسکی ہڑبڑاہٹ دیکھ کر آٹو ڈرائیور پھر سے اسے تاکید کرنے کے انداز میں بولا’’ دیکھ لو بھائی تم صحیح جگہ آئے ہو یا نہیں ، اگر نہیں آئے ہو تو بتا دو یا اس گھر کا صحیح پتہ نکالو تاکہ میں تمہیں صحیح مقام تک پہنچا دوں اور تم پریشانیوں سے بچ جائو ، نہیں تو میرے جانے کے بعد تمہیں کوئی اور سواری ملنا مشکل ہے  ایک بات یہ بھی تمہیں یاد ہونا چاہئے کہ تمہیں اس گھر کے تلاش کرنے کے ساتھ ہی ساتھ اپنا سامان بھی ڈھونا پڑے گا ویسے بھی تم سفر سے کافی تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو شاید یہاں کے لئے ایک انجان سے بھی لگتے ہو ‘‘

’’ تھوڑا اور آگے یہی سو میٹر آگے ،اس نیم کے پیڑ کے پاس مجھے چھوڑ دیں شاید وہی مکان اسکا ہوگا‘‘ آٹو کو رکتے ہی وہ باہر آگیااس وقت  اسکا بیگ اسکے کاندھے سے لٹک رہا تھا اوراسکے بائیں ہاتھ میں پانی کا ایک بوتل تھااب وہ سڑک پر کھڑا تھااور اھر ادھر تاک رہا تھا شاید وہ اپنے کسی شناسہ یا آشیانہ کو تلاش کررہا تھا جہاں اسے جانا تھا یا جس کی اسے تلاش تھی اس نے پینٹ کے جیب سے اپنا پرس نکالا اور آٹو کا کرایاادا کرتے ہوئے وہ ڈرائیور سے بولا۔

’’بھائی کیا تم مجھ پر ایک مہربانی اور کرسکتے ہو شاید سامنے والا وہی مکان ہے جہاں مجھے جانا ہے ہو سکتا ہے وہ یہاں نہیں رہتی ہو یا یہاں سے چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی ہو اس لئے پھر مجھے لوٹنا بھی پڑ سکتا ہے یا اسکا کوئی صحیح اتا پتہ مل گیا توپھر مجھے اسی جگہ جانا پڑے گا بس تھوڑی دیر کی بات ہے زیادہ نہیں صرف پانچ سے دس منٹ ،اگر میں نہیں آیا تو تم چلے جانا ‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ اس بوسیدہ سے مکان کی جانب چل پڑا ، وہ گھر ایک چہاردیواری سے گھرا تھا اور اسکے نیم پلیٹ پہ 421 یا 423  نمبر کچھ مٹا اور گھسے ہوئے انداز میں لکھا تھا اس نیم پلیٹ پر نام کا کچھ پتہ نہیں

گیٹ کے قریب پہنچ اس نے اپنا بیگ کندھے سے اتار کر زمین پر رکھا اور بیگ کے چین کو کھول کر ڈائری سے ایک لفافہ نکالا جس میں انجلی ایک تصویر رکھی تھی اسوقت اسکے ہاتھ میں اسکی بہت پرانی تصویر تھی جسے اس نے برسوں قبل پوسٹ کیا تھاتقریبا بیس بائیس سال قبل،اسکے علاوہ اس کے پاس اسکی کوئی اورنشانی نہیں تھی نہ ہی اسکا کوئی خط جس میں اسکے گھر کا اتا پتا ہو، اس نے ادھر ادھر تانک جھانک کرتے ہوئے گیٹ کی جالیوں سے ہی چہا ردیواری کے اندرکا اندازہ لگا لیا چہاردیواری کے اندر ایک نیم کا پیڑ تھا اور اسکے قریب ایک کنواں تھا جہاں انجلی اکثر بیٹھ کرگنگنایا کرتی تھی یا کبھی کبھی مدھر سنگیت بھی گایا کرتی تھی یہ وہی جگہ تھی جہاں بیٹھ کروہ اسکے خطوط کو پڑھتی تھی یا اسکے خطوط کا جواب لکھا کرتی تھی یہ اسکی جانی پہچانی جگہ معلوم ہو رہی تھی عرصہ ہوا انجلی نے اسے بتایا تھا کہ ادھر کچھ دنوں سے اسکی آنکھیں بوجھل ہوتی جارہی ہیں اوراسکی آنکھوں کی روشنی میں کافی کمی آگئی ہے اب اسکے لئے کام کرنا مشکل ہوگیا ہے جس کے وجہ کر اس نے چھت کا ایک کونہ اپنے لئے رکھ کرباقی پورے مکان کو کرایہ پر اٹھا دیا ہے تاکہ وہ کوئی کام نہ بھی کرے تو اسکی باقی آئندہ کی زندگی حسب معمول چلتی رہتی ہے نہیں تو اس منہگائی کے دور میں اسکے لئے ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا۔

ہاں اسکے علاوہ اس کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھانہ ہی کوئی آسرا ، اور نہ ہی اسکا کوئی ایسا وارث یا رشتہ دار تھا جو اسکی ضروریات کو پورا کر نے میں اسکی مدد کر سکے ، اور کوئی ایسی بھی امید نہیں تھی جو اس اڈھیڑ عمر میں اسے کوئی اپنا سکے انجلی خوب صورت تھی منچلی اور خوش گو لڑکی تھی وہ دراز قد کی دبلی پتلی سی لڑکی تھی جلد کی گوری چٹی،پتلی سی ناک،گلابی ہونٹ،بڑی بڑی آنکھیں اور اس پر پتلی پتلی بھوئیں جواسے ایک پیاری سی گڑیا بنانے کے کام میں مددگارہو رہی تھی جب وہ باتیں کرتی تو اسکی آنکھیں چمکنے لگتی تھیں اور اسکے مسکرانے پہ اسکے گالوں میں موتیوں جیسے دانے ابھرنے لگتے تھے عجب سی کشش تھی اس میں ،

یہ وہی تصویر تھی جسے برسوں سے اپنی ڈائری میں وہ سنجوئے تھا حالانکہ کسی کاغذ یا تصویر کو سنبھالنا اسکے لئے بہت مشکل کام تھا لیکن پتہ نہیں اس نے انجلی کی اس تصویر کو کیوں کر سنجوئے پھر رہا تھا اسے خود بھی معلوم نہیں تھا اکثر اسے اس بات کا ڈر بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں اسکے بیوی بچے انجلی کی اس تصویر کو دیکھ نہ لیں اور اس وجہ کر اس پہ کوئی شامت نہ آجائے ظاہر سی بات ہے اس اڈھیڑ عمر مردکے پاس کسی خوب صورت سی جوان لڑکی کی تصویر کو دیکھ کر کسی کے بیوی بچے ضرور بوکھلا جائیں گے یہ تو عام بات ہے کہ بہت ساری عورتیں اسے دیکھ کر صرف گھر ہی کیا پورے محلے کواپنے سر پہ اٹھالیتی ہیں یا خودکشی کر نے کے لئے اتارو ہو جاتی ہیں اور اسکے بچے آوارہ گردی کرنے لگتے ہیں اسکے بچے پڑھ لکھ کر اب اپنے اپنے کام میں لگ گئے تھے اسکی بیوی پچاس سے پار ہوچکی تھی اور اسکا گھرمحلہ میں سوکھی سمپن خاندان میں شمار کیا جاتا تھا

 اس تصویر کے سہارے ہی وہ انجلی کے پاس نکل آیا تھا نہیں تو بلاک کے علاوہ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا کہ اسکے گھر کا نمبر کیا ہے یاانجلی اس وقت  کہاں رہتی ہے اس نے چہاردیواری میں لگے لوہے کے گیٹ کودھیرے سے کھولا اور لان کا جائزہ لیتا ہواآہستہ آہستہ اندر داخل ہوا کنواں اب بھی اپنی جگہ نیم کے پیڑ کے پاس ہی تھا جس کا ذکر انجلی اکثر کیا کرتی تھی نیم کا تناور درخت بالکل اداس اداس سا معلوم ہورہا تھا اسکے جلد سوکھے سوکھے محسوس ہورہے تھے جیسے کہ اب وہ کسی کام کے لائق نہیں رہ گیا ہواوروہ اپنی نا کامیوں اور بڑھاپے کی داستان سنانے کے لئے بیتاب ہولیکن اس وقت اسکی روداد سننے والا کوئی موجود نہیں تھا اور وہ کنواں جو اسکی آبیاری کیا کرتا تھا نہ جانے کب سے وہ سوکھا پڑا تھا ظاہر سی بات ہے جو خود ہی پانی کی ایک ایک بند کے لئے تڑپ رہا ہو وہ کنواں کب اور کیسے ایک بڑھے نیم کے درخت کو آبیاری کرسکتا تھا اس نے سوچا میں اس پیڑ کو ابھی سینچ تو نہیں سکتا لیکن کچھ دیر اسکے پاس بیٹھ کر اسکی ہمت افزائی تو کر ہی سکتا ہوں اوروہ کنویں کی بانڈری پرجا کر بیٹھ گیا

یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں حقیقت ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کے سامنے ایک نیم کا درخت ضرور رلگایا کرتے تھے اس نیم کے سلسلے میں لوگوں کی بہت ہی مثبت رائے ہیں کچھ اسے ٹونا ٹوٹکا سے بچنے کا اوپائے مانتے ہیں تو کچھ لوگ اسے بیماریوں سے شفا پانے کا ذریعہ ،زخم یا کھجلی ہو جائے تو نیم کے پتوں یا چھالوں کو ابال کر پینے سے زخم ٹھیک ہوجاتا ہے دانتوں کے لئے نیم کا مشواک بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے چیچک ، پیریا کا علاج ہویا پیٹ کو صاف رکھنے کے لئے بھی نیم کے پتے کا پانی مفید مانا جاتا ہے بہر حال اس نیم کے پیڑ کے فوائد کے ذکر عام ہے صاف آب وہواتو اس سے ملتا ہی ہے نیم وائرل بخار اور وائرل بیماریوں سے بچانے میں بھی مددگارہوتا ہے اسکے پاس گرمی کے دنوں میں ٹھنڈی ہوا بھی پائی جاتی ہے

 زمانہ قدیم میں یہی حال کنوئیں کا بھی تھا گائوں ومحلے کے سارے لوگ اس کنوئیں کو استعمال کرتے تھے کھانے پینے سے لے کر پوجا پاٹ اورشادی بیاہ کے ہر رسم کے وقت وہ کنوئیں کے پانی کو ہی پوتر سمجھ کراستعمال کیا کرتے تھے ایسا بھی نہیں کہ انکے یہاں سرکاری پانی کی سپلائی یا سرکاری نل نہیں ہوتاتھا لیکن سپلائی اور نل کے پانی کی پوترتا پہ انہیں شک تھا

انجلی کا بھی اسی طرح کا معمول تھا جب بھی وہ بازاریا پوسٹ آفس کے لئے نکلتی تو آس پاس کے غریب مجبور وبے سہارا لوگوں کے گھروں کے پاس جا کر ایک بار ضرور آواز لگا لیتی تھی اور انکا کام خوشی خوشی وہ انجام دیا کرتی تھی شاید اسے انکا کام کرنے میں مزہ آتا تھا محلہ کے لوگ اسکے پاس اپنے اپنے خطوط لکھوانے یا پڑھوانے ضرور آیا کرتے تھے ان سب کے باوجود انجلی میں ایک بڑی خوبی تھی وہ ان خطوط کا ذکر کسی اور کے سامنے کبھی بھی نہیں کرتی تھی چاہے اسکا کسی سے ناچارگی یا منہ بھنگ کیوں نہ ہوجائے اور نہ ہی کبھی کسی پر وہ اسکا احسان جتاتی تھی شاید اسی وجہ کر لوگ اسکے پاس بے دھڑک کسی کام کیلئے آجاتے تھے ورنہ اس زمانے میں لوگ اپنے خطوط تو دور اپنے چھوٹے موٹے کام کو بھی چھپا کرتے ہیں اس وجہ محلہ کی محبوب لوگوں میں اسے شمار کیا جاتا تھا

وہ اس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اس بوسیدہ لان سے تین لوگوں کا رشتہ ہے ایک زندہ نیم کا درخت، جس میں کوئی حرکت نہیں تھی سیوائے گھٹ گھٹ کر سانس لینے کے،  تو دوسرا بے جان کنواں جو مٹی کا بنا ہوا تھا اور اپنی ببتا سنانے کے قابل بھی نہیں تھا اور تیسرا اشرف المخلوق کی شکل میں انجلی جو اپنے ارمانوں کو کسی کی چاہت میں ملیا میٹ کر چکی تھی، تینوں ایک ہی طرح کے کردارمیں تین الگ الگ شکل کے مخلوق تھے ان تینوں میں بہت زیادہ مماثلت تھی حالانکہ وہ کنوئیں کے منڈیر پہ آس پاس کا صحیح سے جائزہ لینے کے لئے بیٹھا تھا

جب اسکی ٹرین کرانچی میں داخل ہورہی تھی تواسکی رفتار بہت ہی دھیمی تھی اس وقت وہ بہت پریشان ہورہا تھا کہ یہاں پہ اسکی رفتا اتنی کم کیوں ہے ٹرین تیز کیوں نہیں چل رہی ہے شاید اسکی وجہ یہ رہی ہو کہ اسے انجلی سے ملاقات کی بہت جلدی تھی لیکن جب وہ اسکے قریب آچکا تھا تو شاید اسکی وہی تڑپ سرد ہوچکی تھی ہو سکتا ہے اسے اب یقین ہو چکا ہو کہ اسکی منزل مل چکی ہے اب اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،لیکن اب بھی اسے ان سڑھیوں کی تلاش تھی جوانجلی تک پہنچانے میں اسکی مدد کر سکے اور وہ آسانی سے انجلی سے رو برو ہوجائے اتنے میں کسی نے اسے آواز لگائی ’’بھائی جان کیا بات ہے تمہیں کس سے ملنا ہے تم کسے تلاش رہے ہو  ؟‘‘

’’انجلی‘‘

 ’’انجلی تو اوپر میں ہی ہوگی‘‘

’’ اور میں اسکے کمرے تک جانے والی کی سیڑھیاں تلاش رہا ہوں ‘‘

’’کیا تم اسے جانتے ہو وہ کسی سے ملنا پسند نہیں کرتی ہے ویسے تو وہ زیادہ تر اپنے کمرہ میں بند ملتی ہے بس کبھی کبھار کچھ سودے صلف لینے کے لئے بازار چلی جاتی ہے یا کبھی کوئی خط پوسٹ کرنے کے لئے پوسٹ آفس جاتی ہے تم اسکے پیچھے چلے جائو آخری زینہ اسکے کمرہ تک جاتا ہے ‘‘

’’عجب سی عورت ہے وہ، آج اس موبائل کے دور میں بھی وہی پرانے انداز کے خطوط پہ ہی اسے یقین ہے وہ خط جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں مہینوں اور سالوں گزر جاتا ہے جبکہ آدھے سے زیادہ خطوط پوسٹ آفس میں ہی جلا کر خاک کر ڈالتے ہیں پوسٹ آفس والے ، یا ردی کی ٹوکری میں ملا دیتے ہیں دوسری جانب موبائل کے اس دور میں واٹس اپ اور فیس بک اورایمو کے ذریعہ منٹوں میں باتیں ہوجاتی ہیں اور ویڈیو کالنگ کے ذریعہ فیس ٹو فیس لوگ باتیں کر لیتے ہیں ‘‘

’’ہو سکتا ہے یہ آپکو اچھا لگتا ہو لیکن انجلی کو وہی پرانے اندازکے خطوط ہی پسند ہیں میں نے بھی اسے ان خطوط کے لئے منع کیا تھا اور ان نئے ایجادات کی افادیت پر اسے توجہ دلانے کی کوشش کی تھی لیکن اسکا فلسفہ سن کر میں بھی لاجواب ہوگیا ہوں اس کے اس فلسفیانہ سوچ کی بھی داد دینی ہوگی ‘‘

’’میں مانتاہوں موبائل یا فون سے ہر روز باتیں ہوجاتی ہیں اورہر دن ایک دوسرے کی خیر،خیریت مل جاتی ہے لیکن جو بات خط میں ہے وہ موبائل میں کبھی نہیں ہو سکتی ہفتوں مہینوں بھر اس خط کا انتظار ہوتا ہے اور اسکے پانے کی تڑپ،چھپ چھپ کر ان کا پڑھنا ،اور بار بار پڑھنا اور اسکی باتیں ،پھر رات کے سنناٹے میں ان خطوط کی ایک ایک لفظ کی یادیں ،جوباتیں اس میں ہے کسی اورمیں کبھی نہیں ہو سکتی ،ایک بات اور ہے ایک آدمی جوبات کبھی بول نہیں سکتا اشاروں کنائوں میں ہی سہی ، ہر وقت اسے کہنے میں ڈر لگا رہتا ہے کہ سننے والا اسے برا نہ مان جائے لیکن وہ ان خطوط کے ذریعہ جھٹکوں میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے ‘‘

’’زیادہ نہیں بس دو تین دنوں کی ہی بات ہے انجلی اسی جگہ اسی کنویں کی منڈیر پر بیٹھی تھی شاید اس وقت اسکے ہاتھ میں ایک خط پڑا تھا میں نے اسے دیکھ کر ٹوکا ، یہ کب آیاوہ مسکرا کر بولی ’ بس چند دنوں قبل ‘اور یہ کہہ کر وہ اسے چھپانے لگی ایسا لگا جیسے میں اس سے چھیننے والا ہوں یا چھین کر بھاگ جائوں گایا اسے میں پڑھنے لگوں گا مجھے اس سے کیا لینا دینا میں کون ہوتا ہوں اسکی زندگی میں دخل دینے والا،بہر حال وہ اس وقت بہت چہک رہی تھی ایک چار پانچ سال کی بچی کی طرح ،اسکی شوخیاں اسکے چہرہ سے صاف صاف جھلک رہی تھیں وہ آج بھی انہیں خطوط کے سہارے جی رہی ہے پتہ نہیں وہ ایسا کون سا بندہ ہے جس کی آس لگائے وہ آج تک بیٹھی ہے جانتے ہو وہ شخص آج تک اس سے ملا نہیں ہے اور نہ وہ یہاں آیا ہے اور نہ ہی کبھی اس نے یہاں آنے کا وعدہ کیا ہے لیکن پھر بھی وہ اسکی آس لگائے بیٹھی ہے ‘‘

 اس شخص کی باتیں سن کر انجلی کی زندگی پراسے بہت ترس آیا آخروہ اب تک اس بیچارگی کی زندگی کیوں جیتی رہی ہے اور اس نے یک طرفہ دل لگی و محبت کیوں کی، کیا اسے کسی نے روک رکھا تھاپتہ نہیں اس نے ایسا قدم کیوں اٹھایا تھااس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی لڑکی ہوگی یا اتنا بڑا قدم اٹھا کر اپنی پوری زندگی برباد کردے گیاس وقت اسے ایسا محسوس ہوا کہ کہیں دیر نہ ہوجائے اوراسے خالی ہاتھ نہ لوٹنا پڑجائے شاید اسی وجہ کر اب اسے انجلی سے جلد سے جلد ملاقات کرنے کی چاہت بڑھ گئی تھی اس نے دوبارہ اسکے ٹھکانے کے بارے میں پوچھا اور اسکے کہنے کے مطابق وہ اسکے کمرے کی جانب نکل پڑا،

 اسکے کمرے تک جانے والی سیڑھیاں کافی کھڑی تھیں ابھی وہ تقریبا دس بارہ سیڑھیاں ہی چڑھا ہوگاکہ بری طرح وہ ہانپنے لگا اور بیچ میں ہی کچھ دیر کے لئے کھڑا ہوگیا اسے تقریبا پندرہ سیڑھیوں کو اور پار کرنا تھا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اتنی دبلی پتلی انجلی اس ادھیڑعمر میں ہر روز کس طرح ان سیڑھیوں کو طے کرتی ہوگی واقعی وہ بہت بہادر عورت ہے اس نے دوبارہ ان سیڑھیوں کو چڑھتے ہوئے ابھی سات سیڑھیاں ہی پار کی ہو گی کہ اسکی نظر انجلی کے کمرہ کے دروازے پر جاپڑی تو اسے نانی یاد آگئی دروازہ باہر سے بند تھا بہ مشکل بیس سیڑھیوں کا اس نے سفر طے کیا تھا اگر اب وہ نیچے اتر تا ہے تو دوبارہ ا ن سیڑھیوں کو طے کرنا اسکے لئے کوئی آسان کام نہیں تھااور وہ سہم کر وہیں پر بیٹھ گیا

پھردوبارہ اس نے ہمت کی اور وہ انجلی کے چھت پہ آگیا چھت بہت کشادہ تو نہیں تھا لیکن آرام دہ اورسلیقہ سے سجا کر خوشنمابنادیا گیا تھا انکی دیواروں سے لگ کر کئی گلدستہ لگے ہوئے تھے جس میں رنگ برنگے پھول کھل رہے تھے اور ایک کونے میں رات کی شہزادی اپنی خوشبو بیکھیر رہی تھی چھت کی دوسری جانب دو سیٹوں والا ایک جھولا جھول رہاتھا اور اسکے کچھ فاصلہ پر ایک سینٹر ٹیبل لگا ہوا تھا جس پہ دو چائے کے کپ رکھے تھے ان میں ایک خالی تھا تو دوسرے میں آدھی کپ چائے اب بھی پڑی تھی سنٹر ٹیبل کے پاس دو آرام دہ کرسیاں لگی تھیں ،اسکے علاوہ ایک چھوٹا سا اسٹول اور ایک معمولی سی کرسی لگی ہوئی تھی وہ اسی معمولی کرسی پرجا کر بیٹھ گیا اور انجلی کا انتظار کرنے لگا

تقریبا گھنٹے بھر بعد انجلی نے آواز لگاتے ہوئے کسی سے پوچھا ’’ میرے غائبانہ میں کوئی آیا تو نہیں تھا ‘‘

’’ہاں آنٹی کوئی شخص آپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا ہو سکتا ہے وہ اوپر سیڑھیاں چڑھ کر چھت پہ ہی آپکا انتظار کر رہا ہوگا‘‘ یہ انجلی کا ہمیشہ کا معمول تھا کہ جب بھی وہ کہیں جاتی تھی تووہ لوٹنے کے بعدایک بار ضرور نیچے والوں سے دریافت کرتی تھی کہ اسکے غائبانے میں وہاں کوئی آیا تو نہیں تھا اور نیچے میں رہنے والے کرایہ دار لوگ اسکا جواب با آسانی دیا کرتے تھے کبھی کوئی کچھ انہیں دے جاتا یا انہیں کچھ بتا جاتا تو اسکی معلومات انجلی کو ہو جاتی کہ کون کب آیا اور کیا کہہ گیا یا کیا دے گیا ہے اس وجہ کر نہ کسی اور کو انکی سیڑھیاں چڑھنے کی نوبت آتی اور نہ ہی کسی کو کوئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا

 اتنے میں کسی کے زینہ پر چڑھنے کی اسے آواز ملی،اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ آواز انجلی ہی کی ہے جو اپنے کمرے کیلئے آرہی ہوگی اسکے علاوہ ادھر اور کون آئے گا وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا وہ ابھی بھی ویسی ہی دبلی پتلی نازک سی کلی لگ رہی تھی بس اسکے بال کے رنگ پہ سفیدی آنے لگے تھے اسکے ایک ہاتھ میں دو چھوٹے چھوٹے تھیلے تھے شاید وہ سبزیاں لینے گئی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ سے وہ دیوار سے لگے ریلنگ کے پائپ کا سہارا لینے کا کام کررہی تھی زینہ چڑھتے ہوئے وہ من ہی من میں یا دھیرے دھیرے بدبدا بھی رہی تھی ’’آج بہت دیر ہوگئی ہے اور انہیں زوروں کی بھوک لگ چکی ہوگی میں انہیں چائے بھی دے کرنہیں گئی تھی شاید وہ میرے انتظارمیں اور بھوک کے مارے غصہ بھی ہو رہے ہونگے ،اللہ توبہ میں یہ کیا بولے جا رہی ہوں اللہ مجھے معاف کرے اس جیسا نیک اور شریف انسان لاکھوں میں تلاش کر نے کے بعد بھی نہیں ملتا ہے‘‘ وہ دھیرے دھیرے ایک ایک کرکے سیڑھیاں عبور کر رہی تھی

آخری زینہ پہ پیر رکھتے ہوئے وہ بولی’’ کون ہو بھائی کہاں سے آئے ہو اور کس کام سے میرے پاس آئے ہو ‘‘اور یہ کہتے ہوئے انجلی اوپر آگئی اور وہ کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا

 ’’ ہاں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں پیشاور سے آیا ہوں اور تم سے ملاقات کی غرض سے یہاں تک آیا ہوں ‘‘

’’ملاقات کرنے کی کوئی خاص وجہ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ جھولہ پہ بیٹھ گئی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیاجب اسکی نظر اسکے بیگ پر پڑی تو اسے دیکھتے ہی انجلی نے اس سے پوچھا

 ’’کیا تم پیشاور سے سیدھے میرے پاس آئے ہو ‘‘ یہ کہتے وہ کھڑی ہوگئی اور بولی ’’تم باتھ روم میں جاکر ہاتھ منہ دھو کر فریش ہو جائو جب تک میں چائے تیار کر لیتی ہوں اسکے بعد ہم بیٹھ کر تفصیل سے باتیں کرتے ہیں

جب وہ فریش ہو کرباہر آیا تو انجلی چائے بنا کر آچکی تھی ٹیبل پر چائے کے تین کپ رکھے تھے

چائے کی چسکی لیتے ہوئے انجلی نے پھر پوچھا ’’ اب بتائو میرے پاس آنے کا تمہارا مقصد کیا ہے ‘‘ اس نے دوبارا اسکی وہی تصویر لفافہ سے نکالی اور اسکی جانب اسے بڑھاتے ہوئے بولا’’کیا تم اسے پہچانتی ہو ‘‘

انجلی نے اس تصویر کو دیکھتے ہی چونک گئی اور اس سے بولی ’’یہ تصویر تو میری ہے لیکن یہ تمہارے پاس کیسے آگئی یہ تو اختر پاس ہونا چاہئے تھا ‘‘جب انجلی بول رہی تھی  اس وقت اسکی پیشانی کی لکیریں حیرت سے چمک رہی تھیں اور اسکی آنکھیں نمناک سی ہوگئی تھیں ایسا لگ رہا تھاکہ کچھ ہی دیر میں وہ رو دیگی اور اسکی کیفیت دیکھنے جیسی تھی کچھ دیر کے لئے وہ سر پر اپنا ہاتھ رکھ کربالکل خاموش ہوگئی شایدوہ اختر کی یاد میں گم ہو چکی تھی یکایک وہ جھولہ سے اٹھی اورآرام دہ کرسی پر آکر بیٹھ گئی

’’کیا تم اختر کو جانتے ہو اسے کیا ہوگیا یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کرسی اسی کی ہے اور یہ چائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پھیکی چائے بھی اسی کے لئے رکھی ہے میں جب بھی چائے پیتی ہوں تو اسکے لئے ایک کپ پھیکی چائے ضرور بنا کر رکھتی ہوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے پاس ہی بیٹھا مجھ سے باتیں کررہا ہے اگر مجھ پر یقین نہ ہو تو اندر کمرہ میں چل کر دیکھ لو کہ وہ میرے کتنا قریب ہے میرے دل سے بھی زیادہ۔ ‘‘اور یہ کہتے ہوئے وہ مجھے اپنے کمرہ تک لے کر چلی گئی

اس کمرہ میں دو بیڈ لگے ہوئے تھے اور دونوں بیڈ بالکل ملے ہوئے تھے ایک بیڈ پر سفید چادر پورے سلیقے کے ساتھ بچھائی گئی تھی اور اس پر سفید غلاف لگا ہوا تکیہ تھاتکیہ کے پاس ہی ایک ناول رکھی تھی اسے دیکھاتے ہوئے انجلی نے کہا’’ یہ بستر بھی اسی کے لئے ہر روزلگاتی ہوں اور اس پر صرف اسی کا حق ہے میں اسے کسی کو چھونے بھی نہیں دیتی ہوں اگر کوئی اسے کوئی چھولیتا ہے تو میں فورا اسے تبدیل کر دیتی ہوں اسے چھونا مت نہیں تو اختر مجھ سے ناراض ہو جائے گا‘‘

’’اچھا تم مجھے ایک بار پھیکی چائے پلادو شایداس درمیان اختر تمہارے سامنے آجائے ‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ اس بستر پہ دراز ہوگیا

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انجلی اسکے قریب آکر ہم آغوش ہوگئی

تبصرے بند ہیں۔