بھنگ کے خلاف پولیس کی جنگ

ایم شفیع میر

گزشتہ روز جموں و کشمیر پولیس نے گول میں بھنگ کے خلاف جنگ کا آغاز بڑے زور و شور کے ساتھ کر دیاـ۔ پولیس نے ایسے تمام علاقوں میں بھنگ کے خلاف جنگ چھیڑنے کا عزم کرتے ہوئے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ اس کارِ خیر میں پولیس کا ہاتھ بٹائیں ـ چونکہ منشیات مکت گول وقت کا تقاضا ہے۔ گو کہ ’’منشیات سے پاک گول ‘‘کچھ سنجیدہ لوگوں کا خواب ہےلیکن وہیں پولیس کی اس مہم پر بھنگی طبقہ کے لوگوں پر شدید قسم کی مایوسی چھائی ہوئی ہےـ۔ بتایا جاتا ہے گول اس وقت اگر کسی شعبہمیںتیز رفتاری سے ترقی پا رہا ہے تو ’شعبہ بھنگ ‘ہے ـ

بھنگ کا سنگ پکڑ کر اکثر نوجوان نشہ میں دھنگ ہونے کے لئے منشیات میں مرکزی حیثیت کے حامل ’’زلس‘‘ کے مقام کا رُخ کرتے ہیں جہاں ایک بھنگی طبقہ بغیر کسی ڈر و خوف کے دھڑلے سے اس خوفناک وباء کو پھیلانے کا کام انجام دے رہا ہےـ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھنگی طبقہ نے بھنگ کی فروخت میں کئی بار جیل کے درشن بھی کئے لیکن اس کاروبار سے ناطہ نہ توڑنے کی قسم کھا رکھی ہے اور کم فہم و کم عقل قومی اثاثہ و مستقبل یعنی ہمارا نوجوان بھنگیوں کے اس مجرمانہ کاروبار کو فروغ دینے میں ایک مشینری کا کام کرتے ہیں ـ۔

پہلے روز اکیلا جانے والا نوجوان دوسرے روز جب اس بھنگی مرکز پر دنگ ہونے کی غرض سے جاتا ہے تو اپنے ساتھ کو بطورِ گاہک اپنے سنگی کو بھی ہمراہ لے جاتا ہے۔ ـ رنج و الم کا یہ مقام ہے کہ ایک طرف سے جہاں نوجوانوں کی زیادہ تر تعداد بھنگی بننے کا شرف حاصل کرتے جا رہے ہیں وہیں منشیات کے اس کاروبار کو آئے روز فروغ حاصل ہو رہا ہے اور بھنگی تاجروں کے اس مجرمانہ کاروبار کے تئیں حوصلے مزید بلند ہوتے جا رہے ہیں ـ لیکن اب اس خوفناک جن سے اپنے مستقبل کو کس طرح بچایا جائے اس کی فکر کرنا ہوگی اور کوئی ایسی تدابیر سوچنی ہونگی جس سے علاقہ کو منشیات کے اس چنگل سے چھڑایا جا سکےـ۔ منشیاتی مرکزکی حیثیت کے حامل ’’مقام زلس ‘‘جہاں سے ہم سب کا گزر ہوتا ہے اور سچ کو گلے لگا کر کہو تو ہر کوئی بھنگیوں کے اس کاروبار سے واقف ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اس سچ کو اگلنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے محض اس لئے کہ ہم سے ہمارے بھنگی بھائی ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن حماقت یہ ہے کہ ہم اپنی نسل کے دشمن بھنگی تاجروں کو ناراض نہیں ہونے دیتے مگر اپنی نسلوں کو برباد ہوتے دیکھنے پر آمادہ ہوتے ہیں، ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ ہم بھنگی تاجروں کے اس سماج دشمن طبقے کو اپنے سماج کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔

 یاد رہے اگر ہم یونہی ان سماج کے دشمنوں کو اپنے سماج کر حصہ سمجھ کر حقائق سے چشم پوشی کرتے رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جس دن یہ سماج ایک بھنگی سماج کے نام سے مشہور ہو جائے گا۔

لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ اس وقت پولیس کا ہاتھ بٹائیں اور منشیات مکت گول کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔منشیات مخالف مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جہاں پولیس عوامی تعاون کو اہم قرار دی رہی ہے وہیں پولیس کو چاہیے کہ وہ مقامی بھنگ کی فصل کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ منشیات کے ایسے نیٹ ورک پر اپنی کڑی نظر رکھے اور چھان بین کرے جس نیٹ ورک کے تحت باہر سے نشہ آور چیزوں کو لاکر گول میں سٹور کیا جا رہا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اِن نشہ آور چیزوں کو فروخت کیا جا رہا ہےـ۔ قابل غور ہے کہ اگر نشہ آور چیزیں باہر سے لائی جاتی ہیں تو کس طرح گول تک پہنچائی جاتیں ہیں اور انہیں گول تک پہنچانے میں کون لوگ مددکرتے ہیں؟

 پولیس کو چاہیے کہ وہ متحرک ہو کر کام کرے ایسا نہ ہو کہ چور گھر میں بیٹھا ہو اور تلاشی باہر کی لی جا رہی ہو۔ـ اس لئے منشیات کے اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ہر پہلو پر سوچ کر اپنی نظر بنائے رکھنا اشد ضروری ہےـ۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ والدین کی ایک ماہانہ میٹنگ بلایا کریں جہاں والدین اپنے بچوں سے متعلق اپنی آراء سے نوازیں۔ جہاں بچوں کو خطا ہوگی وہاں انہیں ہدایت کی جائے گی اور جہاں والدین لا پرواہی کے مرتکب پائیں جائیں وہاں انہیں آگاہی دی جائےـ۔ نیز سماج کے ہر فرد کو اس مہم کے ساتھ جڑنا ہوگا تبھی جا کر یہ مہم ایک کامیاب مہم کہلائی گی وگرنہ مہم کا آغاز تو ہوتا ہے لیکن انجام کے پہنچنے تک انتہا ہوجاتی ہے ـ۔ کسی بھی مہم کے ناکام ہونے کی وجہ اُس کے ساتھ اُن لوگوں کا نہ جڑنا ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں اس کی کامیابی کی کنجی کی طرح ہوتے ہیں۔ ـ لہٰذا سماج کو بہتر سمت لانے کی فکر رکھنے والے ہر فرد کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ بھنگ کے خلاف اس جنگ میں اپنا مثبت کردار نبھائے اور ایک اچھا شہری ہونے کا ثبوت پیش کر کے’منشیات سے پاک گول ‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے دم لے۔

پولیس نے ابھی تک گول میں منشیات کے کئی ایسےنیٹ ورکوں پر سے پردہ اٹھایا ہے جو کہ قابل ستائش ہے لیکن منشیات کو جڑ سے ختم کرنے میں پولیس ابھی تک ناکام ثابت ہورہی ہے اُس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پولیس کسی بھی ایسی مہم کو انجام تک پہنچانے سے قبل ہی دم توڑ دیتی ہے جومنشیات کو ختم کرنے کیلئے شروع کی گئی ہو۔ اس میں ہمارے وہ لوگ بھی قصوار ہیں جو منشیات کے کسی بھی نیٹ ورک کو بے نقاب ہونے کے بعد پولیس تھانوں کا رُخ صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ نیٹ ورک میں ملوث افراد کو سفارشی بنیادوں پر پولیس کے شکنجے سے باہر لایا جائے اور ہوتا ایسا ہی ہے کہ پولیس ایسے لوگوں کی چوڑی چکلی باتوں میں آکر خود ہی منشیات مخالف اُس مہم کا جنازہ نکالتی ہے جس کی وہ شروعات کرتے ہیں۔ ورنہ پولیس کو چاہیے کہ سماج کے ایسے دشمنوںکیلئے جب بھی کوئی بطورِ سفارشی تھانہ پر حاضر ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ منشیات کے اس گورکھ دھندے کوچلانے کا حقیقی قصوروار یہی ہے اور ایسے سفارشی افراد کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے جو مجرموں کی سفارشیں لیکر آتے ہوں۔

اس لئے پولیس کو چاہیے کہ وہ معاملے کی تہہ تک جا ئے اور چھان بین کرے کہ منشیات کے اس گورکھ دھندے کو چلانے والے سرغنہ کہیں یہی لوگ تو نہیں جو مجرموں کی سفارشیں لیکر تھانوں میں حاضریاں دیتے ہیں، اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی رہبری کو ہر گز نہ قبولیں جو سماج دشمن کاروئیوں کا حصہ ہوں۔ ایسے لوگوں جو مجرمانہ کاروائیوں کو رفع دفع کرنے میں ملوث ہوں وہ کسی بھی قیمت میں بہتر اور صحتمند سماج کے متمنی نہیں ہوسکتے۔

 لہٰذا نوجوانان ِ قوم سے گزارش ہے کہ وہ نشہ کی اس مہلک وبأ سے خود کو بچانے کے ساتھ ساتھ ایسے عناصر پر بھی اپنی نظر رکھیں جو منشیات جیسی مجرمانہ اور سماج دشمن کاروائیوں کو انجام دینے میں کسی بھی طرح کا کردار نبھا رہے ہوں۔وقت کی ضرورت ہے کہ نوجوان سامنے آکر ایسے مثبت سوچ کو جنم دیں تاکہ ایسے عناصر خودبخود عوام کے سامنے ننگے ہو جائیں جو پردے کے پیچھے سماج دشمن کاروائیوں میں ملوث ہیں اور حقیقی معنوں میں منشیات کی اس بحرانی صورتحال کے قصوروار ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔