کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

رويش کمار

جس بھیڑ کے خطرے کے بارے میں چار سال سے مسلسل آگاہ کر رہا ہوں، وہ بھیڑ اپنی سَنَک کی انتہا پر ہے یا کیا پتہ ابھی اس بھیڑ کی انتہا مزید نظر آنا باقی  ہو۔ کبھی گؤ رکشا کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کی افواہ کے نام پر کسی کو گھیر لینا، مار دینا، آسان ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے لگتا تھا کہ صرف فرقہ وارانہ بھیڑ ہے مگر اب آپ کے سامنے کئی قسم کی بھیڑ ہیں۔ اخلاق کی موت سے شروع ہوئی بھیڑ کی یہ سَنَک الور اور پَلوَل ہوتی ہوئی اب آسام سے لے کر دھليا تک پھیل چکی ہے۔ اس نے مسلمان کو ہی مارا ایسا نہیں ہے، اس نے ہندوؤں کو بھی مارا۔ صحافی شوم وِج نے لکھا ہے کہ وہاٹس ایپ سے پھیل رہی بچہ چوری کی افواہ نے گزشتہ مئی سے لے کر اب تک 29 لوگوں کی جان لے لی ہے۔ آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ یہ بھیڑ غلط ہے، جھوٹ ہے تو پھر آپ کو وزیر خارجہ سشما سوراج کے ٹوئٹر ہینڈل پر جانا چاہئے۔

جہاں ایک سینئر اور وزیر خارجہ کے عہدے پر بیٹھی وزیر کے بارے میں اتنی گالیاں لکھی جا رہی ہیں کہ ان کا ذکر کرنا یہاں ٹھیک نہیں رہے گا۔ خارجی دورے سے واپسی پر سشما سوراج نے ٹوئٹر پر دی جا رہی گالیوں کو لے کر آن لائن پولنگ شروع کر دی۔ 57 فیصد نے اسے غلط سمجھا مگر 43 فیصد نے مانا کہ گالی دینے کی زبان درست ہے۔ ان میں سے کچھ کو ان کی کابینہ کے وزیر بھی فالو کرتے ہیں۔ 24 جون کو سشما سوراج نے پہلی بار ٹویٹ کیا تھا۔ 2 جولائی تک ان کی حمایت میں کسی بھی کابینہ کے وزیر نے بیان تک نہیں دیا اور نہ ہی اس کی مذمت کی۔ بیشک آج ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سشما سے بات کی ہے اور مذمت بھی کی ہے۔ ایک کابینہ کی وزیر بھی اس طرح کے troll کے سامنے اکیلی ہیں، بے بس ہیں۔ یہ بھیڑ ایسی ہے جو اپنی سَنَک کو نظریہ سمجھ بیٹھی ہے۔ یہ اختلاف ہونے والے کے خلاف مشتعل تو ہے ہی لیکن حامیوں میں سے اختلاف کے ذرا سے سر پھوٹنے پر اس کا بھی وہی حال کرتی ہے۔ یہ بے لگام بھیڑ ہوا سے نہیں آتی، اسے ایک بند کمرے میں سیاسی حکمت عملی کے تحت آزاد کیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا ہیرو کون ہے۔ کس نے اس زبان کو سیاست کے اندر اندر منظوری دی ہے۔ آپ اس کا نام جانتے ہیں۔ ہندو اخبار نے لکھا ہے کہ سشما کو گالی دینے والے بہت سے لوگ بی جے پی کے حامی بھی ہیں اور رکن بھی۔

آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وهاٹس ایپ یونیورسٹی میں کون افواہوں اور جھوٹ کو پھیلا رہا تھا اور پھیلانے والوں کی سیاست اور نظریہ کیا ہے۔ کم از کم وزیر اعظم سشما سوراج کی حمایت میں اس کی مذمت کر سکتے تھے۔ 30 جون کو کسی عالمی سوشل میڈیا کے دن پر انہیں ٹویٹ کرنا یاد رہا، مگر سشما سوراج کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں۔ وزیر اعظم بھی کب جھوٹ بول دیں پتہ نہیں، جیل میں بھگت سنگھ سے کسی کانگریسی نیتا کے ملاقات نہیں کرنے کو لے کر جھوٹ بول دیا، جس پر آج تک صفائی نہیں دی۔ تمام برائیوں کے بعد بھی بھارت کی سیاست کی زبان کبھی اتنی بری اور شرم ناک نہیں رہی۔ اب یہ ادارہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آپ نے گوری لنكیش کے قتل کے وقت اس زبان کا نمونہ دیکھا تھا، پھر بھی بہت سے لوگ خاموش رہ گئے، تب بھی خاموش رہ گئے جب بتایا گیا کہ ایسی زبان بولنے والوں کو وزیر فولو کر رہے ہیں۔ کیا آپ کبھی اس ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں افواہوں کے پیچھے دوڑتی بھیڑ کسی کو دوڑا کر مار رہی ہو؟

مہاراشٹر کے دھلے میں بچہ چوری کی افواہ پھیل گئی۔ ساكری تحصیل کے راين پاڑا گاؤں میں اتوار کا بازار لگا تھا۔ وہاں بس سے 5 لوگ اترتے ہیں، ان میں سے ایک کسی بچہ سے بات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، تبھی لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ یہ بچہ چور ہو سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں افواہ چل رہی تھی کہ علاقے میں بچہ چور آئے ہیں۔ بس لوگوں نے اس شک کو ثبوت مان لیا اور پانچوں کو گھیر کر مارنا شروع کر دیا۔ بازار میں بھی مارا اور پھر انہیں پنچایت بھون میں بھی لے گئے۔ وہاں بند کمرے میں اتنا مارا کہ پانچوں وہیں مر گئے۔ 23 لوگ گرفتار ہیں۔ مرنے والے پانچوں گوساوی کمیونٹی کے ہیں۔ غریب خاندان کے لوگ ہوتے ہیں جو بھكشاٹن سے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے نام ہیں بھرت شنکر بھوسلے، دادا راؤ شنکر بھوسلے، راجو بھوسلے، بھرت مالوے اور انگو انگولے۔ یہ جان کی امان مانگتے رہے مگر بھیڑ کو رحم نہیں آیا۔

یہ سب خبریں چل رہی ہیں، مگر آپ سوچیے کہ لاکھوں کروڑوں فون میں وهاٹس ایپ کے ذریعہ افواہیں پھیل رہی ہیں۔ انتظامیہ کا انتباہ ہر فون میں ہر آدمی تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ دھلے کی خبر کی بحث پورے مہاراشٹر میں ہونے کے بعد بھی مہاراشٹر کے ہی ناسک میں بھیڑ پاگل ہو گئی۔

مالیگاؤں میں اگر پولیس فعال نہ ہوئی ہوتی تو چار لوگوں اور ایک بچے کے ساتھ کیا ہوتا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق آدھی رات سے تھوڑا پہلے کوئی کال آتا ہے کہ مشتبہ لوگ مالیگاؤں میں ایک بچے کو لے جا رہے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی بھیڑ نے اسے گھیر لیا۔ پولیس کے لیے بھی اس بھیڑ میں گھس کر ان چار لوگوں کو چھڑا پانا آسان نہیں رہا ہوگا۔ بھیڑ کا غصہ افواہ کی بنیاد پر تھا اور محض افواہ کی بنیاد پر اتنے لوگ قانون ہاتھ میں لینے کے لیے باہر آ گئے تھے۔ پولیس نے جن چار لوگوں کو بچایا ہے وہ پربھنی ضلع کے ہیں، اور مالیگاؤں آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک دو سال کا بچہ تھا، جو کہ انہی کا تھا۔

جب آپ ایک کمیونٹی سے نفرت کرتے ہیں یا آپ کو ٹِرین کیا جاتا ہے کہ ایک کمیونٹی سے نفرت کرو تو پھر آپ کسی سے بھی نفرت اور تشدد کرنے کے لیے ٹرین ہو جاتے ہیں۔ تشدد آپ کے سیاسی اور سماجی مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ 30 جون کو چنئی میں بھی بہار کے دو لوگوں کو بچہ چور سمجھ کر بری طرح پیٹ دیا گیا۔ گوپال ساہو اور بِنود بہار میٹرو میں کام کرنے والے مزدور ہیں اور سڑک پار کرتے ہوئے ایک بچے کو روک رہے تھے مگر لوگوں نے بچہ چور سمجھ لیا۔

آسام کے كربی لانگ ضلع میں نلوتپل اور ابھیجیت کے انصاف کے لیے فیس بک میں ایک گروپ بھی بنا ہے جسے 60000 سے زیادہ لوگ فالو کر رہے ہیں۔ 8 جون کو نلوتپل بندے اور ابھیجیت ناتھ پکنک سے واپس آرہے تھے، مگر پنجری میں ایک بھیڑ نے ان کی جیپ روکی اور اتار کر مارنا شروع کر دیا۔ دونوں آسام کے ہی رہنے والے تھے۔ انھوں لوگوں سے کہا کہ وہ بچہ چور نہیں ہیں۔ لیکن بھیڑ نے دونوں کو مار دیا۔ اس واقعہ کے ٹھیک پہلے حیدرآباد پولیس نے الرٹ جاری کیا تھا کہ سوشل میڈیا میں بچہ چوری گینگ کو لے کر افواہ اڑائی جا رہی ہے۔ وہاں بھی بھیڑ نے تین لوگوں کو گھیر کر مار دیا۔ اس کے علاوہ 10 لوگوں کو بھیڑ نے درخت اور بجلی کے کھمبے سے باندھ کر بری طرح مارا پیٹا تھا۔ ہماری ساتھی اما سدھیر نے اس پر مسلسل رپورٹ کی ہے۔

اس کے شکار چاہیں ہندو ہوں یا مسلمان زیادہ تر غریب لوگ ہیں۔ کتنی آسانی سے کسی نے افواہوں کے ذریعہ غریبوں کو افواہوں میں الجھا دیا ہے۔ جنوبی تریپورہ میں افواہوں سے لڑنے کے لیے وہاں کی حکومت نے انتظام کیا تھا۔ سكانت چکرورتی کو 500 روپے کی دہاڑی پر رکھا گیا تھا۔ سكانت جس گاڑی سے جا رہے تھے اس پر لاؤڈ اسپیکر بھی لگا تھا جس سے وہ اِناؤنس کر رہے تھے کہ ایسی افواہوں سے بچو۔ افواہ پھیل گئی کہ ایک بچے کے گردے نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں اور پولیس میں ہی جھڑپ ہو گئی۔ گردے اسمگلر سے لے کر بچہ چور گینگ کی باتیں ہونے لگیں۔ اسی جھگڑے میں سكانت پھنس گئے اور مارے گئے۔ جون کے مہینے میں ہی 10 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

2017 میں جھارکھنڈ میں ایسی ہی افواہ اڑی بچہ چوری کے گروہ کی۔ ہلدی پوخر سے راج نگر جا رہے نعیم، سجو، شیراز اور حلیم کو ایک سو سے زیادہ لوگوں نے گھیر لیا اور اتنا مارا کہ نعیم، سججو اور شیراز کی موت ہو گئی۔ اسی رات پورو سنگھ بھوم میں وکاس، گنیش اور گوتم کو بھیڑ نے گھیر لیا۔ ان تینوں کو مار دیا۔ کیا ہندو کیا مسلمان، بھارت میں نیشنل سلیبس نے ایک ایسی بھیڑ ہر جگہ تیار کر دی ہے جو کسی کو بھی مار سکتی ہے۔ جھارکھنڈ میں ایک درجن سے زیادہ موب لنچنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔

ایک ویڈیو میں قاسم نام کا نوجوان کھیت میں زخمی پڑا ہے۔ ان سے آدھی عمر کے بچے انہیں مار رہے ہیں۔ خود کو گؤ رکشا سمجھ کر قانون سے اوپر سمجھنے والے ان لڑکوں نے قتل کا پاٹھ کہاں سے سیکھا، کس سیاست سے سیکھا۔ بہت سے لوگ آج بھی اس حقیقت کو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھیڑ نے زمین پر پڑے قاسم کو پانی تک نہیں دیا۔ دہلی سے 70 کلومیٹر دور یوپی کے ہاپوڑ میں بھی ایسے ہی ایک واقعہ کے ہونے کی خبر ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ گؤ کشی کی افواہ کی وجہ سے بھیڑ نے 45 سال کے قاسم کو گھیر لیا اور مار دیا۔ 65 سال سمیع الدين زخمی ہو گئے۔ پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔

نیشنل کرائم برائنچ بیورو کے مطابق 2016 میں 63 ہزار سے زیادہ بچے غائب ہو گئے تھے۔ یہ سارے چوری کے کیس نہیں ہیں مگر تب تو اس طرح کی افواہ ہوا میں نہیں تھی اور لوگ قتل نہیں کر رہے تھے۔ ہمارے پاس اس طرح کی بھیڑ کی ذہنیت کو لے کر کوئی مکمل تحقیق نہیں ہے، نہ ہو رہی ہو گی ورنہ اس پر بات ہو سکتی تھی۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔